روشنی

326
سوسائٹی کی تعمیر کے لیے اصولِ اخلاق کے طور پر اسلام کا دسواں اصول رسالت سے متعلق ہے۔ ارشاد ہوا: ’’نیز اس (اللہ) کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اِسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹاکر تمہیں پراگندہ کردیں گے۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم کَج روی (ٹیڑھی چال) سے بچو۔ پھر ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب عطا کی تھی جو بھلائی کی روش اختیار کرنے والے انسان پر نعمت کی تکمیل اور ہر ضروری چیز کی تفصیل اور سراسر ہدایت و رحمت تھی، اور اس لیے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی کہ شاید لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں۔‘‘
اللہ کا بتایا ہوا راستہ: اس سے پہلے نویں اصول کے طور پر جس فطری عہد کا ذکر ہوا، اس کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے پر چلے، کیونکہ۔۔۔ اللہ کے حکم کی اطاعت نہ کرنا، اپنی مرضی چلانا، یا، اللہ کے علاوہ کسی اور کی اطاعت کرنا انسان کی طرف سے اُس عہد کی سب سے پہلی خلاف ورزی ہے جس کے بعد ہر اگلے قدم پر اللہ کے احکام ایک ایک کرکے ٹوٹتے چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عہد انسان کی پوری زندگی پر چھایا ہوا ہے، اس عہد کی ذمہ داریوں کو انسان اُس وقت تک پورا نہیں کرسکتا، جب تک کہ وہ اللہ کی رہنمائی کو قبول کرکے اس کے بتائے ہوئے راستے پر زندگی نہ گزارے۔ اللہ کی ہدایت کو قبول نہ کرنے کا نقصا ن دنیا میں بھی ہوگا، اور آخرت میں بھی۔ آخرت کا نقصان یہ ہے کہ انسان اللہ کے قُرب اور اس کی رضا سے محروم ہوجائے گا۔ جب کہ دنیا میں بھٹک کر اِدھر اُدھر کی ٹھوکریں کھاتا رہے گا اور سکون نہ پائے گا۔ (ماخوذ از حاشیہ نمبر:135)
پیغمبروں کی اطاعت: انسانی زندگی میں اللہ کی اطاعت کا اظہار پیغمبروں کی اطاعت سے ہوتا ہے۔ انہیں اللہ نے کتابِ ہدایت دی اس ہدایت کا صحیح فہم، اور زندگی کے معاملات کو ان کے مطابق بنانے کی صلاحیت۔۔۔ اور زندگی کے مسائل میں فیصلہ کن رائے قائم کرنے کی قابلیت دی۔۔۔ اور نبوت کا منصب دیا تاکہ وہ اس ہدایت نامہ کے مطابق انسانوں کی زندگی کی تعمیر کریں۔(ماخوذ از حاشیہ نمبر:57)
انبیاء کی پہنچائی ہوئی ہدایت کے سوا زندگی گزارنے کا جو بھی طریقہ اور عقیدہ اور خیال اور فلسفہ ہوگا، وہ قیاس و گمان پر مشتمل ہوگا۔ جبکہ انبیاء کا بتایا ہوا راستہ اللہ کی رضا کے مطابق ہے، اور صرف وہی ایک راستہ ہے جس کا علم اللہ نے خود دیا ہے۔ تمام انبیاء کی دعوت ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ایک خدا کو الٰہ اور ربّ مانا جائے۔ اللہ کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے آخرت پر ایمان لایا جائے۔۔۔ اور اُن بنیادی اصولوں کے مطابق زندگی گزاری جائے جن کی تعلیم اللہ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے دی ہے۔ یہی دین حضرت آدم علیہ السلام اپنی اولاد کو سکھا کر گئے تھے۔
