روشنی

344

داعی کے لیے ہدایت
سورہ الانعام میں اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کو چند بنیادی اصول ذہن نشین کرائے گئے ہیں۔ اس سورہ کے نزول کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیتے ہوئے 12 سال ہوچکے تھے۔ اس طویل جدوجہد کے باوجود دعوت کو قبولیتِ عام اور کامیابی نہیں مل رہی تھی۔۔۔ بلکہ آزمائشیں بڑھتی ہی چلی جا رہی تھیں۔ بہت سے لوگ حبشہ ہجرت کرچکے تھے، آپؐ کے قتل کی سازشیں ہو رہی تھیں۔ اس صورت حال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمانوں میں بے چینی تھی، ان کے دل ٹوٹ رہے تھے۔ اس سورہ میں اُنھیں تسلی بھی دی گئی ہے اور دعوت کی کامیابی سے متعلق چند بنیادی اصول بھی بتائے گئے ہیں۔
صبر:
عام طور پر انسان دیکھتا ہے کہ کسی بادشاہ کا نمائندہ جب لوگوں کے پاس اُس کے احکام لے کر جاتا ہے تو وہ اُس کی اطاعت کرتے ہیں، اور اُس نمائندے ہی سے پوچھتے ہیں کہ ہم ان احکامات پر کیسے عمل کریں کہ بادشاہ ہم سے راضی ہوجائے۔ پیغام پہنچانے والوں کا بھی ایک مخصوص انداز، رعب اور دبدبہ ہوتا ہے۔ کسی کو بادشاہ کے دربار میں صرف حاضری کا موقع مل جانا ہی شہر میں اتراتے پھرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
یہ تو معاملہ ناپائیدار دنیا کے عارضی بادشاہوں کا ہے، تو جب حقیقی بادشاہ مالک المُلک کے نمائندے لوگوں کے پاس جائیں تو اُن کا تو بہت شاندار استقبال ہونا چاہیے۔۔۔ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جانا چاہیے۔ لیکن معاملہ اس کے بالکل اُلٹ ہوتا ہے۔ اس صورت میں دعوت دینے والے اور دعوت کو قبول کرنے والوں کے ذہن میں کچھ سوالات کا پیدا ہونا فطری امر ہے: کیا ہم حق پر نہیں؟ اگر حق پر ہیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آتی؟ کب آئے گی اللہ کی مدد؟ ساتھ ہی انکار کرنے والے بھی اپنے انکار میں دلیر ہوجاتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ تم اگر حق پر ہو تو خدا تمہاری مدد کیوں نہیں کرتا، بلکہ وہ تو ہمارے ہی ساتھ ہے جبھی تو اس نے ہمیں دنیا میں عزت کا مقام دیا ہے۔ آیت نمبر 34 میں ارشاد ہوا: ’’تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انھوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انھیں ہماری مدد پہنچ گئی‘‘۔ یعنی دعوتِ دین کا کام کوئی پھولوں کی سیج پر بیٹھنا نہیں ہے۔۔۔ یہاں تمھارے لیے ہٹو بچو کی صدائیں بلند نہیں ہوں گی۔ تم سے پہلے بہت سے رسول جھٹلائے گئے، انھیں تکلیفیں دی گئیں، اس پر اُنھوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ ہماری مدد اُن تک پہنچ گئی۔ (یعنی آج اگر شیاطینِ جِن و انس متفق ہوکر تمھارے مقابلے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو تمھارے ہی ساتھ پیش آرہی ہو۔ ہر زمانے میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی پیغمبر دنیا کو راہِ راست دکھانے کے لیے اُٹھا تو تمام شیطانی قوتیں اس کے مشن کو ناکام کرنے کے لیے کمربستہ ہوگئیں۔ (حاشیہ نمبر :79)
آیت نمبر 114 میں ارشاد ہوا: ’’کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں، حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمھاری طرف کتاب نازل کردی ہے؟‘‘ (اس فقرہ میں مُتکلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور خطاب مسلمانوں سے ہے) مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے اپنی کتاب میں صاف صاف یہ تمام حقیقتیں بیان کردی ہیں اور یہ بھی فیصلہ کردیا ہے کہ فوق الفطری مداخلت کے بغیر حق پرستوں کو فطری طریقوں ہی سے غلبۂ حق کی جدوجہد کرنی ہوگی، تو کیا اب میں اللہ کے سوا کوئی اور ایسا صاحبِ امر تلاش کروں جو اللہ کے اس فیصلے پر نظرثانی کرے اور ایسا کوئی معجزہ بھیجے جس سے یہ لوگ ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں؟ (حاشیہ نمبر :81)
اللہ کے کلمات بدلے نہیں جاتے:
آیت نمبر 34 ہی میں مزید ارشاد ہوا: ’’اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ زمین پر حق و باطل کی کشمکش میں، وہ غیر فطری طریقے سے، حق پرستوں کا ساتھ دے۔۔۔ اُنھیں بیک ڈور سے اقتدار تک پہنچادے تاکہ۔۔۔ وہ اس کا کلمہ بلند کریں۔۔۔ اس کام میں کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ اس کے لیے تو انھیں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے، فطری طریقے سے ہی جدوجہد کرنی ہوگی۔
