تنویر فاطمہ

1167

کون سانکاح زیادہ بابر کت ہوگاَ ؟
حضرت سعید بن مسیبؒ کی ایک نیک سیرت بیٹی تھی۔ خلیفہ عبدالملک کی طرف سے کئی بار اس کے بیٹے ولید کے لیے پیغام آچکا تھا۔ خلیفہ عبدالملک حضرت سعید بن مسیب جیسے نیک، پرہیزگار، عالم فاضل تابعی کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کی شدید آرزو رکھتا تھا، مگر سعید بن مسیب کسی دنیوی جاہ و جلال کو خاطر میں لانے والے نہیں تھے۔ انہوں نے انکار کردیا۔ ان کا یہ انکار خلیفہ کو خلافِ توقع بڑا ناگوار گزرا۔ اس نے مختلف طریقوں سے پہلے تو حضرت سعید بن مسیب پر دباؤ ڈلوایا، جب اس میں ناکام ہوا تو پھر سختیاں شروع کردیں اور طرح طرح کی اذیتیں دینے لگا۔ سعید بن مسیب نے سب کچھ برداشت کیا مگر راضی نہ ہوئے اور صاف صاف کہہ دیا کہ میں کسی دنیادار بندے کو اپنی لختِ جگر دے کر اپنی اور اس کی عاقبت برباد نہیں کرسکتا۔ بالآخر خلیفہ مایوس و پریشان ہوکر رہ گیا۔
خلیفہ کو بیٹی کی طر ف سے صاف جواب دینے کے چند دن بعد حضرت سعید نے محسوس کیا کہ ابووداعہ آج کل کچھ دنوں سے غیر حاضر ہیں۔ آخر کچھ دنوں کے بعد جب ابووداعہ دوبارہ آئے تو حضرت سعید نے ان کو درس کے بعد روک لیا اور چند دن غیر حاضر رہنے کی وجہ پوچھی۔
ہونہار شاگرد غمگین لہجے میں جواب دیتے ہیں ’’استادِ عظیم دراصل میری بیوی کا چند دن قبل انتقال ہوگیا ہے، اب چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان کی دیکھ بھال اور گھر کا کام کاج مجھے ہی کرنا پڑتا ہے، اس وجہ سے درس سے محروم رہا۔‘‘
حضرت سعید نے ان کو حوصلہ اور تسلی دی، ساتھ ہی حیرت سے پوچھا کہ ’’تم نے اطلاع کیوں نہ دی تاکہ میں کفن دفن کا بندوبست کردیتا اور اس کا جنازہ بھی پڑھ لیتا۔‘‘
’’استاد صاحب! آپ تو مصروف آدمی ہیں، اس لیے میں نے آپ کو زحمت دینا مناسب نہ سمجھا‘‘۔ ابووداعہ نے جواب دیا۔
’’اچھا اب یہ بتاؤ تم نے دوسری شادی کی فکر کی ہے یا نہیں؟‘‘
’’محترم شیخ مجھ جیسے غریب بے نوا اور پھر چھوٹے بچوں کے ساتھ کون رشتہ دیتا ہے! میں نے دوسری شادی کے لیے کوشش کی ہے مگر ناکام ہوکر رہ گیا ہوں۔‘‘
استاد صاحب بولے ’’کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں تمہیں اپنی فرزندی میں قبول کرلوں؟ تمہارے پاس علمِ دین ہے، اللہ اور رسولؐ کی محبت ہے، اس لیے میں تمہیں ترجیح دیتا ہوں۔‘‘
ابووداعہ کا منہ کھلا رہ گیا۔ ان کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ ابھی چند دن پہلے ہی کی تو بات تھی کہ امیرالمومنین اپنے بیٹے کے لیے رشتہ طلب کررہے تھے، ان کو صاف جواب دے دیا گیا تھا۔ فوراً بولے ’’محترم استاد صاحب اس سے بڑی میری خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے!‘‘
حضرت سعیدؒ نے فوراً تین، چار درہم، کھجور اور شہد کے شربت پر اپنی بیٹی کا نکاح ابووداعہ سے چند لوگوں کی موجودگی میں پڑھا دیا۔ اس طرح مسنون نکاح کا فریضہ انجام دیا گیا۔
