میڈیا واچ

311

ایک دریافت
جماعت اسلامی کے اجتماع عام کی ایک بڑی کامیابی، ایک خوب صورت دریافت، ایک ایسی دریافت جس کی تحریک کو شدید ضرورت ہے، اور ضرورت بھی ایک آدھ نہیں ایسی بیسیوں دریافتوں کی ہے، ایسی دریافتیں اللہ قوموں کو انعام کے طور پر دیتا ہے۔
وہ دریافت کیا ہے؟
چلیں یہ بتانے سے پہلے دو ایک باتیں اور۔۔۔
قوموں کو دراصل اینٹوں اور گاروں کی عمارتوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ ہی تعمیر کا تعلق سڑکوں اور گرین لائنز کی تعمیر سے ہے، نہ ہی عمارتوں اور ہسپتالوں کی تعمیر سے۔۔۔
بلکہ تعمیر دراصل انسانوں کی تعمیر ہے۔ دنیا میں آگے بڑھنے والی قومیں اور تحریکیں دراصل وہ ہوتی ہیں جنہیں ایسے لوگ مل جائیں جو اپنے انسانی وسائل کو تعمیر کرکے استعمال کرسکیں۔
ایسے لوگ جو اسٹرے ٹیجک پلان بنا سکیں اور پھر خونِ جگر سے اس میں رنگ بھر سکیں۔۔۔
جو وسائل کو حاصل کرنے کا فن بھی جانتا ہو اور ان کے استعمال کا فن بھی۔۔۔
جو مانیٹرنگ کرنا بھی جانتا ہو اور اپنے فیصلوں کو پوری قوت سے نافذ کرنے کا حوصلہ بھی پاتا ہو۔۔۔
جو کسی اندرونی و بیرونی دباؤ کے سامنے نہ جھکتا ہو، نہ دبتا ہو۔۔۔
جس کی مضبوط شخصیت اور خوبصورت وژن اسے ممتاز بناتا ہو۔۔۔ ایسے لوگ، ایسی قیادتیں انسانوں کے لیے اللہ کا انعام اور تحفہ ہیں۔
میری ناقص رائے میں اس اجتماع کی ایک بڑی اور عظیم الشان دریافت اس اجتماع اور آنے والے دنوں میں کامیابی کا وژن، پلان، عملی خاکہ اور قوتِ نافذہ پیش کرنے والا قائد اور قیمتی دریافت ہیں امیر صوبہ خیبر پختون خوا ’مشتاق احمد خان‘
مجھے یقین ہے بڑے پیمانے پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لینے والے مشتاق بھائی آنے والے دنوں میں اثاثہ ثابت ہوں گے۔ ان شاء اللہ
اللہ انہیں اخلاص عطا فرمائے، انہیں زبان اور دل کی نرمی سے نوازے، انہیں اپنی خاص حکمت کی روشنی میں دیکھنے کی استعداد سے نوازے، جلدبازی اور غیر ضروری خود اعتمادی سے محفوظ رکھے، انہیں اچھے مشیر عطا فرمائے، خیر کو قبول کرنے کی توفیق دے اور ان سے راضی ہوجائے۔۔۔ (زبیر منصوری)
*۔۔۔*۔۔۔*
کوئٹہ دھماکا۔۔۔ اہم انکشاف
کوئٹہ میں دہشت گردوں کا منصوبہ ناکام بنادیا۔ سیکورٹی ذرائع (ایک خبر)
تفصیلات اس خبر کی یوں ہونی چاہیے کہ۔۔۔
بزدل دہشت گردوں کو مخبری ہوئی تھی کہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے نیچے بڑے پیمانے پر تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ تیل چوری کرنے کی غرض سے تین بزدل دہشت گرد اندر داخل ہوئے۔ بزدل دہشت گردوں نے 61 زیر تربیت اہلکاروں کو شہید کیا۔ 124 کو زخمی کیا۔
پھر تینوں بزدل دہشت گردوں نے کنواں کھودنا شروع کیا۔ ان کا منصوبہ تین بالٹیاں تیل چوری کرنے کا تھا۔ اسی دوران سیکورٹی فورسز آگئیں اور۔۔۔ بزدل دہشت گردوں کی خوف کے مارے گھگھی بندھ گئی۔ دو نے خوف سے کانپتے ہوئے خود کو اڑا لیا جبکہ ایک دہشت گرد خوف کی حالت میں بزدلانہ انداز میں لڑتے ہوئے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا۔
اور اس طرح سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کا ’منصوبہ‘ ناکام بنا دیا۔۔۔
اور۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ (طارق حبیب)
*۔۔۔*۔۔۔*
سانحوں کے بعد
فصیلیں بھی حصار بھی
محافظوں کے ہاتھ میں ہر ایک اختیار بھی
جری بھی، صف شکن بھی وہ
بلا کے ہوشیار بھی
حفاظتوں کے باب میں
غضب کے ہونہار بھی
سو کارِ پاسبانی میں
یہ لوگ بے مثال ہیں
مگر عجب طلسم ہے
کہ ایسے باکمال بھی ہیں بچا نہیں سکے