گروہ بندی کیوں: گروہ بندی اس لیے نہیں ہوئی کہ لوگوں کے پاس علم نہ تھا۔ انبیاء علیہم السلام نے تو اپنی کوشش میں کوئی کمی نہ چھوڑی، اور ہر نبی نے اپنا کام پورا کیا، لیکن انبیاء کے بعد جتنے مذاہب بنے وہ سب اس طرح بنے کہ مختلف زمانوں کے لیے لوگوں نے اپنی غلط سوچ سے، یا نفسانی خواہشات کے غلبے سے، یا عقیدت میں شدت پسندی سے دین کو بدلا، اور اس میں نئی نئی باتیں ملائیں۔ اس کے عقائد میں اپنے اوہام و قیاسات اور فلسفوں سے کمی و اضافہ اور ترمیم و تحریف کی۔ عبادت میں بدعات کے اضافے کیے۔ سیاست و حکومت اور معیشت میں خود ساختہ قوانین بنائے۔ جزئیات میں بال کی کھال نکالنے کی کوشش میں لگے رہے۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو شدت دی۔ اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنایا۔ انبیاء اور بزرگوں میں سے کسی کی عقیدت میں غلو کیا اور کسی کو بغض و مخالفت کا نشانہ بنایا۔ اس طرح بے شمار مذاہب اور فرقے بنتے چلے گئے اور ہر مذہب و فرقہ کی پیدائش انسانوں کو دشمن گروہوں میں تقسیم کرتی چلی گئی۔ (سورہ الانعام، ماخوذ از حاشیہ نمبر :141)
ہیگل، کارل مارکس، اور ڈارون کے اثرات:۔ آج انسان انبیاء علیہم السلام کی تعلیم سے دور ہے۔ اس کا سبب یہ خیال ہے کہ ہر نئے دور کے تقاضے الگ ہوتے ہیں۔۔۔ اور انسان ترقی کرتے ہوئے آج کے دور تک پہنچا ہے۔۔۔ اسے پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ اس کے پاس سابقہ ادوار کی ساری اچھی چیزیں ہیں۔۔۔ آج اگر ضرورت ہے تو کسی نئے خیال کی ہے، جو موجودہ خیالات سے جنگ کرے اور اسے شکست دے۔ اس خیال کی بنیاد جرمن فلسفی ہیگل (1770۔1831) کا نظریہ ہے۔ ہیگل نے تاریخ انسانی کی تعبیر کے سلسلے میں نظریہ پیش کیا، جس کے مطابق۔۔۔ تاریخ کے ایک دور میں انسانی تہذیب و تمدن کا نظام اپنے تمام شعبوں اور اپنی تمام شکلوں سمیت چند مخصوص خیالات پر مبنی ہوتا ہے، جو اسے ایک دورِ تہذیب بناتے ہیں۔۔۔ یہ دور تہذیب جب پختہ ہوجاتا ہے، تو اس کی کمزوریاں واضح ہونا شروع ہوجاتی ہیں، اور اس کے مقابلے میں کچھ دوسرے خیالات ابھرنے شروع ہوجاتے ہیں جو اس سے جنگ شروع کردیتے ہیں۔ اس کشمکش سے ایک نیا دورِ تہذیب جنم پاتا ہے، جس میں پچھلے دورِ تہذیب کی خوبیاں رہ جاتی ہیں اور کچھ نئی خوبیاں بھی ان خیالات کے اثر سے پیدا ہوجاتی ہیں جن کی یلغار سے مجبور ہوکر پچھلے دور کے غالب خیالات بالآخر مصالحت کے لیے مجبور ہوئے تھے۔۔۔ اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تہذیب انسانی کی تاریخ کے اس تصور نے، انسانی ذہن میں اُن ادوارِ تہذیب کی کچھ بھی قدر و قیمت باقی نہ رہنے دی جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم گزرے ہیں۔ یہی وہ فکر ہے جس سے آج کی لامذہبیت کے خیالات پیدا ہوئے۔ ہیگل کے نظریے پر سخت تنقید بھی ہوئی اور اسے رد بھی کیا گیا، لیکن اس کا طرزِ استدلال اور اپنے نظریے کو منوانے کا طریقہ بہت سے لوگوں نے اپنایا، ان میں کارل مارکس (1818۔1883) کا نام سب سے نمایاں ہے جو لیفٹ ہیگلین کہلاتا ہے۔ ہیگل نے انسانوں کو خیالات کے میدانِ جنگ میں اتارا تو مارکس نے انسانوں کو پرولتاریہ اور بورژوا طبقات میں تقسیم کرکے اور ایک دوسرے کا دشمن قرار دے کر میدانِ جنگ میں آمنے سامنے کردیا۔ مارکس کے مطابق انسان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اپنی غرض اور اپنے مفاد کے لیے اپنے ہم جنسوں سے لڑے۔ وہ سراسر خودغرضی کی وجہ سے مختلف طبقوں میں تقسیم ہوا ہے۔۔۔ اور انسانی تاریخ کا سارا ارتقا اسی خودغرضانہ طبقاتی کش مکش کی بدولت ہوا ہے۔۔۔ قوموں اور قوموں کی لڑائی تو دورکی بات ہے، خود ایک ہی قوم کے مختلف طبقوں کی لڑائی بھی ایک فطری تقاضا ہے۔ انسان اور انسان کے درمیان اگر کوئی رشتہ ہے تو وہ صرف اغراض و مفاد کے اشتراک کا رشتہ ہے۔ ان رشتہ داروں سے ملنا اور متفق ہوکر اُن سب لوگوں سے لڑنا جن سے آدمی کے معاشی اغراض ٹکراتے ہوں، سراسر حق ہے۔۔۔ اور اس حرکت کا ارتکاب غیر فطری نہیں بلکہ اس سے بچنا خلافِ فطرت ہے۔ اسی زمانے میں چارلس ڈارون (1809۔1882) نے نظریۂ ارتقا پیش کیا جو انسانوں کی سوچ میں بڑی تبدیلی لے کر آیا۔ اس نے کہا کہ یہ کائنات ایک میدانِ جنگ ہے، یہاں جسے زندہ رہنا ہے اُسے لازماً اپنی بقا کے لیے لڑنا ہوگا اور اپنے دشمنوں کے حملے کی مزاحمت کرنی ہوگی۔ فطرت کا مزاج یہ ہے کہ بقا کا وہی مستحق ہے جو بقا کا ثبوت دے۔۔۔ اس بے رحم نظام میں جو فنا ہوتا ہے وہ اس لیے فنا ہوتا ہے کہ وہ کمزور ہے اور اسے فنا ہونا ہی چاہیے۔۔۔ جو باقی رہتا ہے وہ اس لیے باقی رہتا ہے کہ وہ طاقتور ہے، اور اسے باقی رہنا ہی چاہیے۔۔۔ زمین اور اس کے ماحول اور اس کے وسائل۔۔۔ سب پر طاقتور کا حق ہے جس نے زندہ رہنے کی طاقت کا ثبوت دے دیا ہو۔ کمزور کا ان چیزوں پر کوئی حق نہیں، اسے طاقتور کے لیے جگہ خالی کرنی چاہیے۔۔۔ اور طاقتور سراسر برحق ہے اگر وہ اسے ہٹاکر یا مٹاکر اُس کی جگہ لیتا ہے۔ اس فلسفے کے بعد اہلِ یورپ کو اُن تمام مظالم کے لیے جو انہوں نے دوسری اقوام پر ڈھائے، ایک مضبوط دلیل مل گئی۔ انہوں نے اگر امریکا، آسٹریلیا، افریقہ کی پرانی نسلوں کو مٹایا اور کم زور قوموں کو اپنا غلام بنایا تو یہ اُن کا حق تھا جو انہوں نے عین قانونِ فطرت کے مطابق حاصل کیا۔ مٹنے والے مٹنے کے مستحق تھے اور اُن کی جگہ لینے والوں کا حق یہی تھا کہ وہ ان کی جگہ لیں۔ اس بارے میں اگر اہلِ مغرب کے ضمیر میں کوئی خلش تھی تو ڈارون کی منطق نے اسے دلائل اور شواہد سے دور کردیا۔ (ماخوذ از ’’مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل کا لائحہ عمل‘‘۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔۔۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے ’’تفہیمات‘‘)
