13133(کا مین پوری اور پان۔۔۔۔۔منہ کے کینسر کا سامان(زاہدعباس

358

130چپن کی وہ سرمائی یادیں اب بھی میرے ذہن میں اسی طرح محفوظ ہیں جیسے کیمرے میں پُرانی تصویریں محفوظ ہوتی ہیں۔ مجھے یاد ہے، موسم سرما آتا تو ہم سارے بہن بھائی رات میں نانی اماں کے ساتھ لحاف میں گھس کر اُن سے مزے مزے کے قصے کہانیاں سنا کرتے۔ سردیاں شروع ہوتے ہی امی ابو کا خشک میوے، پنجیری اور دیسی انڈوں پر بڑا زور ہوتا۔ سردیوں کی وہ یادگار راتیں اب بھی ذہن کے کسی گوشے میں تازہ پھولوں کی طرح محفوظ ہیں۔ قصّے کہانیوں کے بعد امی ابو بھی ہم سے کئی سوالات کرتے، جو بچّہ دُرست جواب دیتا، اسے چھوٹے موٹے انعامات خشک میوہ جات کی صورت، تو کبھی خوب صورت کہانیوں کی شکل میں ملتے، جس سے مطالعے کا شوق بھی ہم بچّوں میں پروان چڑھتا۔ نانی امّاں کی کہانیوں کا موضو ع بھی کچھ ایسا ہوتا کہ سیکھنے کا موقع ملتا، ساتھ ہی سب بچّوں کی معلومات میں اضافہ بھی ہوتا۔ اس زمانے میں قریباً ہر گھر میں خشک میوہ جات پر بڑا زور رہتا، جو سردیوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت کو بڑھانے میں مہمیز کا کام کرتے۔ ہم سب بہن بھائی رات میں لِڈو، چور سپاہی، نام چیز جگہ جانور یا شخصیات بُوجھتے۔ کوئی بھی بچّہ ایک شخصیت کا نام سوچ لیتا اور باقی بچّوں کو دس سوالوں میں اس کا نام بُوجھنا ہوتا۔ گھر کے بڑے بھی کبھی ان کھیلوں میں شریک ہوجاتے اور خوب مقابلہ ہوتا۔ چوں کہ یہ سارے کھیل گھر کے اندر ہوتے، اس لیے کبھی ہمیں والدین کی ڈانٹ نہیں کھانی پڑی۔ پھر بڑوں کی صحبت میں بیٹھ کر ہم بچّوں کی تر بیت بھی ہوتی گئی، جو آگے چل کر سب کے کام آئی اور یہ اُسی تربیت کا اثر ہے کہ ہم سے کبھی کسی کو شکایت نہ ہوئی۔ پھر یوں ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز تبدیل ہوتی چلی گئی، نہ وہ مجلسیں رہیں نہ بزرگوں کے درمیان بیٹھنے کی روایات۔ گھر والوں کی عدم توجہ کے باعث بچوں نے باہر کی صحبت اختیار کرلی۔ دوستوں کے ساتھ گلی کے کونے پر لگے ڈبّو، اِسنوکر ان کے پسندیدہ کھیل بن گئے۔ خشک میوے کی جگہ میٹھی چھالیا نے لے لی، پھر میٹھی سے تمباکو والی چھالیا چبائی جانے لگی اور پھر باہر ڈبّو، اِسنوکر کی صحبت میں بیٹھنے والا بچّہ دیکھتے دیکھتے اپنے ساتھیوں کی طرح گٹکا ، مین پوری، ماوا جیسے نقصان دہ نشوں کا عادی بن گیا۔
آج رنگ برنگی پیکنگ میں کئی ناموں سے فروخت ہوتے گٹکے، ماوے نوجوانوں کی پسندیدہ خوراک بنے ہوئے ہیں۔ درجن بھر سے بھی زیادہ ناموں سے بازاروں میں فروخت ہوتے یہ نشہ آور مسالے ہر آنے والے دن کے ساتھ اپنے خریداروں میں اضافہ کررہے ہیں، یعنی شوق کے نام پر اس زہر کو اپنے جسم میں اُتارنے والوں کی تعداد روز بہ بروز بڑھتی جارہی ہے۔ میں نے کئی برانڈ کے گٹکے، ماوے، مین پوری صرف اسی خیال سے خرید کر چکھے کہ میں ذرا اس بات کا مشاہد ہ کروں کہ آخراس میں ایسا ہے کیا، جس کی وجہ سے شہر کا ہر دوسرا، تیسرا نوجوا ن کھانے کے لیے بے تاب ہے۔ میں نے خوب صورت پیکنگوں میں لپٹی اس سو غات کا جائزہ لیا تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔۔۔انتہائی درجے کی خراب چھالیا، ڈامر نما بد بو دار کتّھا بڑے صاف ستھرے رنگین کاغذ میں پیک کیا گیا تھا، اس سے آگے بڑھے تو انڈین121خشک گٹکا، رتن، پان پراگ، نہ جانے اس جیسے کتنے ناموں سے فروخت ہوتے ’’گند‘‘ کو لوگ مزے سے کھانے میں مصروف نظر آئے۔ بازار میں فروخت ہوتے گٹکوں میں جاوید گٹکا، عارف گٹکا، سلیم گٹکا، شبیر گٹکا، حیدری گٹکا وغیرہ وغیرہ۔۔۔یہ فہرست اتنی طویل ہے جسے یاد رکھنا عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ دوران سروے مجھے اس وقت بڑی حیرت ہوئی جب ایک نوجوان نے دکان دار سے یہ کہہ کر ماوا طلب کیا:
