(اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہوں گے (تنویر اللہ خان

1071

جماعت اسلامی نہ محض مذہبی جماعت ہے اور نہ ہی نری سیاسی جماعت ہے، لہٰذا اس کا مقصد نہ اپنے عقائد کو مسلط کرنا ہے اور نہ ہی کسی بھی طرح اور بلامقصد اقتدار کا حصول ہے، بلکہ جماعت اسلامی زمین پر اللہ کے نام اور نظام کو بلند اور نافذ کرنے کا مشن رکھنے والی تحریک ہے۔ اپنے قیام سے آج تک جماعت اسلامی اپنے اس مشن کو پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ستّر برس کی مسلسل جدوجہد اور اُس کے نتائج کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نظام کا قیام عملاً ناممکن ہے۔ ایسے لوگوں سے عرض ہے کہ اللہ نے ہم پر اسلامی نظام کا نفاذ فرض نہیں کیا ہے بلکہ اس نظام کے قیام کی کوشش فرض کی ہے۔ اسی لیے روزِ آخرت ہم سے نظام اسلام کے قیام کا نہیں بلکہ اس نظام کے قیام کی کوشش کا حساب لیا جائے گا۔
اسلام کا نفاذ ایک کٹھن جدوجہد ہے، اس راستے کے مسافر رکاوٹوں اور ناکامیوں سے تھک جاتے ہیں اور اُن پر مایوسی کا غلبہ ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اُن کے عزم اور حوصلوں کو تازہ کیا جائے۔ یہ اجتماع راہِ حق کے مسافروں کے حوصلوں اور جذبوں کو بلند اور مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔
ہمارے دینِ اسلام میں نافذ جسمانی فرض عبادات نماز، روزہ، حج بھی اجتماع کا تقاضا کرتی ہیں۔ دن میں پانچ بار مسلمانوں کو جمع ہوکر باجماعت نماز پڑھنے کا حکم ہے تاکہ اگر کوئی کمزور پڑگیا ہو تو نماز کے ذریعے اُسے طاقت اور اپنے دوسرے بھائیوں سے مل کر حوصلہ ملے۔ اسی طرح سے تمام مسلمانوں کو ایک ساتھ ایک وقت، ایک ہی طریقے پر روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ سب ایک ساتھ ایک دوسرے کی مدد سے اللہ کے مطیع و فرماں بردار بندے بن سکیں۔ اورسال میں ایک بار دُنیا بھر سے مسلمانوں کو حج کے لیے ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے۔ یہ تمام عبادتیں بندے کو اُس کا مقصد یاد کراتی ہیں، اور مقصد کو حاصل کرنے کا جذبہ بڑھاتی چڑھاتی ہیں۔
اسی طرح آج کی دُنیا میں بھی یہ کام مختلف طریقوں سے انجام دیا جاتا ہے، مثلاً افواج سالانہ مشقیں کرتی ہیں تاکہ اُن کی تربیت تازہ ہوجائے، مختلف اداروں میں وقتاً فوقتاً ریفریشر کورسز ہوتے ہیں، گاہے بہ گاہے ملازمین کو ٹریننگ کروائی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر تربیت کے لیے بیرونِ ملک بھی بھیجا جاتا ہے۔
جماعت اسلامی کے اجتماعات کی یہی غرض ہوتی ہے۔ 27-26 نومبر کو ایک منزل کے مسافر، ایک نصب العین رکھنے والے، اپنی ذات، رنگ ونسل، زبان، قبیلہ اور قوم کی تقسیم سے بالاتر ہوکر صرف اللہ کی رضا اور اُس کے حکم کو زمین پر نافذ کرنے کے عزم کو تازہ کرنے کے لیے بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے مزار کے پہلو میں موجود باغ جناحِ میں جمع ہورہے ہیں۔
اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش کرنے والوں کو پُراعتماد ہونا چاہیے کہ دُنیا میں آج تک اسلامی نظام کے سوا کوئی اور نظام اپنی اصل روح اور تفصیل کے ساتھ کبھی بھی اور کہیں بھی ایک لمحے کے لیے بھی رائج نہیں ہوا ہے، مثلاً جمہوریت، مارکس ازم، سوشلزم وغیرہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے دعوے کے مطابق مکمل شکل میں نافذ نہیں ہوئے ہیں۔
