ڈاکٹر خالد مشتاق

338

’’ڈاکٹر صاحب! میرے سینے سے سیٹیوں کی آواز آتی ہے، جب نماز پڑھتی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ سینے میں چڑیاں بول رہی ہیں۔ بہت پریشان ہوں، چلنے پر سانس پھولتا ہے، باورچی خانے میں کام نہیں کرپاتی۔‘‘
اپنا حال بتانے والی ان خاتون کی عمر 50 سال تھی۔ انہوں نے بتایا: ’’میری طبیعت کی وجہ سے بہو کے ساتھ بھی مسائل ہوتے ہیں، بہو کہتی ہے کہ اماں ویسے تو اچھی خاصی ہیں لیکن کام کا سن کر ان کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔ بہو نے جب کام کرنا شروع کیا تو اس نے کہا: دن میں مَیں کام کروں گی، آپ صرف صبح کا ناشتا بنا لیا کریں۔ لیکن میں جیسے ہی پراٹھے بنانا شروع کرتی ہوں، کھانسی ہونے لگتی ہے اور بعض اوقات اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ الٹیاں ہوجاتی ہیں۔ داماد نے اپنے بچوں کو ہمارے گھر لانا کم کردیا ہے۔ داماد اور بیٹی اکیلے آجاتے ہیں اور بچوں کو گھر ان کی دادی کے پاس چھوڑ آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب میں تنگ آگئی ہوں۔ دس سال سے میں پمپ بھی لے رہی ہوں لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
پہلے میں گولیاں کھاتی تھی، کبھی ڈاکٹر صاحب انجکشن لگا دیتے تھے۔ یہ آج سے پچیس سال پہلے کی بات ہے کہ ہر سردی میں بڑے سائز کے سُن کے انجکشن لگتے تھے، لیکن دس سال پہلے میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس گئی، انہوں نے بتایا کہ زمانہ تبدیل ہوچکا ہے، اب منہ سے دوائیں نہیں لی جاتیں، پمپ استعمال کریں۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے میری ماضی کی دواؤں اور اسپتال میں داخلے کے متعلق بھی معلومات لیں، جب انہیں پتا چلا کہ میرے تینوں بچے بڑے آپریشن سے ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ آپ سانس کی تکلیف کے لیے گولیاں کھاتی رہی ہیں۔ انہوں نے سختی سے کہا کہ آپ نے اپنی صحت کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اچھا نہیں کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں اپنی مرضی سے دوا نہیں کھاتی، ڈاکٹروں نے دی۔ شادی سے پہلے بھی مجھے یہ تکلیف تھی، لیکن دورانِ حمل سانس اور کھانسی زیادہ ہوجاتی تھی، خاص طور پر موسم کی تبدیلی تو میرے لیے اتنی تکلیف دہ ہوتی تھی کہ یہ ڈراؤنا خواب لگتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے مجھے پمپ دیا اور اس کے ساتھ ایک بوتل۔ میں نے سن رکھا تھا کہ پمپ استعمال کرنے سے بندہ اس کا عادی ہوجاتا ہے، پھر بھی میں نے یہ خرید لیا۔ لیکن چند دن میں ہی یہ بوتل ٹوٹ گئی۔ میں نے پڑھ کر طریقہ سمجھ لیا اور پمپ بغیر بوتل منہ سے کھینچ کر لینے لگی۔ ڈاکٹر صاحب اگلے ماہ بیرونِ ملک چلے گئے۔ پھر جب طبیعت خراب ہوتی، میں محلے کے ڈاکٹر صاحب کو دکھا دیتی، وہ مجھے کچھ دوا بھی دے دیتے۔ اسی دوران ہماری ایک رشتے دار نے کہا کہ حکیم صاحب سے علاج کرا لو، میری ایک سہیلی حکیم صاحب کے علاج سے ٹھیک ہوچکی ہے۔