جہاں بھی قتل ہم ہوئے
وہاں یہ آ نہیں سکے
ہمیں بچا نہیں سکے
ہنر میں ہیں عظیم تر
پر آزما نہیں سکے
ہے ایسا کیوں؟
سوال ہے
مگر کبھی نہ پوچھیے
ہو جب بھی کوئی سانحہ
بچھیں جو لاشیں صف بہ صف
تو چپ کا اوڑھ کر کفن
لہولہان اور دریدہ لاشوں کو اٹھائیے
جواب نہ طلب کریں
سوال مت اٹھائیے
(محمد عثمان جامعی)
*۔۔۔*۔۔۔*
ہماری حالت
پچھلے ایک مہینے سے گاڑی اچانک چلتے چلتے بند ہوجاتی اور پھر دو چار دفعہ اگنیشن گھمانے کے بعد اسٹارٹ ہوتی۔ میں اپنے ایک جاننے والے تجربہ کار مکینک کے پاس گاڑی لے گیا۔ اس نے خاصی دیر چیک کرنے کے بعد بیٹری تبدیل کرنے کا مشورہ دیا اور میں نے فوراً مان لیا۔ چند دن تو ٹھیک گزرے لیکن پھر ایک دن گاڑی دوبارہ چلتے چلتے بند ہوگئی۔
ایک مرتبہ پھر اسی مکینک کے پاس گاڑی لے گیا۔ اس نے خرابی دوبارہ ظاہر ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ ایک بار پھر گاڑی کو تفصیل سے دیکھا اور مشورہ دیا کہ تمام اسپارک پلگ تبدیل کرلو۔ میں نے مشورے پر عمل کیا اور گاڑی دوبارہ چلانا شروع کردی۔
تھوڑے دن ہی گزرے تھے کہ گاڑی پھر بند ہوگئی۔ میں ایک دفعہ پھر اسی مکینک کے پاس گاڑی لے گیا اور اسے خرابی کا بتایا۔ اس نے نہ صرف افسوس کا اظہار کیا بلکہ میرے گلے لگ کر تسلی بھی دی۔ بونٹ کھولا اور گاڑی چیک کرنے کے بعد مجھے مشورہ دیا کہ احتیاطاً ریڈی ایٹر بھی چینج کروالو۔ میں نے وہ بھی کرلیا۔
کچھ دنوں بعد گاڑی دوبارہ بند ہوگئی۔ میں اسے لے کر واپس اسی مکینک کے پاس گیا، اسے خرابی کا بتایا تو وہ رونا شروع ہوگیا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ اس سے میری گاڑی کی حالت نہیں دیکھی جارہی، اس کی دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔
قریب ہی ایک ڈنڈا پڑا تھا، میں نے وہ ڈنڈا اٹھایا اور اس کی تشریف پر رکھ رکھ کر 11 ڈنڈے برسائے اور کہا: اتنے عرصے سے تم یہ ورکشاپ چلا رہے ہو، اور پھر تم اتنے ’تجربہ کار‘ ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہو، اتنے عرصے سے میں تمہیں گاڑی ٹھیک کرنے کا کہہ رہا ہوں اور اس دوران تم نے جو پارٹس کہے، وہ تبدیل کیے، جتنی مزدوری مانگی، وہ دی، اور ابھی تک گاڑی ٹھیک نہ ہوسکی۔ اب تم خراب گاڑی کو دیکھ کر جتنا مرضی رو کر دکھا لو، ڈنڈے تو تمہاری تشریف پر پڑ کر ہی رہیں گے۔۔۔
یہ کہہ کر میں نے مزید ڈنڈے اس کی تشریف پر برسانے شروع کردیے۔
نوٹ: اس واقعے کا حال میں وزیراعظم نوازشریف کے غریبوں کے لیے صحت کی ناکافی سہولیات کا ذکر کرتے ہوئے رونے سے ہرگز کوئی تعلق نہیں!!! (بابا کوڈا)
*۔۔۔*۔۔۔*
قصاص اور صحافی
روزنامہ جنگ کے مستقل کالم نگار بلال غوری نے ایک کالم میں لکھا ہے کہ قتلِ عمد میں قصاص نہیں ہوتا، یعنی ورثاء کو معافی کا حق نہیں ہوتا کیونکہ یہ جرم فساد فی الارض یعنی حرابہ ہے، جس میں معافی کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔
حرابہ یعنی فساد فی الارض جرائمِ حدود میں شامل ہے، جس میں مقدمہ درج ہونے کے بعد کسی بھی فرد کو معافی یا سزا میں تخفیف کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن قصاص، جرائم حدود میں شامل نہیں ہے۔ یہ نہ حد ہے اور نہ ہی تعزیر کیونکہ اس میں حق اللہ بھی شامل ہے اور حق العبد بھی۔
قصاص کا اطلاق قتل عمد پر بھی ہوتا ہے اور قتل خطا پر بھی۔ قتل غیرت کے معاملے میں البتہ عدالت کو وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ قصاص جرائم حدود میں شامل نہیں ہے، اس لیے اسے حرابہ قرار دینا اسلامی قانون سے محض ناواقفیت کا اظہار ہے۔
