بڑی دور سے ایک اعتراض

568

152اشورا کے حوالے سے لکھے گئے کالم پر ایک اعتراض بہت دور سے آیا ہے۔ امریکہ سے کمال ابدالی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’فتا‘‘ الف کے ساتھ کوئی لفظ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ہم نے ’’لافتا الاعلیؓ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے ’’فتا‘‘ کا مطلب بتایا تھا۔ لیکن کمال ابدالی صاحب جو یقیناًعربی زبان پر عبور رکھتے ہوں گے، ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی لفظ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ’’فتی‘‘ ہے جو نوجوان کے معنی میں ہے۔ کمال ابدالی صاحب کے اس اعتراض کو ہمارے دیرینہ ممدوح عبدالمتین منیری نے اپنے اس تبصرے کے ساتھ آگے بڑھایا ہے کہ ’’ہر ہفتہ (ہفتے) لکھے جانے والے کالم میں آخر لکھاری کہاں تک لغزشوں سے بچے‘‘۔
منیری صاحب کی یہ بات درست ہے اور ہم کئی بار یہ اعتراف کرچکے ہیں اس وضاحت کے ساتھ کہ ہم یہ کالم اپنے صحافی بھائیوں کی زبان درست کرنے کی خاطر لکھتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان ہی پر خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا۔ اعتراض سے قطع نظر اس بات کی خوشی ہے کہ یہ پڑھا جارہا ہے۔ عبدالمتین بھٹکلی صاحب اس کو پھیلا رہے ہیں اور چند اہم گروپس بزم قلم، گزرگاہِ خیال، علی گڑھ کلب، ادب ڈاٹ کام وغیرہ میں پابندی سے پوسٹ کرتے ہیں۔ یہ ان کی اردو سے محبت کا بیّن ثبوت ہے۔
اب آتے ہیں کمال ابدالی صاحب کے اعتراض اور اس پر عبدالمتین منیری کے صاد کرنے پر۔ ہمیں عربی دانی کا دعویٰ تو کبھی نہیں رہا، ابھی تو اردو ہی ٹھیک نہیں ہوئی، اور جب بھی لغت کھولتے ہیں تو اپنی جہالت بھی کھل جاتی ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’فتا‘ کوئی لفظ ہی نہیں، تو بھائی، اردو کی تمام لغات میں یہ لفظ اسی ہجے اور معنی کے ساتھ موجود ہے۔ یہ لغزش ہے تولغت نویسوں کی ہے اور اس میں ’نوراللغات‘ جیسی مستند لغت بھی شامل ہے۔ عربی زبان کے ماہرین سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی تصدیق کی اور ’فتی‘ کو ’فتا‘ میں بدلنے کی وجہ بھی بتائی۔ عربی کی معروف لغت ’المنجد‘ میں بھی یہ لفظ ’’الفتیٰ‘‘ ہے یعنی ’ی‘ پر کھڑا زبر اور تلفظ الفتا ہے۔ معنی ہیں نوجوان، سخی، غلام۔ مونث ہے ’’الفتاۃٌ‘‘، جمع فتیان۔ اسی سے ایک لفظ ’’الفَتُّی‘‘ ہے، ہر طاقت ور، جوان۔ جمع فتاّء، اَفتاء۔ اردو لغت دیکھنے سے ایک اور لفظ ’’فُتُوّت‘‘ سامنے آیا۔ پہلے دونوں حروف پر پیش (بالضم) اور واؤ پر تشدید۔ اسم مونث ہے اور اس کا مطلب ہے جواں مردی، شجاعت، بہادری، مردانگی، مروت، اور ایک عربی دان نے اس کا ایک مطلب ’’بانکپن‘‘ بھی بتایا۔ اہم بات یہ ہے کہ برسوں سے ’’لافتا الاعلی‘‘ لکھا اور بولا جارہا ہے۔
عربی کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جن میں ’ی‘ الف سے بدل جاتی ہے جیسے استعفا۔ اسے استعفیٰ بھی لکھا جاتا ہے۔ ابدالی صاحب کا شکریہ کہ ان کے اعتراض نے ہمارے علم میں اضافہ کردیا۔
یہ سطور تو کچھ ثقیل ہوگئی ہیں، اب کچھ ذکر علمی لطیفوں کا۔ 20 اکتوبر کو ’’اہلِ زبان‘‘ نے ایک جلوس نکالا۔ اس کے حوالے سے کہا گیا ’’خواتینوں نے پھولوں کے گلدستے اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ شہدائے یادگار کی طرف جانا چاہتی ہیں‘‘۔ شہدائے یادگار بار بار کہا گیا۔ حتیٰ کہ جب ایک چینل نے لندن میں بیٹھے واسع جلیل سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی شہدائے یادگار ہی کہا۔ ایک جملے میں تین غلطیاں! شاید یادگارِ شہدا اور شہدائے یادگار کا فرق نہیں معلوم۔ اسی شہدا گروپ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فاروق ستار اپنی پریس کانفرنس میں قرطاس ابیض لانے کی دھمکی دے رہے تھے، لیکن یہ ابیض بروزن مفید اور حسیب تھا یعنی اَبِیضْ۔ عربی کا یہ لفظ اَبْ۔یَضْ ہے یعنی سفید۔ اب لکھی ہوئی تقریر میں تلفظ تو نہیں لکھا ہوتا۔ ویسے بھی اردو بولنے والوں کے اس رہنما کی مادری زبان اردو نہیں ہے، اس لیے اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
