(پاکسان (سید اقبال چشتی

303

’’دوسروں کو نصحیت خود میاں فصیحت‘‘ کی بات وکی لیکس اور پانامہ پیپرز لیکس نے اچھی طرح سمجھا دی۔ دوسروں کو اپنے ملک میں سرما یہ کاری کر نے کا مشورہ دینے والوں نے خود ملک سے باہر سرمایہ کاری کی اور جائیدادیں بھی بنائیں۔ وکی لیکس کے بانی جولین اسائنج نے ایسے انکشا فات کیے کہ دنیا پر حکمرانی کر نے والے بڑے بڑے نام ہل گئے ۔
وکی لیکس کے انکشافات کے بعد بعض کو مستعفی بھی ہو نا پڑا‘ ابھی وکی لیکس کی باز گشت ختم نہیں ہو ئی تھی کہ پانامہ لیکس نے ایک بار پھر پاکستان کی سیاست میں بھو نچال پیدا کر دیا۔ تقریباً 259 پاکستانیوں کے پا نا مہ لیکس میں نام آئے جنھوں نے آف شور کمپنیوں میں پیسہ لگایا ہوا ہے اور ان کی ملک سے باہر خفیہ جائیدادیں ہیں۔ ان آف شور کمپنیوں یں سرمایہ کاری کرنے والوں میں کراچی چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سا بق صدر‘ پورٹ قاسم اتھارٹی کے سابق جنرل میجر شرمین عبید چنائے کی والدہ ‘میر شکیل الرحمن‘ کاروباری دنیاکی مشہور شخصیات‘ سابق جنرلوں، بینکرز اور سیاست دانوں کے نام ہیں۔ یہ خفیہ ریکارڈ تقریباً تیس برسو ں پر مشتمل ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لیکس میں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا نام ہے لیکن شور صرف سیاست کے حوالے سے مچایا جا رہا ہے ‘ احتساب کا شور صرف وزیر اعظم کے گرد کیوں ہے؟ کیا اس سے قبل حکو مت میں رہنے والے اس ملک اور قوم کے مجرم نہیں ہیں ۔۔۔؟چلیں اگر صرف سیاست دانوں ہی کا احتساب کیا جا ئے تو بھی غنیمت ہے لیکن پاکستان میں ایسے ایسے واقعات ہو ئے جن کی وجہ سے پاکستان کئی سال پیچھے چلا گیا‘ ان کے بارے میں پاکستانی قوم جاننا چا ہتی ہے کہ کب یہ واقعات کھل کر سامنے آئیں گے‘ کب ان رازوں سے پردہ اٹھایا جائے گا؟ کب ’’پاکستان لیکس‘‘ کے نام سے ان را زوں کو فاش کیا جائے گا۔
سب کے احتساب کے شور پر وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ احتساب 1947 سے کیا جائے جس پر جماعت اسلا می کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ اگر احتساب صرف 1985 سے ہی شروع کیا جائے تو بھی بہت کچھ سا منے آسکتا ہے‘ جس طرح تیس برسوں پر مشتمل خفیہ معلومات وکی لیکس اور پانامہ لیکس میں ظاہر کی گئی ہیں۔ اگر گزشتہ تیس برسوں ہی کا احتساب ہو جائے تو بھی غنیمت ہے کیو نکہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران ہی پاکستان میں ایسے واقعات رو نما ہوئے کہ عقل آج تک حیران ہے کہ یہ کیو نکر ہو ئے۔
