2 (نومبر حکومت کے اختتام کی شروعات (محمد انور

319

وزیراعظم نواز شریف نے کوہاٹ کے پی کے میں جلسہ عام سے جمعہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن کو یہی غم کھائے جارہاہے کہ ترقی کا سفر جاری رہا تو 2018 میں ان کی سیاست ختم ہوجائے گی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کے پی میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت ہوگی، ان کے اس جملے سے تحریک انصاف پر تنقید بھی سامنے آئی، جب انہوں نے کہا کہ عوام کو پتا چل چکا ہے کہ کے پی کے میں تین برس میں کچھ نہیں ہوا،آئندہ خیبرپختونخوا میں بھی مسلم لیگ کی حکومت ہوگی۔
وزیراعظم نے یہ تمام باتیں کوہاٹ میں اس وقت کہیں، جب کے پی کے میں قائم تحریک انصاف کی پوری حکومت اپنے چیئرمین عمران خان کی قیادت میں اسلام آباد میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کا گھیراؤ کرنے کی طرف گامزن تھی۔
وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اپوزیشن کو یہی غم کھائے جارہاہے کہ ترقی کا سفر جاری رہا تو 2018 میں ان کی سیاست ختم ہوجائے گی، ممکن ہے درست ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوم اس بات پر فکر مند ہے کہ وفاق اور صوبوں میں کرپٹ حکمت کا یہی سلسلہ اور اپنے مفادات کے لیے یہی طرزسیاست چلتا رہا تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
تحریک انصاف ، شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کے ساتھ مل کر مسلم لیگ حکومت کے رہنماؤں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی کرپشن کے خلاف جو مسلسل جدوجہد کررہی ہے، اس کے اب تک تو کوئی واضح نتائج سامنے نہیں آئے ہیں، تاہم ہر بار کی طرح ایک بار پھر لوگوں کو توقع ہے کہ عمران خان کی سونامی کرپشن کے سیلاب میں ڈوبی ہوئی حکومت کو بہالے جائے گی، لیکن اس کے بعد قوم جمہوری حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے فوج کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہے۔
جمہوری ملک کے عام لوگوں کی اکثریت اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ حکومتوں میں باریاں لینے والے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنما ملک کو افراتفری اور کرپشن کے سوا کچھ نہیں دے سکتے، کیوں کہ ان کی ترجیحات حکومت سے باہر رہ کر کسی بھی طرح ملک پر حکم رانی کی اور حکومت میں آنے کے بعد اپنے مفادات کی تکمیل کی ہوا کرتی ہے۔ ان مفادات میں اپنے آپ کو کرپشن سے پاک جماعت ثابت کرنے کے دعوے بھی شامل ہوتے ہیں۔
عمران خان کی جماعت کے شدید احتجاج پر وفاق کے حکم رانوں کو کے پی کے عوام کے مسائل بھی یاد آرہے ہیں اور ان کی ضرورتوں کا بھی احساس ہورہا ہے، مگر یہ سب کچھ انہیں اسلام آباد کے دارالحکومت میں تین برس اطمینان سے حکم رانی کرنے کے بعد اس وقت یاد آنے لگے، جب ان پر یکے بعد دیگرے الزامات سے لپٹی سنگ باری ہونے لگی ہے۔ خود پر لگے الزامات کو دھونے کی کوشش میں وزیراعظم نواز شریف کو کوہاٹ میں یونیورسٹی ، اسپتال اور سڑکیں بنانے کا بھی خیال آگیا اور انہوں نے کوہاٹ میں خواتین یونیورسٹی، اسپتال اور سڑکیں بنانے کا بھی اعلان کردیا ۔ قوم کو یقین ہے کہ یہ صرف اعلانات انہیں بے وقوف بنانے کے لیے کیے جارہے ہیں، جیسے 2013کے عام انتخابات کی مہم انہیں ملک سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری ختم کرنے اور معاشی ترقی کا جال بچھادینے کے وعدے اور دعوے کیے گئے تھے ۔
وزیراعظم کی کوہاٹ آمد کے موقعے پر پشاور چوک میں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی مڈ بھیڑ ہوئی، دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤکیا۔ اس دوران پولیس نے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔ وزیراعظم نوازشریف نے کوہاٹ پہنچ کر مختلف یونین کونسلوں کوگیس فراہمی منصوبے کاسنگ بنیادرکھا۔ منصوبے پر 3 ارب 81 کروڑ لاگت آئے گی۔ منصوبہ ضلع کوہاٹ کے عوام کی دیرینہ خواہش ہے۔ گیس منصوبے سے خوش حال گڑھ، چور لکی، اسرزئی، شاہپور کو گیس ملنے کے ساتھ شیر کوٹ، نصرت خیل، علی زئی اورڈھوڈہ کے عوام کو بھی گیس ملے گی۔