اب ابووداعہ اٹھ کر گھر جانے لگے۔ بڑے ہی خوش و خرم تھے۔ جاتے ہی ماں کو خوش خبری سنائی۔ ساتھ ہی ماں بیٹے کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ وہ بیوی کو گھر لانے کے لیے ضروری سامان کیسے مہیا کریں؟ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ ماں بیٹا دونوں نے روزہ افطار کیا۔ سوچوں اور فکروں میں غلطاں تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ابووداعہ نے آگے بڑھ کر پوچھا ’’کون۔۔۔؟‘‘
’’میں ہوں سعید‘‘۔ آواز بڑی معروف تھی۔ ابووداعہ کو پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہ لگی۔ حیران ہوئے کہ حضرت سعیدؒ تو مسجد اور گھر کے سوا کہیں آتے جاتے ہی نہیں۔ اللہ خیر کرے۔۔۔ دروازہ کھولتے ہی عرض کیا ’’السلام علیکم یاشیخ! آپ نے مجھے بلوایا ہوتا، خود آنے کی زحمت کیوں فرمائی؟ فرمائیے کیا حکم ہے؟‘‘
وہ گویا ہوئے ’’میں نے سوچا جب تمہاری بیوی موجود ہے تو تم تنہا کیوں بسر کرو، لہٰذا میں تمہاری بیوی کو تمہارے پاس لے آیا ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہا اور بیٹی کو اشارہ کرکے گھر کے اندر داخل کردیا اور خود اسی وقت واپس ہوگئے۔
ابووداعہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ گھر کی چھت پر چڑھ کر ہمسایوں کو آواز دی اور اعلان کردیا کہ ’’حضرت سعید بن مسیبؒ نے اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ کردیا ہے اور اسے اب میرے پاس پہنچا گئے ہیں۔‘‘
جب والدہ نے سنا تو کہنے لگیں ’’پہلے مجھے موقع دو کہ میں دلہن کو تمہارے لیے بناؤں، سنواروں‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے بیٹے کو مبارک باد دی۔ پڑوسیوں نے بھی مبارک باد دی۔ سبھی حیران تھے کہ حضرت سعید بن مسیب جیسے عظیم شخص نے امیرالمومنین عبدالملک کی خواہش کو ٹھکرا کر ابووداعہ جیسے غریب شخص کو کیسے منتخب کرلیا؟ بعدازاں جب ابووداعہ اپنی بیوی کے پاس پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ پیکرِ حسن و جمال ہی نہیں حافظہ قرآن و سنتِ رسولؐ کی عالم، حقوقِ شوہر سے واقف، علم و تہذیب سے آراستہ اور فرشتہ صفت خاتون ہے۔ ابو وداعہ کا سر اللہ کے حضور شکرانے کے طور پر جھکتا چلا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت سعید بن مسیبؒ ایک جلیل القدر تابعی تھے۔ وہ اسلام کے درخشاں و تابندہ ستاروں میں سے تھے۔ دولت سے بے نیازی، اقتدار سے دوری میں اپنی مثال آپ تھے۔ اپنی بیٹی کی شادی کے لیے انتخاب کا جو معیار آپ نے پیش کیا اور جس انداز سے شادی کی، تاریخ میں اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔
۔۔۔*۔۔۔
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ ایک بہت بڑے محدث گزرے ہیں۔ وہ نیکی، حسنِ عبادت، خلوص، وسعتِ علم، جذبۂ جہاد اور جواں مردی جیسی صفات میں بڑے ممتاز تھے۔ ان کے والد حضرت مبارک اپنی جوانی میں ایک دولت مند شخص کے باغ کی دیکھ بھال کیا کرتے۔ باغ کے مالک نے حضرت مبارک کی نیکی و تقویٰ کو دیکھتے ہوئے انہیں اپنا مشیر بنا لیا۔ وہ اپنے مالک کی مجلس میں بیٹھنے لگے۔ اب مالک ہر اہم کام میں ان سے مشورہ کیا کرتا تھا۔