جمہوریت کو خدائی نظام کا درجہ دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف بات کرنے کو گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ جمہوریت کے عَلم برداروں سے سوال ہے کہ کیا مکمل جمہوریت دُنیا کے کسی بھی گوشے میں ایک لمحے کے لیے بھی نافذ ہوسکی ہے؟ جب کہ اسلامی نظام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس برس، پھر خلافتِ راشدہ کے چالیس برس اور اُس کے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ کے ڈھائی برس قائم رہا۔ اس طرح کُل ملا کر ساڑھے باون برس اسلامی نظام اپنی اصل روح کے ساتھ دُنیا میں رائج رہا ہے، اور اس کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک کسی نہ کسی شکل میں کچھ نہ کچھ اسلام دُنیا پر نافذ رہا ہے۔ لہٰذا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جب آدھی صدی تک اسلام دُنیا پر نافذ رہ چکا ہے توآج بھی اس کا قیام ممکن ہے۔
یہ اجتماع بھی دراصل اسلامی نظام کے نفاذ کی شمع کو جلائے رکھنے اور اس کے شعلے کو بلند کرنے کی کوشش ہے۔ یہاں اپنے فرض کا احساس رکھنے والے، اللہ کے راستے میں اپنا مال خرچ کرنے والے، اللہ کے کاموں میں اپنا وقت دینے والے، سفر کی مشکلات برداشت کرنے والے، مختصر سے سامان کے ساتھ زندگی گزارنے کی تیاری کا شوق رکھنے والے جمع ہوئے ہیں۔ یہاں جذبۂ ایثار اور نیکی سے بھرے لوگوں کا جوڑ ہوگا، اس اجتماع میں ہر عورت اور مرد محض اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے ایمان کو تازہ کرنے کی غرض سے شرکت کرنے آیا ہے، لہٰذا ان لوگوں کا سفر بھی عبادت، ان کا قیام بھی ثواب، ان کی بے آرامی بھی آرام سے بھری ہوئی، ان کی بے خوابی بھی بڑے خواب لیے ہوگی۔
اس اجتماع کو ’’اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ کے عنوان سے منسوب کیا گیا ہے۔ اجتماعِ عام دو دن جاری رہے گا۔ ان دو دنوں میں آپ کے بسترکا پڑوسی، آپ کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا ہوا شخص، وضو کے انتظار میں کھڑا فرد، ہر جانب ایک ہی منزل کے مسافر اور ایک ہی طریقۂ سفر پر متفق لوگوں کا جم غفیر ہوگا۔ ہر آدمی کی ترجیحات اور دلچسپی ایک ہی ہوگی۔ ایسا ماحول آپ کو اپنے گھر یا اپنے شہر میں نہیں مل سکتا۔ لہٰذا ان دو دنوں کی عارضی اسلامی معاشرت کو غنیمت جانتے ہوئے اس ماحول سے فائدہ اُٹھائیں، اس ماحول کو اپنے اندر تقویٰ کی افزائش کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں۔ ان دو دنوں میں ہر کام نمازوں کے اوقات کے مطابق ہوں گے لہٰذا یہ دو دن اپنی نمازوں کو سنوارنے کا بھی اچھا موقع ہوسکتا ہے۔ اپنے اندر نیکیوں کو پروان چڑھانے، اللہ سے تعلق کو مضبوط بنانے، باہمی ایثار اور قربانی کو برتنے کا اس سے اچھا وقت آپ کو میسر نہیں آئے گا۔
اجتماع سے ملنے والا ایمان، علم، جذبہ، حوصلہ دیرپا ہوسکتا ہے اگر ہم یک سوئی کے ساتھ اجتماع میں شریک ہوں، اپنے جسم و جان سے اجتماع میں حاضر رہیں، یہاں ہونے والے پروگرامات پر اپنی آنکھوں، اپنے کانوں کو لگائے رکھیں۔
اس طرح کے اجتماعات میں شرکاء جب ایک دوسرے سے اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو شیئر کرتے ہیں تو اُنھیں کام کی نئی راہیں سُجھائی دیتی ہیں، اجتماع کے ذریعے نئے آنے والوں کو جماعت اسلامی کا مقصد اور مقصد کو حاصل کرنے کے طریقوں اور راستوں سے آگاہی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ جو لوگ پہلے سے جماعت سے وابستہ ہیں اُن کو اپنے نصب العین کی یاد دہانی ہوتی ہے اور اُن کے حوصلوں کو تازگی ملتی ہے۔
