(نوازحخومت کا محاصرہ (سلمان عابد

183

لگتا ہے حکومت اور حزبِ اختلاف بالخصوص تحریک انصاف کے درمیان 2 نومبر کو فیصلہ کن جنگ کا وقت طے ہوگیا ہے۔ پہلے عمران خان کو ’’تنہا پرواز ،،کا طعنہ دیا جارہا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ حکومت مخالف دیگر جماعتوں میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ہمیں بھی اس سیاسی لڑائی سے اپنے آپ کو باہر نہیں رکھنا چاہیے۔ مسلم لیگ(ق) نے سب سے پہلے عمران خان کے 2 نومبر کے فیصلے کی حمایت کرکے ساتھ چلنے کا اعلان کردیا ہے۔ اب عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے درمیان جو آنکھ مچولی چل رہی تھی وہ بھی ختم ہونے کو ہے۔ عوامی تحریک نے بھی تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کرکے 2 نومبر کی تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ جماعت اسلامی بھی فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ نوشہرہ میں جماعت کے ایک بڑے اجتماع سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے جو خطاب کیا اس کا لب ولہجہ بھی حکومت کے خلاف خاصا سخت نظر آیا، انہوں نے بھی 30 اکتوبر کو کرپشن کے خلاف ریلی کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ دفاعِ پاکستان کونسل بھی حکومت کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اندر بھی بعض لوگ آصف علی زرداری کی پالیسی سے نالاں نظر آتے ہیں اور ان کے خیال میں ہمیں حکومت کے خلاف فیصلہ کن کھیل میں حصہ دار بننا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان سخت جنگ چل رہی ہے۔ اگر اس میں عوامی تحریک، جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ(ق) بھی شامل ہوجاتی ہیں تو حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ایسی کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے جس سے وہ حکومت مخالف قوتوں کا نہ صرف راستہ روک سکے بلکہ اپنی حکومت کے جانے کی باتوں کے تاثر کو زایل کرسکے۔ دراصل پاکستان میں سیاسی ڈگڈگی کا کھیل ہمیشہ کھیلا ہے۔ اس کھیل کے نتیجے میں ملک کی سیاست عدم استحکام، سیاسی انتشار، غیر یقینی کیفیت اور محاذ آرائی کاشکار ہوئی ہے۔ جب بھی ملک کے سیاسی منظرنامہ میں حکومت کو کسی بڑی سیاسی محاذ آرائی یا سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے پیچھے پسِ پردہ قوتوں کی حمایت کی صورت میں سیاسی بیان بازی کا مقابلہ بھی شروع ہوجاتا ہے اور اس عمل کے جواز میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکومت کے خلاف کوئی بھی تحریک سیاسی تنہائی میں آگے نہیں بڑھتی، اس کے پیچھے طاقت کے مراکز یا اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ہوتی ہے۔ اس وقت بھی بہت سے لوگ اچانک مسلم لیگ(ق) اور عوامی تحریک کی شرکت کو کسی خاص اشارے سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
عمران خان اس وقت خاصے پُرجوش اور بھرپور مزاحمت کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔ اُن کے بقول یہ اُن کا اس حکومت کے خلاف آخری دھرنا ہے اور منطقی انجام تک پہنچا کر ہی اس کا خاتمہ کیا جائے گا۔ اگرچہ عمران خان اس لڑائی میں سیاسی طور پر تنہا نظر آتے ہیں اور ان کو اس عمل پر سولو فلائٹ کا طعنہ بھی دیا جارہا ہے۔ لیکن عمران خان بضد ہیں کہ اگر ان کو یہ لڑائی سیاسی طور پر تنہا بھی لڑنا پڑی تو وہ لڑیں گے۔ عمران خان کی جانب سے اسلام آباد پر سیاسی چڑھائی کے اعلان کے بعد حکومت اور اس کے حمایت یافتہ سبھی لوگ ایک سخت ردعمل کے ساتھ عمران خان کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں۔ یہ فطری امر بھی ہے، کیونکہ کوئی بھی حکومت نہیں چاہے گی کہ اس کی حکومتی رٹ چیلنج ہو۔ لیکن حکومت اور اس کے اتحادیوں میں تحریک انصاف کے خلاف جو مزاحمت چل رہی ہے، اس کا ایک نقطہ ’’ ڈگڈگی بجانے والا‘‘ بھی ہے۔ حکومت اور اس کے اتحادی اس ’’ڈگڈگی‘‘ بجانے والے کو اسٹیبلشمنٹ یا پس پردہ قوتوں کی سازش سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ ان کے بقول جو سیاسی اسٹیج عمران خان اسلام آباد میں سجانا چاہتے ہیں وہ بڑی طاقتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سے قبل سابقہ دھرنے میں بھی حکومتی ارکان اور اتحادی جماعتوں نے پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کو ساتھ جوڑا تھا۔ اگرچہ وہ نتیجہ نہیں نکل سکا جو عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی صورت میں سامنے آنا چاہیے تھا، لیکن اس کے باوجود آج بھی یہ تاثر موجود ہے کہ سابقہ دھرنا اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پہلے دھرنے سے نوازشریف کی حکومت کو کمزور کرکے اپنے مفادات کو تحفظ دیا ہے۔ جہاں تک ڈگڈگی کا تعلق ہے تو وزیراعظم نے بعض جلسوں میں طنزیہ انداز میں سیاسی ڈگڈگی بجانے والوں کی جانب جو اشارہ کیا ہے وہ محض عمران خان تک ہی محدود نہیں تھا، بلکہ ان کا اشارہ انھی کی جانب تھا جنہیں وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے بعض راہنما بھی یہی اشارہ کررہے ہیں کہ کوئی تو ہے جو عمران خان کے پیچھے کھڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی پنڈت جمہوری نظام کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ جو لب و لہجہ ہمیں حکومت اور اُس کے اتحادیوں کا دکھائی دے رہا ہے اس میں بھی ایک طرف مایوسی ہے تو دوسری طرف غیر یقینی صورت حال کے اشارے موجود ہیں، یہ بات تو تسلیم کرنا ہوگی کہ اگر کوئی ’’ڈگڈگی‘‘ بج رہی ہے تو اس کی ذمہ دار حکومت بھی ہے۔ کیونکہ جب حکمران طبقہ سیاسی فیصلے نہیں کرے گا اور فیصلوں میں تاخیری حربے اختیار کرکے معاملات کو لٹکاکر آگے بڑھے گا تو حکومت مخالف قوتوں کو موقع مل جائے گا۔ اس وقت حکومت اور فوج کے درمیان سیکورٹی امور سے متعلق خبر کی اشاعت پر پہلے ہی بداعتمادی موجود ہے۔
اس وقت حکومت اور تحریک انصاف میں الزام تراشی کی جاری لڑائی میں ایک مسئلہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا بھی اٹھایا گیاہے۔ اس منصوبے پر پہلے ہی ہمارے دشمن ملکوں کی نظریں لگی ہیں۔ بھارت پہلے ہی برملا کہہ چکا ہے کہ وہ اس منصوبے کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرے گا۔ ایسے میں یہ مسئلہ غیروں کے ساتھ ساتھ خود ملک کی داخلی سیاست میں بھی الجھا ہوا نظر آتا ہے۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں عمران خان پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ اس محاذآرائی کی سیاست کے ذریعے اصل میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومت صورت حال کی خرابی کی براہ راست ذمہ داری عمران خان پر عائد کرتی ہے۔ حالانکہ عمران خان کی تحریک کا کوئی براہِ راست تعلق اس منصوبے سے نہیں ہے۔ پچھلے دنوں چینی سفیر نے عمران خان سے بھی ملاقات کی جس میں عمران خان نے اُن کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس اقتصادی راہداری منصوبے کی حمایت کرتے ہیں اوراس پر حکومت کے ساتھ ہیں۔ لیکن مسئلہ محض عمران خان کا نہیں، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر خود عوامی نیشنل پارٹی بھی حکومت کو اپنے تحفظات پیش کررہی ہے، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے کہا ہے کہ ہمیں حکومت کے بہت سے لوگ گمراہ کررہے ہیں۔ اسفند یار ولی خان کے بقول اس مسئلے پر اب بات چیت کسی حکومتی نمائندے سے نہیں بلکہ براہِ راست وزیراعظم سے ہوگی۔ اسی طرح وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک بھی اس اہم منصوبے پر اپنے تحفظات رکھتے ہیں۔ اصل میں اس منصوبے کی کامیابی بنیادی طور پر پاکستان کے داخلی استحکام سے جڑی ہوئی ہے۔ لیکن داخلی سیاست کا الجھاؤ اس منصوبے میں خود ملک کے اندر سے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنی سیاست میں قومی منصوبوں کو متنازع بناکر خود ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اگر حکومت فہم وفراست اور تدبر کے ساتھ پانامہ لیکس کے معاملے پر محض عمران خان ہی نہیں، حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ساتھ ٹی او آرز پر کوئی سیاسی اتفاق رائے پیدا کرلیتی تو آج صورت حال بہت مختلف ہوتی۔ لیکن اس معاملے پر حکومتی طرزعمل نے بلاوجہ ایسا ہتھیار اپنے مخالفین کو تھما دیا ہے جو اب اس کے گلے پڑرہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی بھی حکومت کو احتجاج کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ اس لیے حکومت عمران خان سے بچے گی تو اسے کسی اور صورت میں بھی اپنے مخالفین کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مسئلہ تو سارا حکمت عملی کا ہے، عمران خان زیادہ جارحانہ انداز میں باہر نکل پڑے ہیں، جبکہ دیگر مخالفین ابھی حکومت کو کچھ وقت دینے کے موڈ میں نظر آتے تھے، لیکن جیسے جیسے صورت حال بدل رہی ہے اور عمران خان نے جس انداز میں اپنی مہم میں شدت پیدا کردی ہے اس نے دیگر جماعتوں میں حکومت کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لیے جوش پیدا کردیا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر انہوں نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو کہیں وہ سیاسی طور پر پیچھے نہ رہ جائیں۔ اگرچہ اس وقت حکومت اس کھیل کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جوڑ رہی ہے، تو پھر سول ملٹری تعلقات میں سیاسی ہم آہنگی کہاں ہے؟ کیونکہ حکومت تو بضد ہے کہ اس وقت سول ملٹری تعلقات میں کوئی بگاڑ نہیں، پھر اپنے سیاسی ساتھیوں کی مدد سے کیوں بلاوجہ ان تعلقات میں بگاڑ پیدا کیا جارہا ہے! کیا عمران خان کو جواز بناکر ہم بلاوجہ اداروں کو دوبارہ سیاست میں ملوث کرنے کی خود کوشش نہیں کررہے! اس کے برعکس اگر حکومت سمجھتی ہے کہ واقعی کوئی قوت عمران خان کے پیچھے کھڑی ہے تو پھر اس پر حکومت کو اپنا دوٹوک مؤقف پیش کرنا چاہیے۔ خود اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیاسی قوتوں کو باور کرانا چاہیے کہ وہ سیاسی لڑائی میں اداروں کو ملوث کرنے اور تبصرہ کرنے سے گریز کریں قومی اداروں کا غیر متنازع رہنا ضروری ہے اس سے قبل حکومت اور فوج کے درمیان سیکورٹی امور سے متعلق خبر کی اشاعت پر پہلے ہی بداعتمادی موجود ہے۔ یہ تو لوگ جانتے ہیں کہ جس نے بھی یہ خبر لیک کی ہے اس کے پیچھے اصل مقصد عالمی برادری سمیت ہر فورم پر فوج کے بارے میں ایک منفی تاثر پیدا کرنا تھا۔ اس خبر کا فائدہ بھارت اور امریکہ کو نقصان پاکستان ہوا ہے۔ اس چیز سے فوج کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے، حکومت بھی فائدہ اٹھانے کوشش کی ہے۔اس معاملے کی تحقیقات میں بھی جس انداز سے حکومت تاخیری حربے اختیار کررہی ہے اس سے سیاسی بدمزگی پائی جاتی ہے، اور جتنا اس عمل میں تاخیر ہوگی اس کا نقصان حکومت کو ہی ہوگا۔ اسی طرح نئے آرمی چیف کی تقرری بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اور دیکھنا ہوگا کہ اس مسئلے پر حکومت اور فوج کے درمیان کیا کچھ طے ہوتا ہے۔ اس لیے ڈگڈگی خود حکومتی طرزعمل سے بھی واضح ہورہی ہے اور اس کی حکمت عملی نے بھی سیاست کو مشکل صورت حال سے دوچا ر کیا ہوا ہے۔
دراصل حکومت یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جو حکومت کو کمزور کرکے حزب اختلاف کو موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لیے باہر نکل آئے۔ ہر حکومت سمجھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اسے دباؤ میں رکھنے کے لیے اس کے مخالفین کو استعمال کرتی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کو تو خوب اندازہ ہوگا، کیونکہ ماضی میں وہ خود بھی اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر بیٹھ کر حکومتوں کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے رہے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اس وقت ’’سیاسی ڈگڈگی ‘‘کون بجا رہا ہے، بلکہ اصل بحران تو یہ ہے کہ طاقت ور سیاسی و انتظامی طبقہ عوام کو حقیقی معنوں میں بے وقوف بنا رہا ہے۔ حکومت ترقی اور خوشحالی کے دعوے اور نئے منصوبوں کا اعلان کرکے واقعی قوم کو ڈگڈگی پر نچانے کی کوشش کررہی ہے ۔ اسی طرح حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کی
(باقی صفحہ 41پر)
لڑائی لڑیں تو عوام کا سیاسی استحصال یقینی امر بن جاتا ہے۔
یہ بنیادی بات سمجھنی ہوگی کہ جب سیاست داں غلط حکمت عملیوں سے سیاسی خلا پیدا کرتے ہیں تو اس میں جائز یا ناجائز غیر ریاستی قوتیں بھی سیاسی ڈگڈگی بجاکر اپنا رنگ جمانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہمارے ادارے بھی اپنی ڈگڈگی سے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے اپنی بے بسی کی ڈگڈگی بجا کر لوگوں کے اعتماد کو مزید مجروح کرتے ہیں۔ لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ شاید کچھ نہیں بدل سکے گا، اور اسی سیاسی ڈگڈگی میں، چاہے وہ کوئی بھی بجائے، ہمیں زندہ رہنا ہے۔ لیکن لوگوں کو اس مفاداتی سیاست کو سمجھ کر اس کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ کیونکہ سیاسی ڈگڈگی کا یہ جو نظام ہمارا طاقت ورطبقہ چلا رہا ہے اس کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت اور دباؤ کی سیاست کو طاقت فراہم کرکے ہی ہم بہتر، منصفانہ اور شفاف نظام کی طرف پیش قدمی کرسکیں گے۔

حصہ