ایک دن مالک بڑا پریشان تھا۔ کہنے لگا ’’میری بیٹی جوان ہوگئی ہے، اس کے لیے رشتے آنے لگے ہیں، مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس رشتے کا انتخاب کروں اور کس کو چھوڑوں؟‘‘
مبارک بولے ’’یہ تو ایسا پریشانی والا مسئلہ نہیں ہے۔ سنو، جاہلیت کے لوگ تو حسب نسب کو اہمیت دیا کرتے تھے، یہودی مال و دولت پر جان دیتے ہیں اور عیسائی حسن و جمال کو دیکھتے ہیں، جب کہ اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ انتخابِ ازواج کے وقت دین و اخلاق کو ترجیح دی جائے۔‘‘
مبارک کی یہ باتیں مالک کو پسند آئیں۔ گھر گیا اور بیوی سے کہنے لگا ’’اگر دین و اخلاق کو ترجیح دینا ہی اسلام کا منشا ہے تو پھر مجھے اپنی لختِ جگر کے لیے مبارک سے اچھا کوئی نوجوان نظر نہیں آتا۔‘‘
بیوی نے پہلے تو ناک منہ چڑھایا کہ ’’ہم اپنے ملازم سے بچی کا رشتہ طے کردیں!‘‘ مگر پس وپیش کے بعد وہ مان گئی، اس کی سمجھ میں آگیا کہ ان کے لیے ایسے دین دار اور خدا ترس انسان سے بہتر کوئی رشتہ نہیں اور اسی میں ان کے لیے دین و دنیا کی بھلائی ہے۔
اس طرح باغ کے مالک کی خوب صورت بیٹی کا نکاح حضرت مبارک سے کردیا گیا۔ یہ نکاح اتنا مبارک ثابت ہوا کہ اس لڑکی کے یہاں مبارک سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام انہوں نے عبداللہ رکھا۔ اور پھر یہی وہ عبداللہ بن مبارک ہیں جو بہت بڑے محدث بن کر آسمانِ علم و ادب پر درخشاں مثال چھوڑ گئے۔
نکاح کی اہمیت کے پیش نظر شریعت نے نکاح کا طریقہ بڑا سہل اور سادہ رکھا۔ حسبِ حیثیت مہر، جہیز کی کوئی پابندی یا بارات کا کوئی تکلف نہیں۔ رشتے کے انتخاب میں صرف مسلمان ہونے کی شرط۔ رنگ، قوم، قبیلہ وغیرہ کی کوئی قید نہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرامؓ نکاح کرتے تھے مگر نہ تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بروقت اس کی خبر دینا ضروری سمجھتے تھے اور نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس بات پر ناراضی کا اظہار فرمایا۔ مثلاً حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بہت مال دار تھے، انہوں نے شادی کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر تک نہ ہوئی۔ ان کے کپڑوں پر زعفران کا رنگ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ حضرت عبدالرحمنؓ نے جواب دیا ’’میں نے انصاری عورت سے شادی کی ہے‘‘۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اب ولیمہ کرو چاہے وہ ایک بکری کا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (صحیح بخاری)
نکاح کی تاکید اور فیاضی کی ترکیب:
فرد اور انسانی معاشرے کو پاکیزہ اور باکردار رکھنے کے لیے اسلام نکاح کرنے کا تاکیدی حکم دیتا ہے۔ اس سے ایک طرف انسان باحیا اور پاکیزہ کردار بنتا ہے، تو دوسری طرف خاندانی نظام مضبوط و مستحکم ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے ’’نکاح آنکھوں کو جھکاتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا ’’نکاح آدھا دین ہے۔ جس نے نکاح کرلیا اس نے اپنا آدھا دین مکمل کرلیا۔ اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔‘‘ (بیہقی)
