(جمہوریت کے لئے اتنا تو برداشت کلرنا ہوگا (اوریا مقبول جان

384

یوں لگتا ہے یہ ہمارا قومی رویہ ہے کہ اگر کوئی ہماری خامیاں بیان کرے، ہماری خرابیوں اور غلطیوں کے بارے میں سوال کرے تو ہم اس کا جواب دینے کے بجائے مخالف کی خامیاں، خرابیاں اور غلطیاں گنوانے لگ جاتے ہیں۔ سیاست دانوں میں تو یہ رویہ آپ کو ہر ٹی وی کے ٹاک شو میں بدرجۂ اتم نظر آئے گا۔
اس رویّے پر ہمارے دانش ور، تجزیہ نگار اور کالم نگار اکثر تنقید کرتے نظر آتے ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کبھی کسی نے ان کے نظریات و خیالات کی خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کی، انھوں نے بھی اس کا جواب دینے کے بجائے تنقید کرنے والے کے نظریات و خیالات کے لتے لینے شروع کردیے۔ اس رویّے میں کمال اُن دانش وروں اور تجزیہ نگاروں کا ہے جو جمہوری نظام کے مدح خواں ہیں اور اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں۔
اگر جمہوریت سے جنم لینے والی ’’اکثریت‘‘ کی ’’آمریت‘‘ کے بارے میں گفتگو کی جائے تو وہ اس بہت بڑی اور بنیادی خرابی کا جواب نہیں دیں گے بلکہ فوراً اپنے آپ کو امتِ مسلمہ سے خارج کرکے پوری اسلامی تاریخ میں پائی جانے والی خرابیوں کا ذکر اس انداز سے کریں گے جیسے یہ کہہ رہے ہوں کہ اگر تم جمہوریت کو نہیں مانتے ہو تو بتاؤ مسلمانوں نے خود کون سے کارنامے تاریخ میں چھوڑے ہیں اور کون سی قابلِِ تقلید طرزِِ حکومت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انھیں جمہوری نظام میں دفاع کے قابل صرف ایک ہی خوبی نظر آتی ہے کہ اس کے ذریعے ایک بدترین حاکم کو پانچ سال بعد حکومت سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے، جب کہ آمریت میں آدمی قابض ہوجائے تو پھر مر کے جاتا ہے یا پھر جنگ و جدل سے۔
کاش وہ تاریخ کے یہ ورق بھی الٹتے کہ خلافت کے اعلیٰ و ارفع نظام کے تیس سال سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے تخلیق کردہ معاشرے کی مرہونِ منت تھے، جو تعصبات سے بالاتر تھا، ذمے داری کے خوف سے عہدہ لینے سے دور بھاگتا تھا۔ اپنے جانشین اولاد نہیں، اہل لوگوں کو چنتا تھا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ رائے یا ووٹ کے لیے جاننے اور نہ جاننے والے کے درمیان تمیز رکھتا تھا۔ یہ ایک ایسا جمہوری معاشرہ نہیں تھا جس میں عظیم دانش وران اور مداحینِ جمہوریت کی رائے یا ووٹ ڈیڑھ سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کے برابر ہوتا ہے۔ جہاں ایک تہجد گزار، عابد و زاہد اور ہیروئن کا دھندا کرنے والے سے حکومت چلانے کے لیے برابر رائے لی جاتی ہے اور ان کا وزن بھی برابر ہوتا ہے۔
ہم اپنا کاروبار چلانے، اپنی اولادوں کا رشتہ کرنے، بازار سے کوئی چیز خریدنے کے لیے بھی اُن سے رائے لیتے ہیں جنھیں اس کا علم اور تجربہ ہوتا ہے۔ ذاتی معاملات میں ہم جمہوری مزاج اور جمہوری رویّے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی مالک نے اپنی فیکٹری کے مزدوروں سے ووٹ لے کر یہ فیصلہ کیا ہو کہ نیا یونٹ لگاؤں یا نہ لگاؤں۔۔۔ تمام جاننے والوں سے ووٹ لے کر بیٹی کا رشتہ کیا ہو۔۔۔ یا پھر محلے بھر کے افراد سے اکثریتی رائے کی بنیاد پر مکان میں ایک کمرے کا اضافہ کیا ہو؟ دنیا کے تمام انسانوں کی زندگی ہر معاملے کے بارے میں اہل الرائے یعنی رائے دینے کی اہلیت رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کے درمیان تقسیم ہوتی ہے۔
امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک دنیا کے کسی ملک میں بھی کوئی شخص اپنے ذاتی معاملے میں اُس شخص سے رائے نہیں لے گا جو اس معاملے میں جاہل اور لاعلم ہو۔ لیکن جمہوریت کا یہ نظام انسانی رویوں کے بالکل برعکس تخلیق کیا گیا۔ لیکن میرے اللہ نے تو انسانوں کی درجہ بندی کررکھی ہے۔’’اے نبیؐ، کہہ دو، کیا برابر ہوسکتے ہیں سمجھ والے اور بے سمجھ، اور سوچتے وہی ہیں جن کے پاس عقل ہے۔‘‘ (الزمر۔9)
ایک اور جگہ تو اللہ نے واضح اعلان کردیا: ’’اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا فریفتہ کرنے والی ہو۔ پس اے لوگو، جو عقل رکھتے ہو! اللہ کی نافرمانی سے بچو، امید ہے تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔‘‘ (المائدہ 100)