میں نے حکیم صاحب کے پاس جانا شروع کردیا۔ میں ہمیشہ سے دبلی پتلی تھی، حکیم صاحب کے علاج سے مجھے فائدہ ہوا۔ وہ مجھے مربہ کھانے کو دیتے تھے۔ لیکن میرا وزن تیزی سے بڑھنے لگا۔ شوہر اور بچے تنقید کرنے لگے۔ ان لوگوں نے فوراً ایک ڈاکٹر کو دکھایا، جنہوں نے بتایا کہ مریضہ کو Steroids دیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے عارضی طور پر وہ بہتری محسوس کررہی ہیں لیکن جسم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ میرے سینے میں جلن رہنے لگی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ Steroid والا مربہ کھانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ گھر والوں نے حکیم صاحب سے بات کی، انہوں نے کہا کہ یہ تو برانڈڈ دوا ہے جو آپ بازار سے خرید رہے ہیں، میں نے تو کوئی غلط کام نہیں کیا، یہ بہت سے لوگوں کا آزمودہ نسخہ تھا جو پریکٹس کررہے ہیں، میں نے بھی استعمال کروا دیا۔
بہرحال اس مربے کا استعمال ترک کرنے کے بعد میری طبیعت خراب رہنے لگی، کئی مرتبہ ایمرجنسی میں جانا پڑا۔ آکسیجن بھی لگی۔ ہمارے کئی رشتے دار کہتے ہیں کہ یہ سب اس لیے ہوا کہ تم نے پمپ استعمال کیا اور اس کی عادی ہوگئی ہو۔
اب ہمارے ایک رشتے دار جو آپ سے علاج کروا رہے ہیں اور بالکل ٹھیک ہوگئے ہیں، انہوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔‘‘
میں نے خاتون سے کہا کہ آپ مجھے پمپ استعمال کرکے بتا سکتی ہیں؟ انہوں نے پرس سے انہیلر نکالا اور منہ کھول کر دو مرتبہ دبا دیا، دوا نکلی اور ہوا میں اُڑ گئی۔ مریضہ کے ساتھ جو آئے تھے انہوں نے کہا دوا تو ہوا میں اُڑ گئی۔ وہ غصہ ہوگئیں ’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے! میں دس سال سے یہ کررہی ہوں‘‘۔ میں نے انہیں اپنے کمرے میں لگے ہوئے آئینہ کے سامنے کھڑا کیا۔ انہوں نے پھر دو مرتبہ پمپ دبایا، ہوا نکلی اور آئینہ میں نظر آگئی۔ شاید دس فیصد کے لگ بھگ منہ کے اندر گئی، باقی ہوا میں اڑ گئی۔ وہ شدید غصے میں آگئیں اور اپنے گھر والوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ غصے میں ان کو چکر آگئے، انہیں بٹھایا اور پھر سمجھایا کہ کوئی مسئلہ نہیں، آپ ٹھیک ہوسکتی ہیں۔ میرے پاس انہیلر استعمال کرنے والا پمپ تھا، وہ انہیں دیا۔ انہوں نے استعمال کیا، تھوڑا فائدہ محسوس ہوا۔ آدھے گھنٹے بعد پھر نیلا والا پمپ دیا، اس کو آلہ کے ساتھ استعمال کرنے پر انہیں کافی فائدہ ہوا۔ انہیں بتایا کہ معاشرے میں سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کی وجہ سے بہت سے مسائل ہوتے ہیں۔ وہ رو پڑیں، کہنے لگیں مجھے بتائیں میرے ساتھ یہ سب کیا ہورہا ہے؟
انہیں بتایا کہ یہ حقائق جان لیں:
-1 سانس کی نالی دن میں چوڑی ہوتی ہے، رات کو ہر فرد کی سانس کی نالی تھوڑی سی سکڑ جاتی ہے، اس لیے سانس کی تکلیف اور کھانسی رات میں زیادہ رہتی ہے۔
-2 سردیوں میں سب چیزیں سکڑتی ہیں، سانس کی نالی بھی سکڑتی ہے۔ اس لیے سردی سے حفاظت نہ کی جائے تو سانس کی نالی میں تنگی ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگوں میں جنہیں الرجی ہوتی ہے، سردی میں نالی زیادہ سکڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے سینے سے سیٹیوں کی آواز آتی ہے۔