اس طرح شادی حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے لے کر تاقیامت اہم عبادت ہے، تمام انبیاء کی سنت ہے، خاندانی زندگی کی بنیاد ہے، یہ اخلاق کی حفاظت کا ذریعہ ہے، اور اگر قدم برائی کی طرف پڑنے کا خدشہ ہو تو پھر شادی فرض ہے۔ ازدواجی زندگی کے مقاصد بہت عظیم الشان ہیں۔ اس زندگی کی خوش گواری کا راز زیادہ جہیز یا مال و دولت میں نہیں بلکہ محبت اور ایثار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوعورت دونوں کو ایک دوسرے سے فیاضانہ برتاؤ اور رحم و کرم کا معاملہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ فیاضی کا برتاؤ کرنے والا دوسروں کو مقدم رکھتا ہے اور خود کو بھول جاتا ہے۔ یہی راز ہے ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے کا کہ دوسروں کی کمزوریوں اور خامیوں کو نظرانداز کرکے اس کی خوبیوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ غصہ کرنے اور انتقام لینے کے بجائے دوسروں کو معاف کردیا جائے، رحم و کرم اور ایثار و محبت سے ایک دوسرے سے معاملہ کیا جائے۔ خانگی معاملات کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے ’’اور تم آپس میں فیاضی سے برتاؤ کرنا نہ بھولو۔‘‘ (البقرہ 237)
لہٰذا شادی کو کامیاب اور خوش گوار بنانے والا عمل یہی فیاضی والا برتاؤ ہے۔ یہاں ایثار، محبت اور وفاداری کی ضرورت ہے، اپنے آپ کو بھول کر دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھنا ہی خوش گوار زندگی کی ضمانت ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانوں میں مالی لحاظ سے فارغ البالی تو نہ تھی مگر برتاؤ اور رویوں میں اتنی خوش گواری اور بردباری تھی کہ آپؐ اپنی ازدواج کے جذبات کو ملحوظ رکھتے اور ان کی دادرسی فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ کا ارشاد ہے ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہوں۔‘‘
شادی کے ارکان
-1 ایجاب و قبول یعنی فریقین کی رضا مندی۔
-2 دو گواہوں کی موجودگی اور لڑکی کے لیے یہ ہے کہ اُس کے نکاح کا بندوبست اُس کے سرپرستوں کے ذریعے کیا جائے۔ اس موقع پر اصل رسم فرض حق مہر کی ادائیگی ہے۔ اپنی صحت اور وسعت کے مطابق جلدازجلد حق مہر ادا کرنا ضروری ہے۔ نکاح کے بعد ولیمہ کرنا مسنون ہے، مگر اس دعوت میں بھی کسی غریب کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ جیسے مال دار صحابی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
کن اقدامات سے رکنا ہے:
-1 بارات اور ولیمہ والے دن پہننے کے لیے والدین اور سسرال والے لاکھوں کے جوڑے بناتے ہیں۔ انہیں قیامت میں اللہ کے سامنے جواب دہی سے ڈرنا چاہیے۔ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک قیمتی جوڑا تھا جو مدینہ کی اکثر خواتین اپنی بچیوں کی شادی کے سلسلے میں آپؓ سے مانگ کر لے جایا کرتی تھیں۔
-2 اسی طرح لمبی چوڑی بارات کے بجائے دولہا کے والدین اور بزرگ، بھائی ساتھ چلے جائیں اور دلہن کے والدین پر اخراجات کا بار نہ ڈالا جائے۔
-3 لمبے چوڑے جہیز کا مطالبہ ممنوع ہے، لڑکی کے والدین کو مشکلات میں نہ ڈالا جائے۔
