سانحۂ کوئٹہ کے بعد ایک اور سانحہ

154

بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ تسلسل سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس مرتبہ ’’نامعلوم‘‘ دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ سینٹر کو نشانہ بنایا ،جہاں تربیت یافتہ پولیس اہلکار موجود تھے جنہیں تربیت مکمل کرنے کے بعد امن و امان کے قیام کی ذمے داری سنبھالنی تھی۔ صوبہ بلوچستان اور اس کا دارالحکومت کوئٹہ باالخصوص تسلسل سے دہشت گردی کا شکار ہے اور خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نچلی سطح کے اہلکاروں کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔جب پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جائے گا تو لازمی طور پر عوام الناس میں احساس عدم تحفظ بڑھے گا۔ کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گردی کے سانحے کے بعد بلوچستان حکومت نے 3 روزہ جبکہ سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اور افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف اس سانحے کے اگلے روز کوئٹہ پہنچے اور شہدا کی اجتماعی نمازہ جنازہ میں شرکت بھی کی۔ حسب معمول اس سانحے کے بعد وزیراعظم کی صدارت میں سیاسی و عسکری قیادت کا اہم اجلاس ہوا، اس اجلاس میں گورنر بلوچستان، وزیراعلیٰ بلوچستان ، وفاقی وزیرداخلہ، صوبائی وزیر داخلہ کے علاوہ وزیراعظم کی قومی سلامتی امور کے مشیر جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ بھی شریک ہوئے۔ عسکری قیادت کی نمائندگی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل رضوان اختر، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹننٹ جنرل عامر ریاض، ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ذکی منج اور ڈی جی ایم او میجر ساحر شمشاد نے کی۔ آئی جی ایف سی نے وزیراعظم ، ان کی کابینہ کے نمائندوں اور عسکری قیادت کو دہشت گردانہ حملے کی تفصیلات اور اس کے ذمے داروں کے بارے میں آگاہ کیا ،جس کے مطابق اس سانحے کے تانے بانے افغانستان سے ملتے جلتے ہیں۔ سیاسی و عسکری قیادت نے کوئٹہ حملے کا واقعہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ ابھی تک کوئٹہ وکلا پر اسپتال پر دہشت گردانہ حملوں کے صدمے سے باہر نہیں آسکا ہے۔ اس دوران میں ’’ہزارہ خواتین‘‘ کی ٹارگٹ کلنگ کا وحشت ناک ہولناک سانحہ بھی ہوچکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے اس واقعے کے روکنے کے لیے پیشگی اقدامات نہ کرنے پر گورنر اور وزیراعلیٰ پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ دہشت گردی کی پیشگی اطلاع موجود تھی۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات اس تناظر میں پیش آرہے ہیں کہ حکومت یہ دعویٰ کرچکی ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ واقعہ کے بعد ذرائع ابلاغ کو بتایا جاتا ہے کہ اس واقعے کی انٹیلی جنس رپورٹ پہلے سے موجود تھی۔ قوم نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے بہت سے ایسے تلخ اقدامات کو قبول کیا ہوا ہے، جو انسانی حقوق کی پامالی کے ذیل میں آتے ہیں ،لاپتا افرا دکا مسئلہ بہت سنگین ہوچکا ہے۔ لیکن ا س کے باوجود دہشت گردی کے واقعات رکنے میں نہیں آرہے ہیں۔ حکومت اعداد و شمار کے حوالے سے دعویٰ کرتی ہے کہ دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے، دعویٰ تو یہ بھی ہے کہ دہشت گردی ختم ہوچکی ہے، لیکن کچھ دنوں کے بعد ایسا سنگین واقعہ ہوجاتا ہے جو قوم کے اعصاب کو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اب صرف اسی واقعے کو لے لیں دو روز میں شہیدوں کی تعداد 61 ہوگئی ہے۔ شہید ہونے والوں میں فوج کا کیپٹن بھی شامل ہے۔ دہشت گردی کے ان واقعات پر پاکستان میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس کا تعلق پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے سے ہے۔ بھارت کے وزیراعظم کھل کر میدان میں آگئے ہیں اور بلوچستان کو کشمیر کی طرح متنازع بنانا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہے ، اس منصوبے سے عالمی اقتصادی طاقت کا توازن تبدیل ہورہا ہے۔ پاکستان اپنے جغرافیائی اور تزویراتی محل وقوع کی وجہ سے جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا جیسے اہم خطوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ عالمی اقتصادیات ایشیا مرکوز کرچکی ہے۔ عالمی سیاست میں تبدیلی کا اصل مرکز افغانستان ہے۔ امریکہ جو افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دیتا تھا ،اب وہ انہیں طالبان سے مذاکرات کے لیے مجبور ہے۔ افغان طالبان کے امیر ملا محمد عمر وفات پاچکے ہیں، ان کے جانشین ملا اختر منصور کو ڈرون حملے میں شہید کیا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی باتیں ہورہی ہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت قوم کو آگاہ کرچکی ہے کہ بلوچستان اور کراچی میں بالخصوص بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ مصروف عمل ہے، ہمارے عسکری ادارے ’’را‘‘ حاضر سروس افسر کو بلوچستان میں گرفتار کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے ذمے داروں کے بارے میں بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔ ان واقعات کے تسلسل سے جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان ’’دہشت گردی‘‘ کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے اسباب اور علاج کے بارے میں نامکمل تجزیہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان ایک زمانے میں امن کا جزیرہ تھا، لیکن یہ پُرامن خطہ افغانستان میں امریکی حملے کے بعد دہشت گردی کا شکار ہوا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ ادارے بھی غیر محفوظ ہوگئے ہیں ،جو ملک و قوم کی حفاظت کے ذمے دار ہیں۔ پاکستان کے دشمن کو پاکستان کو ’’دہشت گرد‘‘ ریاست قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں لیکن پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہورہا ہے۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ دہشت گردی کی ان وارداتوں کے پیچھے غیرملکی ہاتھ ہے ،جن میں سرفہرست امریکہ ہے جو افغانستان پر قابض ہے۔ اس نے بھارت کو اپنا اتحادی بنالیا ہے۔ جب بھی اس خطے میں امن کے امکانات پیدا ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی سانحہ پیش آجاتا ہے۔

حصہ