’’دو گو لی مار دو۔۔۔‘‘میرے حیرت زدہ انداز پردُکان دار نے مجھے بتایا کہ یہ بہت مشہور ماوے کا نام ہے۔ گولی مار ماوا مارکیٹ میں آج کل بڑی تیزی سے گردش کررہا ہے۔ اس دُکان دار نے دورانِ گفتگو مجھے کئی نشہ آور چیزوں کے بارے میں بتایا، جن کی فروخت کھلے عام جاری ہے۔ ایک آئٹم جو ’’کراچی سے لاہور‘‘ نام سے فروخت ہورہا ہے، گاہک اسے کراچی ٹو لاہور کہہ کر طلب کرتے ہیں۔ عجیب عجیب نام سے فروخت ہوتے گٹکے اور ماوے اپنی جگہ، درجن بھر سے زیادہ قسم کی مین پوریاں کھاکر شہر کے نوجوان اپنی صحت برباد کررہے ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں کافی علاقوں کا دورہ کیا۔ ایک عام گاہک کی حیثیت سے میں نے جو معلومات حاصل کیں، وہ میرے لیے انتہائی حیران کن تھیں۔ گٹکا بنانے کے لیے نا جانے کون کون سے کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں، خا ص طور پر چھالیا کو گلانے کے لیے بیٹری کا پانی اور تیزاب کا استعمال قریباً ہر گٹکے اور مین پوری میں کیا جاتا ہے، جس کا مقصد چھالیا کی ساخت کو نرم کرنا ہوتا ہے۔ چونے اور کتّھے کی جگہ ایسے کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں، جن کی رنگت کتّھے جیسے ہوتی ہے، یوں ان تمام چیزوں کو خطرناک کیمیکلز اور خراب تمباکو سے تیار کرکے گٹکے کی صورت ہمارے نوجوان بڑے شو ق سے کھاکر شہر کی سڑکوں اور گلیوں کو رنگین کرتے پھر رہے ہیں۔ انہیں اپنے ہی محلے میں مضر صحت گٹکے کا شکار وہ لوگ نظر نہیں آتے، جن کی زندگی کے لیے یہ زہر قاتل بن چکا ہے۔
مجھے محمد قدیر نامی ایک شخص نے بتا یا کہ گٹکا کھانے کی وجہ سے ان کے قریبی دوست کو کینسر ہوگیا تھا۔ ڈاکٹروں نے دوران علاج آپریشن کرکے جبڑے کا سا را گوشت نکال دیا، بعد ازاں سرجری بھی کر دی گئی، لیکن کینسر اتنا پھیل چکا تھا کہ زندگی نہ بچائی جاسکی۔ اس نے مزید بتا یا کہ دوست کے انتقال کے بعد ان کے گھر والوں کی زندگی انتہائی کسم پرسی میں گزر رہی ہے اور گھر میں بڑھتی غربت نے ڈیرے ڈال دیے ہیں، مرنے والا ہی گھر کا واحدکفیل تھا۔ اسی طرح کے واقعہ بیان کرتے ہوئے مجھے ایک اور شخص ظفر نے بتایا کہ اس کا ایک دوست سوتے ہوئے اکثر منہ میں گٹکا رکھ کر سوجاتا تھا۔ اس عمل کی وجہ سے اس کی زبان پر دانہ بن گیا، جو رفتہ رفتہ کینسر کی شکل اختیار کرگیا اور دوران علاج ہی مختصر عرصے میں اس کا انتقال ہوگیا ۔
لوگوں سے معلومات لینے کے دوران مجھ پر نئے نئے انکشا فات ہورہے تھے۔ اسی دوران میری حیرت کی انتہانہ رہی، جب محلّے کی ایک خاتون نے مجھے بتا یا کہ میں گزشتہ بیس برس سے گٹکا کھارہی ہوں اور بالکل ٹھیک ہوں۔ بعض متاثرین نے انہیں اپنے جبڑوں کی سُکڑنے کی وجہ گٹکا اور مین پوری ہی بتائی، لیکن وہ کوئی نصیحت پکڑنے کے لیے تیار نہ تھیں، جب کہ اس وقت میرے ذہن میں آرہا تھا کہ ان جیسے ہی تو ہزاروں لوگ ہیں جو سب کچھ جاننے کے باوجود گٹکا کھا کر کینسر جیسے موذی مرض کو دعو ت دیتے پھر رہے ہیں۔ مجھے ان خاتون کے ساتھ ساتھ ان ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں سے ہمدردی ہے، جو جانتے بو جھتے بھی ایک ایسا عمل کرنے میں مصروف ہیں، جس کی منزل صرف اور صرف اذیت ناک موت ہے۔
