(پنجاب :بلدیاتی انتخابات کا ایک اور مرحلہ مکمل (حامد ریاض ڈوگر

198

کچھوے سے بھی زیادہ سست رفتار سے رینگتے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا ایک اور مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔ ایک سال قبل رائے دہندگان کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کو اپنے اداروں میں خواتین، محنت کشوں، اقلیتوں اور ٹیکنو کریٹس وغیرہ کی مخصوص نشستوں پر نمائندوں کے انتخاب کا موقع 15 نومبر کو دیا گیا، تاہم یہ انتخابات بھی صوبے کی بلدیہ عظمیٰ لاہور، گیارہ میونسپل کارپوریشنوں اور 35 ضلع کونسلوں تک محدود تھے، اور ہزاروں کی تعداد میں یونین کونسلوں میں مخصوص نشستوں کے لیے 19 نومبر کی تاریخ مقرر ہے۔ اللہ کرے نچلی ترین سطح کے ان بلدیاتی اداروں کی مخصوص نشستوں پر بھی انتخابات مقررہ تاریخ کو مکمل ہوجائیں اور ان بنیادی جمہوری اداروں کی تکمیل کی جانب ایک قدم مزید آگے بڑھایا جا سکے۔
ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کی جانب سے کسی بھی مسئلے پر حکومت کے خلاف احتجاج کا عندیہ دیا جائے تو حکمران لیگ کی جانب سے فوراً اس پر تعمیر و ترقی میں رکاوٹ ڈالنے اور جمہوریت دشمنی کا الزام عائد کردیا جاتا ہے، حالانکہ دنیا بھر میں یہ امر مسلمہ ہے کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی اساس ہیں جو علاقائی اور مقامی سطح پر تعمیر و ترقی کا ذریعہ اور ضمانت ہیں، مگر جمہوریت کے عَلم بردار ہمارے موجودہ حکمرانوں نے 2008ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا وار پہلے سے کام کرنے والے منتخب بلدیاتی اداروں ہی پر کیا اور بیک جنبش قلم ان اساسی جمہوری اداروں کو ختم کردیا گیا۔ اس ضمن میں حکم جاری کرتے ہوئے یہ وعدہ البتہ ضرور کیا گیا کہ بہت جلد ازسرنو انتخابات کرواکر ان اداروں کی تشکیلِ نو کی جائے گی، مگر چھ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اس ’’بہت جلد‘‘ کی نوبت نہ آسکی، حالانکہ اس دوران ملک کی اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے بار بار حکمرانوں کو ہدایات دی جاتی رہیں کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات جلد از جلد منعقد کرائے جائیں، مگر حکمران مختلف حیلوں بہانوں سے اس معاملے کو ٹالتے رہے۔ آخر جب عدالتِ عظمیٰ نے نہایت سختی سے اپنی جانب سے مقرر کردہ حتمی تاریخ تک بلدیاتی انتخابات کا حکم جاری کیا تو مرتا کیا نہ کرتا، فرار کی کوئی راہ نہ پاتے ہوئے، مجبوراً تین مراحل میں پنجاب کے بارہ بارہ اضلاع میں باری باری بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروا دیئے گئے، اور ان انتخابات کا آخری مرحلہ گزشتہ برس 2015ء میں 5 دسمبر کو تکمیل پذیر ہوا، جس کے چند دنوں کے اندر اندر مخصوص نشستوں اور پھر ان اداروں کے سربراہوں کے انتخابات کرواکر ان بنیادی جمہوری اداروں کو فعال کردیا جانا چاہیے تھا تاکہ دیہات، قصبات اور شہروں میں مقامی سطح پر منصوبہ بندی، تعمیر و ترقی اور لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہونے کا سلسلہ شروع ہوجاتا، مگر خوئے بدرا بہانہ بسیار۔۔۔ چونکہ حکمران اپنے ہاتھوں میں مرتکز تمام تر انتظامی و مالیاتی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنا نہیں چاہتے اس لیے عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر 5 دسمبر 2015ء تک تین مراحل میں بلدیاتی نمائندوں کے براہِ راست انتخابات مکمل ہوجانے کے باوجود ان اداروں کو آج تک فعال نہیں ہونے دیا گیا۔ اب پھر عدالتی دباؤ اور اپنے کارکنوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور بددلی کو کسی قدر کم کرنے کے لیے ایک قدم مزید آگے بڑھایا گیا ہے، مگر ہنوز دِلّی دور است۔۔۔ بلدیاتی اداروں کی مخصوص نشستوں کے انتخابات تو کروا دیئے گئے ہیں مگر ابھی تک ان اداروں کے سربراہوں کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس آخری مرحلے کو حکمران مزید کتنا لٹکاتے ہیں اور کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔۔۔!!!