ضیا الحق کے مارشل لاء کے بعد 1985 میں جمہوری عمل کا دوبارہ آغاز ہو اتھا اورغیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو کی حکو مت قائم ہوئی لیکن چند برس بعد ہی ضیاالحق نے منتخب شدہ حکو مت کو اپنے اختیارات استعمال کر تے ہو ئے ختم کردیا اور ایک بار پھر غیر جماعتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا لیکن انتخابات سے قبل ہی وہ طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گئے اور بعدازاں غیر جماعتی انتخابات کے بجائے سیاسی بنیادوں پر جماعتی انتخابات ہو ئے۔ لیکن آج تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ضیا الحق کا طیارہ کیسے تباہ ہوا؟ کیا یہ سازش تھی یا حا دثہ؟ اس کو حادثے کا رنگ دینے کے لیے امریکا نے اپنے سفیر تک کو قر بان کیا یا واقعی یہ حا دثہ تھا ؟ لیکن بعد کے واقعات اسے حا دثہ ظاہر نہیں کرتے ۔
پیپلزپارٹی جنرل ضیا کے دور میں زیرِ عتاب رہی۔۔۔ ضیا الحق نے پیپلزپارٹی کے بانی اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھا نسی پر بھی لٹکایا جس کے بعد پیپلز پارٹی کی تمام قیادت اور کارکنان خا موش تماشائی کی حیثیت سے پاکستان میں رہے‘ لیکن اچانک ایسا کیا ہو تا ہے کہ بے نظیر بھٹو پاکستان آتی ہیں اور ’’ضیا کو بھگا ئیں گے‘‘ کا نعرہ لگا تی ہیں اور پورے پاکستان میں ’’چا روں صوبوں کی زنجیر‘‘ کے نام سے مشہور ہو تی ہیں۔ جنرل ضیا الحق جس پارٹی کو اپنے گیارہ سالہ دورِ حکومت میں ختم کر نے کی کوششیں کرتے رہے‘ وہی پارٹی ان کی موت کے بعد پاکستان میں برسر اقتدار آجاتی ہے۔۔۔ کیا بے نظیر کو طیارہ سازش کا علم تھا اور اپنے وزیر اعظم بننے کا پورا یقین تھا؟ ایسے کیسے ہوگیا کہ جو تنظیم گیارہ برس تک غیر فعال رہی وہ پورے پاکستان سے سیٹیں لے لیتی ہے۔ ساری زندگی ملک سے باہر رہنے والی بھٹو کی بیٹی کچھ ہی عرصے میں ’’مقبول ترین‘‘ لیڈر بن جاتی ہیں اور دو دفعہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جس طرح ساز باز کرکے محترمہ ایک جنرل کو ہٹانے آئی تھیں اُسی طرح ان کے خلاف بھی سازشیں ہوئیں اور ایک جنرل کے دور میں ہی راستے سے ہٹا دی گئیں۔ ضیاالحق اور بے نظیر کے قا تل کون ہیں؟ یہ راز شاید ہی کبھی افشا ہو۔ پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے کس نے آئی جے آئی بنائی اور یہ آئی جے آئی نواز شریف کے ہا تھوں کب اور کیسے یرغمال بن گئی؟ کیا آئی جے آئی صرف نواز شریف کو لیڈر بنا نے کے لیے بنائی گئی تھی؟ دوسری بار انتخابات جیتنے والی آئی جے آئی مسلم لیگ نواز کی حکومت میں کیسے تبدیل ہوئی؟ اور آئی جے آئی کیونکر ختم ہوگئی؟ مارشل لاء کے خلاف تو کوئی اتحاد قائم نہیں ہوا لیکن ایک پارٹی کی حکمرانی روکنے کے لیے سب متحد ہوگئے‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ آئی جے آئی میں شامل ساری جماعتیں کسی کے اشارے پر کام کر رہی تھیں‘ کس کے اشارے پر؟ کیا ان جماعتوں کی اپنی کوئی شناخت نہیں تھی؟ پاکستان میں کئی جماعتیں اتحادی سیاست کی وجہ سے اپنی شناخت کھو چکی تھیں‘ کسی کو عقل آگئی ہے تو کوئی اب بھی اشارے پر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ شاید عقل والے زیادہ ہیں اسی لیے اب کوئی اتحاد حکومت گرانے یا کسی کو لیڈر بنانے کے لیے قا ئم نہیں ہو رہا کیونکہ اب سب کو اپنی شناخت پیاری ہے‘ جہاں شناخت کی بات چلی وہیں ایم کیو ایم اپنی قوم کو ’’شناخت‘‘ دینے کے لیے پروان چڑھتی ہے اور سندھ کے بڑے شہروں میں ایسی مقبول ہوتی ہے کہ تمام ریکارڈ توڑ دیتی ہے اور کچھ ہی عرصے میں بلدیاتی سے لے کر صوبائی اور قومی انتخابات تک ریکارڈ سیٹیں جیت جاتی ہے‘ ایم کیو ایم کے خلاف انتخابات لڑ نے والے بھی وزیر اعظم بننے کے بعد صوبائی اور قومی سطح پر ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کر تے ہیں‘کبھی بھا ئی بہن کا رشتہ تو کبھی بھائی بھائی کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔
جمہوری دور ہو یا مارشل لاء‘ سب ایم کیو ایم کو سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور کوئی بھی کراچی کا امن خراب کرنے والوں کو کچھ نہیں کہتا‘ مگر اچانک جن کو سینے سے لگا کر رکھا جاتا ہے‘ ایسا کیا ہوتا ہے کہ سب ایم کیو ایم سے دوری اختیار کر لیتے ہیں‘ ایم کیو ایم ایک جنرل کے دور میں بنائی اور پروان چڑھائی گئی اور اس پرورش کی پالیسی کو دوسرے جنرل کے دور میں مزیدتقویت دی گئی۔ کرا چی کو خون میں نہلا دیا گیا‘ اس کی رو شنیوں کو ختم کردیا گیا‘ تجارتی سرگر میاں ماند پڑ گئیں مگر سب خاموش رہے۔ کہتے ہیں کراچی اور گوادر پورٹ کے خلاف یہ سازش دبئی نے کی تھی لیکن اب گوادر پورٹ اور کراچی تجارت کے لیے آگے آرہے ہیں کیونکہ اب چین جو آچکا ہے اس لیے بھائی کا کھیل ختم‘ ابھی کھیل ختم نہیں ہوا تھا لیکن پھر بھی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین حکومتوں کی پرورش پالیسی کے باوجود لندن کیوں گیے؟ کاش کو ئی لندن لیکس ہی اس راز سے پردہ اُٹھا دے۔
لندن سے پاکستان آنے والی بے نظیر بھٹو پاکستان میں وزیر اعظم بن جاتی ہیں اور ان کے مقا بلے میں ایک سرمایہ دار نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بنتے ہیں۔ دو نوں دو‘ دو دفعہ وزیر اعظم بنتے ہیں اور دونوں کی حکومتوں کو برطرف کر دیا جاتا ہے۔ پیلپز پارٹی‘ مسلم لیگ کی حکومتیں پھر مارشل لاء اور اب پھر سے وہی سرکل گھوم رہا ہے۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ کی حکمرانی اور ایک بار پھر تیسری قوت کے آنے کی بات ہو رہی ہے‘ کیا یہ سرکل ایک بار پھر مکمل ہوگا؟ اگر نہیں تو پھر پہلے یہ سرکل کیوں مکمل ہوا‘ ناکام حکمرا نی کے جوہر ثابت کر نے والے بار بار تختِ حکمرانی پر کیسے براجمان ہو تے رہے۔ یہ لیکس بھی ایک دن با ہر آئے گی۔
جنرل ضیا کی موت کے بعد نواز شریف نے ان کی قبر پر جا کر کہا تھا کہ ’’میں ضیا کے مشن کو جاری رکھوں گا۔‘‘ جب جنرل کے دور میں میں جہاد کی تربیت اور پنجاب کے دیہات میں بڑے بڑے درختوں پر پوسٹر اور بینر آویزاں ہو تے تھے کہ فلاں دن فلاں وقت پر فلاں مقام سے جہاد کے لیے بس روانہ ہوگی لیکن اب ان پوسٹروں اور بینروں پر ’’دہشت گردوں کی اطلاع دینے والوں کو انعام دیا جائے گا‘‘ لکھا ہوتا ہے‘ یہ جہاد فساد میں کیسے تبدیل ہوا؟ (جاری ہے )

حصہ