قتلِ عمد اور قصاص کے معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی سورہ بنی اسرائیل کی آیت 32 کافی و شافی ہے۔ (ڈاکٹر فیاض عالم)
*۔۔۔*۔۔۔*
کیا ’یوٹرن‘ لینا بُری بات ہے؟
اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی نظریے یا تحریک سے مڑکر نئے درست طرزِ فکر کو قبول کرلینا شرم کی بات ہے۔ حالانکہ راستی یہی ہے کہ ہم اپنی فکر و عمل کا جائزہ لیں اور غلطیوں اور حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں۔ یہی مثبت فکر اور ترقی کا راستہ ہے۔ آپس کی لڑائیوں، فرقہ وارانہ اور لسانی اختلافات سے یوٹرن لے کر امن وآشتی اور رواداری کا راستہ اپنانا ہی دانش مندی ہے۔ عوام بالخصوص دانشوروں اور علماء کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنے رویوں اور طرز فکر کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ ان کے طرزعمل نے ایک ایسا زہر گھولا ہے کہ آج ہم کرفیو زدہ، جدید رابطوں کو منقطع کرکے محصور اور خوف کی حالت میں یوم عاشور منا رہے ہیں۔ خدارا اپنے رویوں اور فرقہ وارانہ زہریلی سوچ سے باہر آئیے اور لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف دعوت دیجیے، نہ کہ اپنی خودساختہ مذہبی متشدد فکر کی طرف۔ عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ اپنے طرز فکر کے علما کی پیروی نہ کریں، بلکہ صرف اُن علما کی تقلید کریں جو کہ واقعی امت کے اتحاد، امن اور ترقی کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی محدود سوچ اور تنگ نظر رویوں سے ’یوٹرن‘ لیں۔ کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اجتماعی توبہ کریں؟ (پروفیسر انوار احمد شاہین)
*۔۔۔*۔۔۔*
غیرت کا جنازہ ہے۔۔۔ ذرا دھوم سے نکلے۔۔۔!!
اور خوب دھوم سے نکل رہا ہے۔ اسلام آباد میں ایک چائے والا ہے۔ اس کی تصویر فیس بُک پر وائرل ہوگئی۔ کمال اس کا کسب نہیں، اس کی شکل ٹھیری۔ بجا کہ خوبصورت رہا ہوگا، لیکن جس طرح اس کی قیمت لگ رہی ہے، جیسے اس کی تعریفیں ہورہی ہیں اور اس کے ساتھ سیلفیاں لی جارہی ہیں، یوں گمان ہورہا ہے کہ جیسے سدوم میں آنکلے ہیں۔۔۔ بہت سے دوست ’سدوم‘ کے بارے میں نہیں جانتے، یہ لوط علیہ السلام کی قوم کے شہر کا نام تھا، جس پر اللہ کا عذاب اس کے باسیوں کی بداعمالیوں کے سبب آیا تھا۔ اسی طرح ایک مصر کی قوم تھی کہ جس میں یوسف علیہ السلام جا اترے، ان کے حسن کا جب چرچا ہوا تو زنانِ مصر نے اسی گھٹیا رویّے کا مظاہرہ کیا تھا۔
معروف صحافی جاوید چودھری کی ویب سائٹ کے مطابق اس چائے والے کے ساتھ بیسیوں لڑکیاں سیلفی بنوا چکی ہیں، اور اس کام میں نوجوان بھی پیچھے نہیں ہیں، لیکن صحافی صاحب کی خبر کا کمال کا حصہ وہ ہے جس میں موصوف کے حسن کے تذکرے ہیں، اس کی آنکھوں کی خوبصورتی کی تفصیل ہے۔۔۔ میں پڑھ رہا تھا تو مجھے یوں لگا کہ میں آل سدوم کے شہر میں آنکلا ہوں۔۔۔ اور سوچ رہا تھا کہ کسی قوم کی غیرت کا جنازہ یوں ہی نکلا کرتا ہے۔
ابھی تک اس بات کی کوئی خبر نہیں آئی کہ کسی ’صاحب‘ کو بھی یہ حسن پسند آیا ہے یا نہیں۔۔۔ لیکن صاحب لوگوں کی بگڑی اولادوں اور بیٹیوں کو تو بہت پسند آیا ہے۔۔۔
افسوس من حیث القوم ہم بہت ہی گر گئے ہیں۔ ہم اللہ سے بس یہی دعا کرتے ہیں کہ چند افراد کے اعمال کا بدلہ قوم سے نہ لے۔ میں حیران ہوں کہ ابھی پچھلے دنوں خبر تھی کہ اسلام آباد میں شدید زلزلے کی پیش گوئی ہے، لیکن ان کے دل کس قدر مُردہ ہوچکے ہیں کہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی نہیں۔ (ابوبکرقدوسی)
nn

حصہ