-4 بیوٹی پارلرز کا بڑھتا ہوا رجحان۔۔۔ اللہ ان سے بچائے۔ اس کے بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ حسن و جمال اور نمائشِ حسن عیسائیوں اور مغربی اقوام کی خاص کمزوری ہے، جب کہ مسلمان کا وصف سادگی ہے۔ اہلِ مغرب نے بیوٹی انڈسٹری اور اسلحہ انڈسٹری کو خوب فروغ دے کر دولت بھی حد سے زیادہ کمائی اور دنیا میں شر پھیلایا ہوا ہے۔ مشرقی اقوام کو حسن و جمال کا گرویدہ بنانا اور جسم کو خوب صورت بنانے کے لاکھوں گر سکھانا ہی ان کی کمائی کا ذریعہ ہے، اور یہی ان کی معیشت ہے، جب کہ مسلم خواتین کو اپنی حیا کو قائم رکھنا لازمی ہے۔
ان بیوٹی پارلرز کی قباحتوں اور شادی ہال کے کیمروں کو سامنے رکھیں، دوسری طرف جنتی خواتین کی صفات ملاحظہ فرمائیں جو قرآن پاک نے بیان فرمائی ہیں، یعنی ’’ان (جنت) میں شرمیلی نگاہوں والی عورتیں ہوں گی جنہیں ان اہلِ جنت میں سے پہلے کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہوگا۔‘‘ (الرحمن: 56)
-5 دلہن کو شادی کے موقع پر زیبائش کی اجازت ہے مگر شریعت کی حدود کے اندر رہ کر گھر میں ہی اس کو سجایا سنوارا جائے۔ بیوٹی پارلر ہرگز نہ بھیجا جائے۔ اگر اتنا ہی ضروری ہے تو بیوٹیشن کو گھر میں بلا لیا جائے، ورنہ ہمارے پرانے طریقے اور آداب بھی کافی اور بہترین ہیں۔ سجی بنی دلہن کو دیکھنا صرف اُس کے شوہر کا حق ہے۔ لہٰذا دلہن کے حسن و جمال کو غیر کی نگاہوں سے بہر طور بچایا جائے۔ اس کو ماڈل بنا کر پورے ہال میں گزارا جاتا ہے، پھر اسٹیج کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ ہر ایرے غیرے خصوصاً کیمرہ مینوں کی نگاہوں، حرکات اور ایکشن سے پاکباز بچیوں کو بچانا ضروری ہے۔
-6 پھر اس موقع پر مخلوط محفلیں الگ فتنہ ہیں۔ آنے والے مہمان خصوصاً بچیاں اور لڑکیاں نمائشِ حسن سے ہلڑ بازی، ہنگامہ آرائی اور ڈریس شو کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیں۔ جو دوسروں کی طرف مائل ہورہی ہوتی ہیں اور ان کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے آرہی ہوگی۔
-7 کھانے کے موقع کے مناظر قابلِ عبرت ہوتے ہیں۔ اتنی دیر بعد کھانا۔۔۔ ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے، بالکل لوٹ مار اور ہلڑ بازی کا منظر ہوتا ہے۔ یہ ’’بوفے‘‘ کا انداز۔۔۔ اس کو مسلمانوں کے آداب و طعام سے کیا نسبت! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کم کھائیں، مل کر کھائیں اور اللہ کا شکر ادا کریں تاکہ اتفاق و برکت ہو۔
-8 اس کے علاوہ شادی کی بے شمار رسوم و رواج کا بار، سب ہندوانہ تہذیب کا حصہ ہے جو دین و ایمان کے لیے بے شمار پریشانیاں اور مسائل پیدا کرتا ہے۔ جہیز، مہندی، بارات، مایوں یہ سب ہندوانہ رسمیں ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر شادیاں سنت کے مطابق سادگی سے کی جائیں تو معاشرے میں سکون ہو اور گھروں میں خوشیاں اور برکت حاصل ہو۔ کیونکہ ’’برکت کے لحاظ سے بہترین نکاح وہ ہے جس میں کم از کم مشقت اور کم سے کم خرچ ہو۔‘‘ (بیہقی، شعب الایمان)
nn

حصہ