بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ایک جلسے سے خطاب

186

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پاکستان کی ایک ایک بوند بند کرکے اسے صحرا میں تبدیل کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پانی پڑوس میں بہہ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دریائے سندھ کا جو پانی انڈیا کا ہے اسے پاکستان نہیں جانے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کا حق ہے۔ مودی نے کوئی لفظ چبائے بغیر صاف کہا کہ اپنے کسانوں تک پانی پہنچاؤں گا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا پانی روکنے کے لیے ٹاسک فورس قائم کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بھارت کی سابق حکومتیں سوتی رہی ہیں لیکن ہم ایک ایک بوند روک کر پاکستان کو اجاڑ دیں گے۔
بھارت کی تاریخ عجیب ہے۔ بھارت خود کو دنیا کی قدیم ترین تہذیب کہتا ہے مگر اُس کی تاریخ میں تہذیب ایک نایاب چیز ہے۔ ہندو ازم میں ذاتوں کا سلسلہ روحانی اور نفسیاتی حقائق کو آشکار کرنے والی شے تھا، مگر بھارت کے برہمنوں نے ذات پات کے نظام کو ایک نسلی حقیقت بناکر شودروں اور دلتوں کی زندگی کو جہنم بنادیا۔ اس جہنم میں 45کروڑ شودر اور دلت انسانیت کے مرتبے سے بھی گرگئے۔ ہندو ازم کی رو سے شورد اور دلت ہندو ہیں مگر وہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ساتھ ایک مندر میں عبادت بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے مندر الگ ہیں۔ ان کی بستیاں جدا ہیں۔ ان کے کنویں علیحدہ ہیں۔ ان کا سایہ بھی ناپاک ہے۔ البتہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے شودروں اور دلتوں کی عورتوں کو اپنے اوپر حلال کررکھا ہے۔ چنانچہ بھارت میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ شورد اور دلت خواتین اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ جدید بھارت کے بانی موہن داس کرم چند گاندھی شودروں اور دلتوں کی حالتِ زار سے آگاہ تھے، انہیں معلوم تھا کہ شودروں اور دلتوں کی حالت کو بدلے بغیر بھارت کی ترقی اور نجات ممکن نہیں، چنانچہ انہوں نے شودروں کا مقام بلند کرنے کے لیے انہیں ’’ہری جن‘‘ یعنی بندۂ خدا قرار دیا۔ لیکن گاندھی نے ہندوؤں کے ذات پات کے نظام کو چیلنج نہ کیا، حالانکہ انہیں معلوم ہوگا کہ برہمن، شتریہ، ویش اور شودر نسلی حقیقت نہیں ہیں ، بلکہ ہندوؤں کی مقدس کتب میں صاف لکھا ہے کہ برہمن، شتریہ، ویش اور شودر انسانوں کی روحانی یا نفسیاتی اقسام ہیں۔ یہاں ان باتوں کی حقیقت کے بیان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ بھارت کی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے کسی اور سے کیا اپنے دھرم کے دائرے میں موجود لوگوں پر بھی ظلم وستم کی انتہا کردی ہے۔
ہندو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی کوئی اہم چیز بھی ہندوستان میں موجود نہیں۔ ان کے آباو اجداد عرب سے آئے۔ ان کے مقاماتِ مقدسہ سعودی عرب میں ہیں۔ چنانچہ مسلمان کبھی بھارت کے نہیں ہوسکتے۔ لیکن مہاتما بدھ تو ہندوستان کے تھے، تاہم ہندوؤں نے انہیں بھی قبول نہیں کیا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے گوتم بدھ کو عظیم تو تسلیم کیا مگر انہوں نے بدھ ازم کو بھارت کے قلب اور ہندوازم کے مرکز یوپی میں نہ ٹکنے دیا۔ چنانچہ بدھ ازم نے اپنے مراکز پیدا کیے بھی تو بھارت کے مضافات میں۔ سکھ ازم اگرچہ ہندوازم سے مختلف ہے، مگر ہندو اپنی ثقافتی قوت کے بل پر سکھوں کو اپنے اندر جذب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ چنانچہ بھارت میں سکھ، ہندوازم کی ایک شاخ محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے نام ہندوؤں والے ہیں، وہ ہندوؤں کے تہوار مناتے ہیں، انہوں نے تقسیم برصغیر کے وقت ہندوؤں کے بازوئے شمشیر زن کا کردار ادا کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ لیکن جب سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے اندراگاندھی کی حکومت کو چیلنج کیا تو اندرا گاندھی نے چند سو سکھوں کو مارنے کے لیے سکھوں کے ’’کعبے‘‘ یعنی گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کرڈالی۔ اندرا گاندھی کو ان کے سکھ محافظوں نے قتل کیا تو یہ دو سکھوں کا انفرادی فعل تھا، مگر بھارت کے ہندو دہلی میں سکھوں پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے ایک دن میں ایک ہزار سے زیادہ سکھوں کو قتل کر ڈالا۔