میں نے لوگوں سے معلومات کرنے کے بعد جناح ہسپتال کا رُخ کیا۔ میں یہ چاہتا تھا کہ اس بارے میں ڈاکٹروں سے بھی رائے لی جائے کہ آیا اس بات میں کتنی حقیقت ہے کہ کینسر جیسے مرض میں مبتلا زیادہ تر افراد کا تعلق گٹکا، پان ، مین پوری کھانے ہی سے ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس مرض میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے پاس جو مریض اس موذی مرض میں مبتلا ہو کر آتے ہیں ان میں اکثریت ان مریضوں کی ہوتی ہے، جو گٹکا اور مین پوری کا استعما ل کرتے ہیں۔ اس قسم کی چیزوں کے استعمال کی وجہ ہی سے کینسر ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ لوگوں کو ان مضر صحت اشیا کے استعمال نہ کرنے کا درس دے دے کر تھک چکے ہیں ۔
قارئین، یہاں میں یہ بھی بتا تا چلوں کہ سندھ حکومت کو متعدد بار سندھ ہائی کورٹ سے نشہ آور اشیا کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی ہدایت جاری کی گئی، کئی مرتبہ ہائیکورٹ نے حکومت سندھ کو پابند بھی کیا، لیکن انتظامیہ نے ہمیشہ عدالت کے فیصلے اور ہدایات کو نظر انداز کیا (نظرانداز کرنے کی وجہ تو آپ سب سمجھ ہی گئے ہوں گے) یہی وجہ ہے کہ آج شہر کی گلیوں او ر با زاروں میں گٹکے، مین پوریاں، ماوے کھلے عام فروخت کیے جارہے ہیں، جنہیں ہر نوجوان آسانی سے خرید سکتا ہے۔ موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ نے حلف اُٹھاتے ہی بڑ ی سختی سے انتظامیہ کو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا اور ہدایات جاری کی تھیں کہ فوری طور سے شہر کراچی سے ان نشہ آور اشیا کا خاتمہ کیاجائے۔۔۔ وہ ہدایت اور احکامات کہاں گئے، کسی کو خبر نہیں؟ آج بھی درجنوں سیلز مین گٹکے اور مین پوری سے بھرے تھیلے موٹر سائیکلوں پر لاد کر با زاروں اور گلیوں میں بڑے دھڑلے کے ساتھ سپلائی دینے میں مصروف ہیں۔ انہیں حکومتی احکامات، کسی بھی انتظامیہ کا کوئی ڈر نہیں۔۔۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ زہر بنانے والوں کے ہاتھ قانون سے بھی لمبے ہیں۔ انہیں یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ پولیس ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ وہ اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ پیسے کے سامنے لوگوں کی زندگیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے میں یہ ممنوعہ اشیا ہیں، لیکن گٹکا بنانے اور سپلائی کرنے والوں نے کھلے عام ان کی فروخت کرکے حکومت کو بتا دیا ہے کہ ان سے بڑا کوئی نہیں۔۔۔زہر بیچنے والوں کے پھلتے پھولتے کاروبار سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت سندھ اس مافیا کے سامنے پوری بے بس ہوچکی ہے۔ شہر کراچی میں فروخت ہوتے چھالیا نما زہر کی سپلائی رکوانے کے لیے حکومت کو سنجیدگی سے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ ملک کے مستقبل کے معماروں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکے، ایسے قوانین بنانے ہوں گے، جن کے تحت کسی بھی ایسی جان لیوا چیز، جس میں نشہ آور کیمیکل شا مل ہوں یا جس سے عوام کی صحت کو خطرات لاحق ہوں، فروخت کرنا بڑا جرم قرار پائے۔ اس طرح کے اقدامات ہی سے معاشرے میں پھیلے زہر سے آنے والی نسلوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے!!

حصہ