آپ کے سامنے بانئ پاکستان کی قبر ہے جن کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے نفاذ کے لیے ایک خطہ زمین حاصل کیا تھا۔ اس جدوجہد میں وہ لوگ بھی سرگرم رہے جو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ پاکستان نہیں جاسکیں گے، لیکن تمام مسلمانوں نے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کی، جو انڈیا میں رہ گئے اُنھوں نے خود کو گروی رکھ کر پاکستان ہمارے سپرد کیا، لیکن برصغیر کی تقسیم نے مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کو نہال کیا۔ اس کی وجہ صرف اور صرف اُن کی مخلص قیادت تھی۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد انڈیا سے جاگیرداری کو ختم کردیا گیا، لیکن پاکستان کو جاگیرداروں، مفاد پرستوں، بددیانتوں کے حوالے کردیا گیا، جس کے نتیجے میں آج انڈیا کی ریل سے لے کر اُن کی حکومت، اُن کی جمہوریت سب ہمارے لیے مثال بنی ہوئی ہیں، اور قائداعظم نے پاکستان کا جو خواب دیکھا تھا اور ہمیں دکھایا تھا وہ خواب سُہانے کے بجائے ڈراؤنا ہوگیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو خوف، بدامنی، بے روزگاری جیسے آسیب کے حوالے کردیا ہے۔ حکمرانوں کے کاروبار چمک رہے ہیں اور عوام کا چولہا بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے پاکستان کے صنعتی مستقبل کو تاریک کردیا ہے۔ پاکستان میں اگرچہ سونے کے ذخائر نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہمارا ہر شہری خوشحال ہوسکتا ہے۔
سی پیک کی صورت میں پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہونے کو ہے۔ جس طرح پاکستان کے قیام میں ہماری کوششوں سے زیادہ اللہ کی منشاء کا دخل تھا، اسی طرح چین سے گوادر کا راستہ جو چند برس پہلے ہمارے گمان میں بھی نہیں تھا، گوادر کے سمندر کی گہرائی اور اس کے ساحل کی وسعت کا ہمیں اس درجہ اندازہ نہ تھا۔ پاکستان کی جغرافیائی ہیئت بھی اللہ کی ہم پر مہربانی ہے۔
سی پیک اللہ کی طرف سے اہلِ پاکستان کے لیے خوشحالی کا پروانہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر پاکستان کی حکمرانی چوروں، بدعنوانوں اور ہوس پرستوں کے ہاتھوں میں رہی تو خوشحالی کا یہ پروانہ ہمارے گلے میں غلامی کا پھندا بھی بن سکتا ہے، اگر ہمارے حکمران اپنے پیٹ کے لیے ہی سوچتے رہے تو اس جیسے سو سی پیک بھی پاکستان کے ایک بھوکے کا بھی پیٹ نہیں بھریں گے۔ اگر ہمارے حکمران اسی طرح عوام کے حلق سے نوالہ چھین چھین کر بیروں ملک جائدادیں بناتے رہے اور پاکستان کا سرمایہ اسمگل کرکے بیرون ملک بینکوں میں جمع کرتے رہے تو یہ سرمایہ نہ ان ہوس پرست حکمرانوں کے کام آئے گا اور نہ ہی عوام کے دن بدلیں گے۔ ماضئ قریب میں شاہ ایران، حسنی مبارک، صدام حسین، قذافی کے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔
الحمدللہ پاکستان میں سوچنے کے زاویے تبدیل ہورہے ہیں، حکمرانوں نے میڈیا کو صرف اپنی تشہیر اور عوام کو غافل کرنے کا ذریعہ سمجھا تھا لیکن اللہ نے اُس کے پیچھے کچھ اور چھپا رکھا تھا۔ روایتی اور غیر روایتی میڈیا بہت سی خرابیوں کے ساتھ عوام کی دینی و سیاسی تربیت کا مثبت کام بھی کررہا ہے، لوگ اپنے حقوق اور فرائض سے واقف ہورہے ہیں، صحیح اور غلط میں فرق کو سمجھ رہے ہیں، ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان کے مشکل دن ختم ہونے کو ہیں۔
یہ اجتماع بھی پاکستانیوں اور اہلِ سندھ کے لیے امید اور خوشحالی کا پیغام لائے گا۔ وہ پیغام جو علامہ اقبال ؒ کا خواب تھا، اور قائداعظمؒ کی جدوجہد کا مقصد تھا، اور یہی مولانا مودودیؒ کی جماعت کی منزل ہے۔
nn

حصہ