دہشت گردی کیوں: زندگی کے بارے میں ان فلسفوں کو تسلیم کرنے کے بعد اگر دنیا میدانِ جنگ نہ بنتی، دہشت گردی کا شکار نہ ہوتی تو حیرت کی بات ہوتی۔۔۔ کیونکہ اس فلسفۂ زندگی میں ہمدردی، محبت، رحم، ایثار جیسے شریفانہ انسانی جذبات کی گنجائش ہی کہاں ہے! اس میں عدل و انصاف، امانت و دیانت اور راست بازی کا کیا کام۔۔۔! اس میں حق کا وہ مفہوم کہاں باقی رہتا ہے جو کبھی کمزور کو بھی پہنچ سکتا ہو۔۔۔ لڑنا جھگڑنا تو انسانی فطرت کا تقاضا ہے کیونکہ کائنات تو ہے ہی ایک میدانِ جنگ۔ اس تصور نے انسان کو بھیڑیا بناکر رکھ دیا۔ تہذیب، حیاتیات، اور اجتماعی زندگی کے بارے میں ان نظریات نے صرف انہی لوگوں کو متاثر نہیں کیا جنہوں نے ان کو مانا، بلکہ اس کے اثرات کو اُنہوں نے بھی قبول کیا جو ان کا انکار کرنے والے ہیں۔ چنانچہ آج سوشل اور پروفیشنل لائف میں ایک دوسرے کو گرانا۔۔۔ اور چلتے ہوئے کہنیوں سے پیچھے کرتے ہوئے آگے بڑھ جانا اپنی بقا اور ترقی کے حصول کا لازمی طریقہ مان لیا گیا ہے۔ اس کے اثرات اس درجہ سرایت کرگئے ہیں کہ ہم عام طور پر لوگوں کو ایک دوسرے کو چیلنج دیتے ہوئے سنتے ہیں کہ۔۔۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔
آج کے دور میں جینے کا قرینہ سمجھو
جو ملے پیار سے اس شخص کو زینہ سمجھو
اصلاح کی ضرورت: ایسا نہیں ہے کہ یہ نظریات سو فی صد شر پر مشتمل ہوں، اور ان میں کچھ خیر کے اجزا نہ ہوں۔۔۔ ایسا ہونا اس کائنات کی فطرت کے خلاف ہے۔ اگر ان نظریات میں سے اچھے پہلو کو لیا جا تا، مثلاً۔۔۔ تیزی سے تبدیل ہونے والی کائنات میں انسان کو اپنی عادات و اطوار کو تبدیل کرنا ہوگا، تبدیلی فطرت کا تقاضا ہے۔۔۔ اور یہ کہ زمین کے وسائل پر چند مخصوص لوگوں کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ سب کو ان کے حصول کے لیے آزادانہ موقع ملنا چاہیے۔۔۔ تو اس کے بہت بہتر نتائج نکلتے۔ لیکن انسان نے بہ حیثیتِ مجموعی انہیں اس طرح نہیں لیا۔ آج پوری دنیا میں انسان شدید ڈپریشن، بددلی اور عدم اعتماد (نہ اپنی ذات پر اعتماد نہ اپنے متعلقین پر اعتماد) کا شکار ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مینٹور اور موٹیویشنل ٹرینرز انسانوں کو حوصلہ اور اعتماد دینے کی کوشش کررہے ہیں، مل جل کر رہنے کا سلیقہ سکھا رہے ہیں۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے ہمیشہ انسانی معاشرے کو متحد اور متفق کیا ہے۔ انہوں نے ایک بنیادی دعوت کی طرف انسان کو پکارا، اور اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو ایک نئے اتحاد میں جوڑ دیا۔ وہ انسان جو مختلف گروہوں، قبیلوں، اور عصبیتوں میں بٹے ہوئے تھے، جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور عزت کے دشمن تھے، اس دعوت کی وجہ سے ایک دوسرے کے بھائی اور ایک دوسرے کی عزت کے محافظ بن گئے۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے مطابق انسان زمین پر اپنی بقا کی جنگ لڑنے نہیں بلکہ آپس کے تعاون اور اشتراکِ عمل سے دنیا کے نظام کو بہتر سے بہتر کرنے آیا ہے۔ یہاں گرتے ہوؤں کو گرنے نہیں دیا جاتا بلکہ بہت سے ہاتھ سہارا دینے کے لیے بڑھتے ہیں۔ پیچھے رہنے والوں کو چھوڑ نہیں دیا جاتا بلکہ سہارا دے کر آگے بڑھایا جاتا ہے۔ میرے عزیز! بات پورے سچ کی ہے۔۔۔ اور پوری سچائی کو جاننا اور ماننا انسان کی ضرورت ہے۔۔۔ اور پوری سچائی صرف انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا انالحمد وللہ رب العالمین

 

حصہ