آیت نمبر 35 میں ارشاد ہوا: ’’اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو۔ معجزے دکھاکر انسانوں کی عقل و فکر کو معطل کرکے انھیں ایمان پر مجبور کرنا ہوتا تو اللہ اپنے ایک اشارے سے ہی یہ کام کرلیتا، اس کے لیے انبیا کو مصیبت میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔ اللہ نے حق اور باطل کی کش مکش کے لیے جو قانون بنادیا ہے اسے تبدیل کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ حق پرستوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے تک آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں۔ اپنے صبر کا، اپنی سچائی کا، اپنے ایثار اور اپنی قربانی کا، اپنے ایمان کی مضبوطی اور اللہ پر اپنے کامل بھروسے کا امتحان دیں۔ مصائب اور مشکلات کے دَور سے گزر کر اپنے اندر وہ صفات پرورش کریں جو صرف اِسی دشوار گزار گھاٹی میں پرورش پا سکتی ہیں۔ اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے ہتھیار سے جاہلیت پر فتح حاصل کرکے دکھائیں۔ اس طرح جب وہ اپنا سب سے اچھا ہونا ثابت کردیں گے تب اللہ کی نصرت ٹھیک اپنے وقت پر ان کی دستگیری کے لیے آپہنچے گی۔ وقت سے پہلے وہ کسی کے لائے نہیں آسکتی۔ (حاشیہ نمبر :22)
کافروں کے لیے ڈھیل:
ایک اور چیز اہلِ حق کے دل ٹوٹنے کا سبب بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ دعوت سے پہلے ہی وہ اپنے معاشرے میں اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار اور قابلیت کی وجہ سے مقبول ہوتے ہیں، ان کی گواہیاں قبول کی جاتی ہیں، انہیں سچا اور امانت دار مانا جاتا ہے۔۔۔ لیکن جیسے ہی وہ اللہ کی طرف بلاتے ہیں لوگ ان کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ جو بھی اللہ کی طرف بلائے گا۔۔۔ اللہ کی اطاعت کی طرف بلائے گا۔۔۔ وہ یہ بھی بتائے گا کہ اللہ کی اطاعت کیسے کی جائے، اس طرح وہ اجتماعی قیادت کے منصب پر آپ سے آپ فائز ہوجائے گا۔۔۔ اگر اس کی دعوت صرف وعظ و نصیحت تک رہے تو بھی قابلِ برداشت ہوتی! لیکن یہاں تو ہر معاملے میں اُس کی پیروی کرنی ہوگی، یہ بات کسی دور میں لوگوں نے آسانی سے قبول نہیں کی۔ کیونکہ اس طرح اُن کے اقتدار، ناجائز مراعات اور بداعمالیوں پر چوٹ پڑتی ہے۔آیت نمبر 33 میں ارشاد ہوا: ’’اے نبیؐ ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمھیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمھیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کررہے ہیں‘‘۔ پہلی وحی کے بعد جب آپؐ ورقہ ابن نوفل کے پاس تشریف لے گئے تو انھوں نے آپؐ کی تصدیق کے بعد کہا کہ کاش، میں اُس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔۔۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟‘‘ ورقہ نے کہا ’’ہاں! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا، جیسا تم لائے ہو تو اُس سے ضرور دشمنی کی گئی۔۔۔ اور اگر میں نے تمھارا زمانہ پالیا تو تمھاری زبردست مدد کروں گا‘‘۔ (اور ایسا ہی ہوا کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی آیات سنانی شروع نہ کی تھیں، آپؐ کی قوم کے سب لوگ آپؐ کو امین اور صادق سمجھتے تھے اور آپؐ کی سچائی پر کامل اعتماد رکھتے تھے۔ انھوں نے آپؐ کو اُس وقت جھٹلایا جب آپؐ نے اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانا شروع کیا۔ اور اس دوسرے دَور میں بھی ان کے اندر کوئی شخص ایسا نہ تھا کہ جو شخصی حیثیت سے آپ کو جھوٹا قرار دینے کی جرأت کرسکتا ہو۔ آپؐ کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل تھا اور حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ اُس نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ہم آپ کو تو جھوٹا نہیں کہتے، مگر جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں اُسے جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ اسی بنا پر یہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسلی دے رہا ہے کہ تکذیب دراصل تمھاری نہیں بلکہ ہماری کی جارہی ہے، اور جب ہم تحمل و بُردباری کے ساتھ اسے برداشت کیے جا رہے ہیں اور ڈھیل پر ڈھیل دیے جاتے ہیں تو تم کیوں مضطرب ہوتے ہو۔ (سورۃ الانعام، حاشیہ نمبر :21)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین۔
(جاری ہے )

حصہ