15 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں رحیم یار خان کے ایک ضلع کے سوا صوبائی دارالحکومت سمیت تمام ضلعی و میونسپل کارپوریشنوں کے انتخابات میں حکمران لیگ ہی کے نمائندے منتخب ہوئے ہیں، اور دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کی غالب اکثریت میں جیتنے والے نواز لیگی امیدواروں کے مدمقابل بھی اسی جماعت کے امیدوار تھے، اور ہر ضلع میں حکمران لیگ واضح دھڑے بندی کا شکار نظر آئی۔ اس ضلع سے تعلق رکھنے والا وفاقی یا صوبائی وزیر اگر ایک گروہ یعنی اپنے بھائی، بیٹے یا بھتیجے کی قیادت میں قائم شدہ گروپ کی حمایت میں سرگرم تھا تو اس ضلع سے تعلق رکھنے والے دوسرے نواز لیگی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے عزیزوں کو بلدیاتی سربراہی دلوانے کے لیے دوڑ دھوپ کررہے تھے۔ یوں جو گروپ جیتا وہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتا تھا، تو جو ہارا وہ بھی کسی دوسری جماعت کا نہیں اسی حکمران لیگ ہی سے متعلق و منسلک تھا۔ یوں اگرچہ اعلانات اور دعوے یہی کیے گئے کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی مگر عملی حقیقت یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں ’ڈسپلن‘‘ نام کی کوئی چیز نہ تو پہلے کبھی موجود تھی، نہ آج اس کا کہیں وجود ہے، اور نہ ہی آئندہ اس کی کوئی توقع کی جانی چاہیے، اور یہ معاملہ کسی ایک سطح کا نہیں، نیچے سے اوپر تک ہر جگہ یہی صورت حال ہے، جس کی ایک ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ 2007ء میں شریف برادران کی خوداختیار کردہ جلاوطنی کے خاتمے سے پہلے اور فوری بعد کے بیانات میں سارا زور اس بات پر صرف کیا جاتا رہا کہ پارٹی چھوڑ کر جانے والے ’’لوٹوں‘‘ کو کسی صورت دوبارہ پارٹی میں شامل نہیں کیا جائے گا، مگر آج وفاقی و صوبائی کابیناؤں اور جماعتی عہدیداروں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو اس میں اکثریت ان ہی ’’لوٹوں‘‘ کی نظر آتی ہے، اور جنرل پرویزمشرف کے اقتدار کے دوران قربانیاں دینے والے مخلص کارکن آج بھی محروم و مظلوم دکھائی دیتے ہیں۔
مقامی بلدیاتی اداروں کی سربراہی کے لیے جوڑتوڑ تو ان کے انتخابات کے فوری بعد ہی شروع ہوگیا تھا، مگر اب ایک اہم مرحلہ مزید طے پا جانے کے بعد اس جوڑ توڑ کی سیاست میں مزید شدت آگئی ہے۔ یوں حکمران لیگ میں گروہ بندی بھی شدید تر ہورہی ہے اور اپنی ہی جماعت کے مدمقابل گروہ کے خلاف الزامات کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہورہا ہے، حتیٰ کہ قتل تک کے الزامات سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ ابھی تک چونکہ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان نہیں کیا گیا، اس لیے اب دیکھنا ہوگا کہ شریف برادران اپنی جماعت کے مختلف دھڑوں کو گتھم گتھا ہونے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں یا اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے اس آخری انتخابی مرحلے کو مزید التوا سے دوچار کرنے اور بلدیاتی اداروں کو ابھی کچھ اور دیر تک غیر فعال رکھنے کی پالیسی میں عافیت تلاش کرتے ہیں۔ nn

حصہ