اب شاید یہ وقت آگیا ہے کہ اردو میں عام استعمال میں آنے والے الفاظ پر بھی اعراب لگائے جائیں۔ اعراب پر یاد آیا کہ بعض لوگ اسے الف پر زبر (بالفتح) لگا کر بولتے ہیں۔ لیکن اَعراب کا مطلب ہے عرب سے تعلق رکھنے والے، جیسے اعرابی، بدو لوگ، عرب کے صحرا نشین۔ یہ ایسی جمع ہے جس کا مفرد مستعمل نہیں۔ اور اگر اِعراب (بالکسر، الف کے نیچے زیر) کہا جائے تو مطلب ہوگا حرکات زیر، زبر، پیش، سکون وغیرہ۔ ایک شعر برداشت کرلیں:
موئے خطِ رخ نہ تھے زیر و زبر
مصحفِ رخسار میں اِعراب تھے
اور بھی کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے معانی زیر و زبر سے بدل جاتے ہیں۔ ان کا ذکر وقتاً فوقتاً ہوتا رہے گا۔ لگے ہاتھوں ایک اور لفظ کا ذکر کردیں۔ اَشعار اور اِشعار۔ پہلے میں الف بالفتح ہے اور دوسرے میں بالکسر۔ پہلے لفظ اَشعار سے ہم سب واقف ہیں کہ شعر کی جمع ہے۔ تاہم اِشعار کا مطلب ہے خبر دینا، آگاہ کرنا۔ دونوں ہی عربی کے الفاظ ہیں۔ خبر دینے کے معنوں میں اِشعار کا اردو میں استعمال نہیں ہے، پھر بھی استاد تسلیم کا ایک شعر سن لیں (یا پڑھ لیں)
عاشقانہ شعر کیوں محفل میں پڑھتے تھے وہ آج
کس کی جانب تھا اشارہ، کس طرف اِشعار تھا
ایک لفظ ’غیظ‘ ہے جس کو بالعموم غیض لکھا جاتا ہے۔ ایک ستم ظریف پروف ریڈر نے تو سید مودودیؒ کی تحریر میں بھی اصلاح کردی اور غیظ کو غیض کردیا۔ اس پر غالباً پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ غیظ تو غصے کے معنی میں اور عموماً غضب کے ساتھ آتا ہے، لیکن غیض کا مطلب ہے وہ ناتمام بچہ جو حمل سے ساقط ہو (عربی۔مذکر)۔ اب ذرا سوچیے کون غیض میں آئے گا۔ علاوہ ازیں بہت میں سے تھوڑا، پانی کا کم ہوجانا، ناقص کرنا، مجازاً تھوڑی بخشش۔ اس کا ذکر اس لیے مکرر کردیا ہے کہ شاید کوئی اصلاح قبول کرلے۔ ابھی تک اخباروں میں نقض امن تو نقص امن ہی چل رہا ہے۔ جلد ہی اس کو فصیح سمجھ لیا جائے گا۔ لیکن کوشش کرتے رہنے میں کیا ہرج ہے۔ (ہرج اور حرج کا فرق پہلے کسی کالم میں واضح کیا جاچکا ہے)
ایک کالم نگار بڑے اہتمام سے مضبوط کو ’مظبوط‘ لکھنے پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ ممکن ہے اُن کے خیال میں اس طرح زیادہ مضبوطی آجاتی ہو۔ ’مسئلہ‘ میں کچھ لکھاری لام کے بعد ہمزہ لگاتے ہیں یعنی مسلۂ۔ اس طرح ’مس ئلہ‘ کا تلفظ ’مس لۂ‘ ہوجاتا ہے جس کا مطلب نامعلوم۔ ان کی مرضی۔ کوئی ہتھیار کو ہتیار لکھے تو ہم کیا کرسکتے ہیں! حالانکہ یہ دو الفاظ ہتھ اور یار کا مرکب ہے جو اسلحہ کے معنوں میں آگیا ہے۔ اسلحہ ہاتھ کا یار ہی تو ہوتا ہے بشرطیکہ اسے صحیح جگہ استعمال کیا جائے، ورنہ تو ہتھیارا کہلائے گا۔
معروف ادیب، شاعر اور اردو کے استاد، جن کو عروض پر کامل دسترس ہے، چلتے چلتے ان کا ایک مصرع ملاحظہ کیجیے
اہلِ عشاق تو خوش ہیں کہ، مری جان ہے تُو
’’اہلِ عشاق‘‘ کی ترکیب کا جواب نہیں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ اہلیانِ عشق لکھ دیتے۔ اہلِ عشق تو سنا تھا گو کہ عشق کرنے والے کسی ’جوگے‘ نہیں رہتے۔ جانے کیوں لوگ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ اہلِ عشاق کیا ہے؟ ممکن ہے کہ ’نا‘‘ گر گیا ہویعنی نااہل عشاق۔

حصہ