سیاست دانوں کوعوام کے مسائل صرف دو مرتبہ ہی یاد آئے ہیں، ایک بار عام انتخابات میں کام یابی کے لیے اور دوسری مرتبہ اپنی حکومتوں کو گرنے سے بچانے کے لیے۔ نواز شریف کو اس بار اس بات کا ڈر کچھ زیادہ ہی ہے کہ ان کی حکومت ایک بار پھر اپنی مدت مکمل کیے بغیر ختم ہوجائے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں غریب عوام کے لیے ملک میں صحت کی ناقص سہولیات کو یاد کرکے آنسو تک بہانا پڑے۔21اکتوبر کو رحیم یار خان میں غریبوں کی صحت کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوگئے، ان کا کہنا تھا کہ ایک غریب مزدور روزانہ دوسو سے تین سو روپے کماتا ہے، وہ اپنا علاج کیسے کرائے گا؟ وزیر اعظم نواز شریف کے اس سوال کا جواب تو یہی ہے کہ جب حکم ران غریب عوام کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لیتے رہیں گے اور ان کا خیال کیے بغیر اپنا علاج لندن کے اسپتالوں میں کرائیں گے تو قوم توروز بروز غریب تر ہوتی جائے گی ۔کاش کہ وزیراعظم اپنے مبینہ دل کے بائی پاس کے لیے بار بار لندن جانے کے بجائے غیریبوں کے ٹیکسوں کی آمدنی پر رحم کھاکر اور امانت میں خیانت کے ڈر سے ملک میں ہی اپنا علاج کرالیتے تو کچھ تو رقم ملک کے کام آتی ہے!!
تحریک انصاف حکم رانوں کی طرف عوام کا کیس ہی لے کر بڑھ رہی ہے تو کوئی غلط بھی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو عوام کے مسائل کے حل کے لیے ایسا ہی کرنا پڑتا ہے، یہ جمہوری طریقہ دنیا کے بیش تر ممالک میں اپنایا جاتا ہے۔ جمہوری حکم رانوں کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے اوپر لگے الزامات کا دفاع کرتے ہیں نہ کہ ان سے جان چھڑانے کے لیے دارالحکومت کو چھوڑ بھاگ نکلتے ہیں۔
وطن عزیز کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ یہاں ماضی میں حکومتیں گرانے اور حکومتیں قائم کرنے کے لیے خفیہ اداروں کا کردار بھی نمایاں رہا ہے، اس لیے حکومتوں کے خلاف جدوجہد چاہے کتنے بھی اخلاق کے ساتھ ہو، اسے عوام شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بلاجھجک اس طرح کی جدوجہد کو ’’اسٹبلشمنٹ کی چال ‘‘ قرار دے دیا کرتے ہیں۔ تاہم، موجودہ نظام میں ملک کے خفیہ ادارے جہموریت کے خلاف وہ کردار ادا کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے، جو ماضی میں کیا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کرپٹ سیاست دانوں کو جمہوری نظام کو عوامی تقاضوں، ضرورتوں اور ایمان داری سے پاک کرنے کا خیال ستانے لگا ہے۔
ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے اعلان پر نوٹس لینے اور31 اکتوبر کو ذاتی طور پرعدالت میں پیش ہونے کے حکم کے باوجود عمران کی طرف سے اس بات کا اعلان کہ ہر صورت میں اسلام آباد میں دھرنا دینگے، عدالتی حکم کو چیلنج کیا جائے گا، لگتا ہے کہ اس بار کچھ ایسا ہونے جارہا ہے، جس کی وجہ سے حکم رانوں کے ہوش اُڑچکے ہیں۔ گذشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف کے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے الزامات پر 26ارب روپے کے نوٹس بھجوائے گئے ہیں۔ اس نوٹس کے بھیجے جانے سے بھی ایسا لگ رہا ہے کہ حکم راں عمران خان کی سرگرمیوں سے پریشان ہوگئے ہیں، تاہم کرپشن کے الزامات پر قانونی کارروائی کے لیے نوٹس دینا شہباز شریف کا قانونی حق ہے۔ شہباز کی جانب سے نوٹس عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ اسلام آباداور پی ٹی آئی ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے پتوں پر بھجوایا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان ان الزامات کی معافی 14دن کے اندر اسی طرح مانگیں، جس طرح الزام لگائے تھے ۔
سوال یہ نہیں ہے کہ اس نوٹس کا کیا ہوگا؟ سوال تو یہ ہے کہ دو نومبر کو عمران خان کے دھرنے کے موقع پر کیا ہوگا؟؟ حکومت کا دھڑن تختہ یا پھر تحریک انصاف کی ایک بار پھر ناکامی!!اس سوال کے جواب کے لیے جب ملک کے سیاسی تجزیہ نگار کالم نویس اور ممتازقانون دان بیرسٹر خواجہ نوید سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ’’ حکومت کے اختتام کی شروعات ہے ‘‘ جسے انگریز ی میں Beginning of the endکہا جاتا ہے۔
nn

حصہ