پاکستان کی پوری تاریخ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی نفرت، حقارت اور انتقام کی آئینہ دار ہے۔ ہندوؤں نے کبھی دل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ قائداعظم نے پاکستان بنا تو لیا ہے مگر وہ اسے چلا نہیں سکیں گے، اور پاکستان کے لوگ چار چھ ماہ میں روتے پیٹتے ہندو قیادت کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں دوبارہ ہندوستان میں شامل کرلیں۔ چنانچہ انہوں نے پہلے دن سے پاکستان کے خلاف سازشیں کیں۔ انہوں نے پاکستان کے فنڈز روک لیے۔ کانگریس کی قیادت نے کشمیر اور جوناگڑھ پر بزور طاقت قبضہ کرلیا۔ نہرو خود مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے مگر بھارت نے کبھی کشمیر میں رائے شماری کی نوبت نہ آنے دی، یہاں تک کہ بھارت نے 1971ء میں موقع ملتے ہی پاکستان کو دولخت کردیا۔ یہ بھارت کی بڑی کامیابی تھی مگر وہ اس پر بھی مطمئن نہ ہوا اور اندرا گاندھی نے اپنے ایک بیان میں یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ہم نے ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے، اور یہ کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔
مشرقی پاکستان کی طرح بچا کھچا پاکستان بھی بھارت کی ’’نظرِ عنایت‘‘ سے محفوظ نہ رہا۔ 1980ء کے وسط میں بھارت پاکستان پر بڑا حملہ کرکے اسے نیست و نابود کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ چنانچہ اُس وقت کے پاکستانی حکمران جنرل ضیا الحق نے بھارت کو جارحیت سے باز رکھنے کے لیے ’’ایٹمی دھمکی‘‘ استعمال کی۔ انہوں نے بھارت کے دورے کے موقع پر بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے صاف کہاکہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان بھارت کے خلاف ایٹم بم استعمال کرے گا۔ پاکستان کے پاس ایٹم بم نہ ہوتا اور جنرل ضیا الحق اس کے استعمال کی دھمکی نہ دیتے تو بھارت پاکستان میں مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرانے کی کوشش کرتا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو نریندر مودی کی دھمکی محض اُن کے شوقِ تقریر کا نتیجہ نہیں۔ پاکستان کی صحافت اور سیاست کے بعض مسخروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی یوپی اور پنجاب کے ریاستی انتخابات میں فتح کے لیے ایسی باتیں کررہے ہیں۔ لیکن جو ملک آدھا پاکستان ہم سے جدا کرچکا ہو اُس کے بارے میں اس طرح کی قیاس آرائی کو نرم سے نرم الفاظ میں احمقانہ اور مجرمانہ میں قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بھارت امریکہ اور یورپ کا اتحادی بن چکا ہے اور بھارت کے نئے اتحادی اُس کو خطے کی بالادست قوت اور چین کا بہترین حریف بنانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ بھارت کو سرمایہ بھی فراہم کررہے ہیں، ہر طرح کی ٹیکنالوجی بھی دے رہے ہیں، یہاں تک کہ امریکہ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور جوہری کلب کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ بھارت کی قیادت کو اپنی اس نئی اہمیت کا پوری طرح احساس ہے اور وہ خدا کے لہجے میں یونہی کلام نہیں کررہی۔ اسے معلوم ہے کہ طاقت کے اکثر اہم مراکز بھارت کے ساتھ ہیں۔ یہ تمام مراکز پورے خطے کو بھارت کے تحت دیکھنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے سوا سارک کے تمام ممالک بھارت کے باج گزار بن چکے ہیں۔ بھارت نے اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کو سبوتاژ کرکے اپنی علاقائی طاقت کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی اصل قوت یہ ہے کہ پاکستان چین کی اہم تجارتی شاہراہ اور اس کے سیاسی و اقتصادی استحکام کی ایک علامت بن چکا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے جرنیلوں اور نوازشریف نے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ زمانے کے الٹ پھیر کا حاصل ہے۔ لیکن اس منظرنامے میں پاکستان کی سب سے بڑی کمزوری میاں نوازشریف ہیں جن کی شخصیت ابھی تک ایک جانب امریکہ اور یورپ مرکز ہے اور دوسری جانب وہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ میاں نوازشریف کا کوئی نظریۂ حیات ہے نہ ان کا کوئی تہذیبی اور تاریخی شعور ہے۔ ان کی شخصیت دولت مرکز ہے۔ اس دولت کا بڑا حصہ اُس سرمائے سے فراہم ہوا ہے جسے دنیا Dirty Money کہتی ہے۔ میاں نوازشریف اپنے امریکہ اور یورپ مرکز اور بھارت نواز ہونے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں مگر جرنیلوں کی اجتماعی طاقت ان چیزوں کے اظہار کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان کے جرنیل خود امریکہ اور بھارت کے خوف میں مبتلا رہے ہیں لیکن ان میں کچھ اور نہیں تو تھوڑی بہت ’’قوم پرستی‘‘ پائی جاتی ہے۔ میاں صاحب اس قوم پرستی سے خائف ہیں مگر جنرل راحیل شریف کے رخصت ہونے سے میاں نوازشریف کو بڑا حوصلہ ملا ہے اور وہ آنے والے دنوں میں امریکہ اور یورپ مرکز اور بھارت نواز ہونے کا اظہار کرسکتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے سعودی عرب میں طویل جلاوطنی گزاری۔ اس عرصے میں وہ چاہتے تو عربی سیکھ لیتے یا اسلامی علوم و فنون کا مطالعہ کرلیتے، مگر اس عرصے میں میاں نوازشریف کو جو کام اہم لگا وہ یہ کہ سر پر مصنوعی بال اگالیے جائیں۔ میاں صاحب کے علم، فہم اور پسند کی سطح اس سے زیادہ بلند نہیں۔ اسی سطح سے شہہ پاکر نریندر مودی پاکستان کو صحرا بنانے کے منصوبے پر پوری تندہی کے ساتھ عمل کرسکتے ہیں۔
nn

حصہ