اللہ نے بار بار قرآن پاک میں انسانوں کی اکثریت کو نہ جاننے والے، نہ شعور رکھنے والے اور نہ عقل رکھنے والے کہا ہے، بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا ’’اے نبیؐ اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو گے جو زمین پر بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پر چلتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔‘‘ (الانعام:116)
یہی اکثریت کا ظلم و ناانصافی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں اقلیت سہہ رہی ہے اور اب امریکا کے عوام اس کا مزا چکھیں گے۔
جمہوریت کیسے آہستہ آہستہ اکثریت کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ تم اس ملک پر اپنی آمریت قائم کرسکتے ہو۔ امریکا میں ڈالے گئے گزشتہ 16سال کے ووٹوں کا PEW نے تجزیہ کیا ہے۔ یہ امریکا کا سب سے معتبر تحقیقی ادارہ ہے۔
اس کے نزدیک سفید فام مذہبی تعصب نے ٹرمپ کی صدارت کی راہ ہموار کی۔ یہ تعصب 2000ء کے الیکشن سے آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا اور اب یہ امریکی سیاست پر مکمل طور پر چھا گیا ہے۔ جارج بش نے دوسری دفعہ جب 2004ء میں الیکشن لڑا تو اسے سفید فام ایونجلیکل عیسائیوں نے 78 فیصد ووٹ دیے اور جان کیری کو 21 فیصد، پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے بش کو59 فیصد اور کیری کو 40 فیصد، سفید فام کیتھولک عیسائیوں نے بش کو 56 فیصد اور کیری کو 43 فیصد۔ جب کہ یہی کیتھولک اگر لاطینی امریکی یعنی ہسپانوی تھے تو انھوں نے بش کو 33 فیصد اور کیری کو 65 فیصد ووٹ دیے۔
وہ لوگ جو مذہب کو نہیں مانتے تھے ان میں سے 67 فیصد نے کیری کو، 31 فیصد نے بش کو ووٹ دیا۔ چونکہ بش ایک شدت پسند اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کا عَلم بردار تھا، اس لیے سفید فام عیسائی اکثریت نے اسے منتخب کروایا۔ یہ تعصب آہستہ آہستہ نکھرتا گیا اور ٹرمپ کو سفید فام ایونجلیکل عیسائیوں نے 81 فیصد، پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے 58 فیصد، سفید فام کیتھولک نے 60 فیصد اور عیسائیوں کے ایک ’’صوفیانہ گروہ‘‘ مورمون (Mormon) نے 61 فیصد ووٹ ڈالے۔ جب کہ ہیلری کلنٹن کو لامذہب لوگوں نے 68 فیصد اور ہسپانوی عیسائیوں نے 67 فیصد ووٹ ڈالے۔ ٹرمپ امریکی جمہوریت میں سفید فام عیسائی اکثریت کے تعصب کو آہستہ آہستہ اس مقام پر لانے کی علامت ہے جہاں کئی سو سال بعد گوروں نے ایک بار پھر امریکا کو فتح کیا ہے، اور یہ صرف ایک جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے۔
جمہوریت کی جب بات ہوتی ہے تو اس کی اعلیٰ صفات اور اقدار کی بات ہوتی ہے۔ کوئی دنیا میں نافذ بدترین جمہوری حکومتوں کا ذکر نہیں کرتا، اچھی مثالیں دے کر ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ بہتر نظام ہے۔ آمریت کو گالی دینا ہو تو کسی کو سنگاپور کا ’’لی کوآن ہوا‘‘ یاد نہیں آتا، کوئی مہاتیر محمد کا نام نہیں لیتا جو اقتدار چھوڑ رہا تھا تو قوم رو رہی تھی۔ کوئی معیشت دانوں کے بتائے اس اصول کو بیان نہیں کرتا کہ قوموں کی ترقی ہمیشہ ایک خیرخواہ (Benevolent) آمر کے زمانے میں ممکن ہوتی ہے۔ کوئی چین کی ترقی کا ذکر نہیں کرے گا۔ اسلام میں رائے کے لیے ایک معیار مقرر ہے۔ اگر ووٹ دینے کے لیے 18سال کی عمر کی شرط رکھی جا سکتی ہے تو پھر مزید شرائط کے طور پر پڑھا لکھا ہونا، ایمان دار ہونا، جرم سے پاک ہونا جیسی شرائط رکھ کر ووٹنگ کارڈ بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کوئی مشکل بات نہیں۔ یہ سب ممکن ہے اگر نیت نظام کے نفاذ کی ہو۔ آمریت میں تو آمر کے خلاف جلوس نکال کر، تحریک چلا کر اسے نکالا جا سکتا ہے، کیونکہ آمر ایک گالی ہوتا ہے۔ لیکن اگر جمہوریت میں اکثریت کی آمریت نافذ ہوگئی اور پھر وہ تاریک رات کی طرح برسوں پر محیط ہوگئی تو ایسے ظالموں کو تخت سے کون اتارے گا؟ اقلیت کو اکثریت کے عذاب سے نجات کون دلائے گا؟ کیا وہ ملک سے ہجرت کرجائیں جیسے ٹرمپ کے جیتنے کے بعد امریکا کے عوام نے کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ملکوں میں شہریت کی اتنی درخواستیں جمع کروائی ہیں کہ ان کے سسٹم بیٹھ گئے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے ان ملکوں میں جانے سے اگر وہاں بھی اکثریت کا تعصب جاگ گیا تو پھر کیا ہوگا؟ میرے عظیم دانش ور کندھے اچکا کر کہیں گے ’’جمہوریت میں اتنا تو برداشت کرنا ہوگا‘‘۔ لیکن جو اپنا جمہوری وطن چھوڑ کر بھاگے اور دوسرے جمہوری ملک میں بھی اکثریت کی آمریت کے ظلم کا شکار ہو گئے تو ان کے لیے بقول ذوقؔ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
nn

حصہ