-3 نالی الرجی، گرد و غبار، کیمیکل سے متاثر ہوکر بھی سکڑتی ہے۔
-4 اس نالی کو چوڑا کرنے والی دوا پہلے انجکشن میں آتی تھی، اب دستیاب نہیں ہے۔ گولیاں یہ کام کرتی ہیں، لیکن ان گولیوں کے سائیڈ افیکٹ ہوتے ہیں، ہاتھ کانپتے ہیں، دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے۔ حاملہ خاتون کو یہ گولیاں دی جائیں تو اس کے بچے کی پیدائش نارمل نہیں ہوتی، بڑا آپریشن کرنا پڑتا ہے۔
-5 آسان طریقہ یہ ہے کہ نیبولائزر مشین کے ذریعے ایمرجنسی میں دوا دیں۔ عام حالات میں پمپ کے ذریعے دوا دیں۔ اس طرح جسم کو نقصان نہیں پہنچتا، اور منٹوں میں سانس بحال ہوجاتی ہے۔
-6 پمپ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ لال والے پمپ کی مثال چپل کی سی ہے۔ چپل پہننے سے کانٹے نہیں چبھتے، پاؤں محفوظ رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر لال والا پمپ لیتے رہیں تو سانس کی نالی محفوظ رہتی ہے اور کھانسی اور سانس کی تکلیف سے نجات مل جاتی ہے۔
-7 نیلا والا پمپ لینے سے نالی چوڑی ہوجاتی ہے اور فوری طور پر فرد کو تکلیف سے نجات مل جاتی ہے۔ سانس کی تکلیف والی حاملہ خواتین اگر پمپ لیں تو بڑے آپریشن کا امکان صفر ہوجاتا ہے۔
-8 بوتل، Spacer کے ذریعے پمپ لینے سے دوا بآسانی سانس کی نالی میں چلی جاتی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے سرنج سے انجکشن لگانا۔
میں نے خاتون کو اپنے ایک بزرگ معراج قریشی صاحب کی مثال دی۔ معراج قریشی صاحب ایک بااصول فرد ہیں، ان کی عمر 88 سال سے زیادہ ہے، انہوں نے بتایا کہ میں تو جماعت اسلامی کا کارکن ہوں، ہم نے یہ سیکھا ہے ’’صحت سب سے پہلے‘‘۔ میں نے پروفیسر غفور صاحب کی الیکشن مہم کا آغاز اپنے گھر کی چھت سے کیا تھا۔ ہمیشہ صحت کا خیال رکھا۔ اگر انسانوں کو رب کا پیغام پہنچانا ہے تو صحت کا خیال رکھیں۔
معراج قریشی صاحب کو کچھ عرصہ قبل تکلیف ہوئی تھی، میں نے انہیں انہیلر دیے۔ وہ پمپ کا استعمال کررہے ہیں۔ اب صرف لال والا پمپ لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں لال والا پمپ میں روزانہ لیتا ہوں جیسے روزانہ چپل پہنتا ہوں۔ تمام نمازیں مسجد میں پڑھتا ہوں۔ نہ بلغم، نہ کھانسی۔ اب آپ دیکھیں 90 سال کے قریب عمر ہے اور سردی میں بھی مسئلہ نہیں ہورہا۔
اس مثال کو سننے کے بعد وہ خاتون کہنے لگیں ’’جب یہ بزرگ 88 سال کی عمر میں پمپ لے کر صحت مند رہ سکتے ہیں تو میں بھی لوں گی‘‘۔ خاتون نے کہا کہ میں اپنی بچی کو آپ کے پاس لاؤں گی، اس کی ابھی شادی ہوئی ہے، اسے کھانسی کی تکلیف ہے، میں آپ سے علاج کرواؤں گی تاکہ میری بچی آپریشن سے بچ سکے۔
میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اللہ والے بزرگ ہی صحت کی قدر جانتے ہیں، اور ان کی مثال کو دیکھ کر لوگ متاثر ہوتے ہیں اور صحیح طور پر صحت مند رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حصہ