تنویر اللہ خان

316

مولوی فضل اللہ اور مراد علی شاہ میں کیا فرق ہے؟ مراد علی شاہ جمہور سے منتخب نمائندے ہیں اور مولوی صاحب نے بندوق کے زور پر حقِ حکمرانی حاصل کیا تھا۔ شاہ صاحب داڑھی منڈے ہیں، جب کہ مولوی صاحب کے چہرے پر داڑھی سے بھی زیادہ بال تھے، شاہ صاحب کوٹ پتلون پہنتے ہیں، جب کہ مولوی صاحب شلوار قمیض زیبِ تن کرتے تھے، شاہ صاحب ننگے سر رہتے ہیں، مولوی صاحب سر پر ایک تھان کے برابر پگڑی رکھتے تھے، شاہ صاحب کی بھاری مونچھیں ہیں، مولوی صاحب مونچھ سے عاری تھے۔ مولوی صاحب پہاڑوں کے درمیان رہتے تھے، جب کہ شاہ صاحب شہر میں رہتے ہیں۔ غرض کہ شاہ صاحب اور مولوی صاحب کی دنیاؤں میں مشرق مغرب کا فرق ہے۔۔۔لیکن ایک چیز شاہ صاحب اور مولوی صاحب میں مشترک ہے، یہ دونوں بلا سوچے سمجھے فیصلہ کرتے ہیں۔
ایک رات مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ کل سے ٹریفک اُلٹا چلے گا، یعنی برطانیہ کے انداز کو چھوڑ کر امریکا کے طریقے پر گاڑیاں چلیں گی اور ریڈیو پر اس کا اعلان کردیا۔ اگلی دن سے گاڑیاں مولوی صاحب کے حکم کے مطابق چلنا شروع ہوگیءں، لیکن گاڑیاں چلنے کے بجائے پلے لینڈ کی ڈاجنگ کار کی طرح ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئیں اور سوات میں انتہائی حادثات کے دن کی تاریخ رقم ہوگئی، اگلے دن مولانا کو اپنا حکم واپس لینے کی نوبت ہی پیش نہیںآئی کیوں کہ مولوی صاحب نے اس حکم میں ہی اس کی فنا لکھ دی تھی۔
شاہ صاحب نے بھی مولوی صاحب کی طرح اچانک اعلان کردیا ہے کہ کراچی کے بازاروں میں کاروبارِ زندگی سات بجے شام سے بند ہوجائے گا، جب کہ شادی ھال رات دس بجے بند ہوجائیں گے۔ اس اعلان کے بعد ابھی بازار گیارہ بارہ بجے رات تک کھلے رہتے ہیں اور شادی ھال سرکاری کاغذ پر بارہ بجے تک اور عملاًساری رات کُھلے رہتے ہیں۔ اگر شاہ صاحب نے یہ اعلان پولیس کی آف شورکمائی کے لیے کیا ہے تو یقیناً شاہ صاحب کا یہ فیصلہ سو فی صد کام یاب رہے گا، لیکن اگر شاہ صاحب واقعی سات بجے بازار اور دس بجے شادی ھال بند کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں معلوم ہونا چاہیے، اُن کا یہ حکم مولوی صاحب کے حکم کی طرح ایک ہی دن میں ہوا میں اُڑ جائے گا، اگر شاہ صاحب نے اس حکمِ شاہی سے پہلے اچھے بچوں کی طرح ہوم ورک کرلیا ہوتا تو ممکن ہے اُن کے حکم اور حکم دینے کے طریقے میں کچھ معقولیت آجاتی، مثلاً شاہ صاحب تجربے کے لیے کورنگی سے سخی حسن کے شادی ھالز کا سفر کرلیتے تو اُنہیں معلوم ہوجاتا کہ شام کے ٹریفک جام میں پھنس کر چھ بجے گھر سے نکل کر رات دس بجے سخی حسن کے شادی ھال تک پہنچنا ناممکن ہے؟
اسی طرح شاہ صاحب نے کراچی کے دکان داروں سے سروے کیا ہوتا تو اُنہیں معلوم ہوتا کہ ننانوے فی صد ریٹیلرز دکان دار دو بجے دن کے سوکر اُٹھتے ہیں، کراچی کی اکثر آبادی نے دن کو رات اور رات کو دن بنا رکھا ہے، یعنی دن سونے کے لیے اور رات کام کے لیے۔
یوں تو شاہ صاحب کوٹ ٹائی پہنتے ہیں اور سندھ کے وزیر خزانہ بھی رہے ہیں، لیکن نا معلوم ان کی نصابی اور ہم نصابی تعیلم کتنی ہے، کیوں کہ ہمارے دورویش صفت ملک میں فیڈرل سروس کے سربراہ بی اے تھرڈ ڈویژن پاس ہیں۔ یہ ادارہ پاکستان کے اعلی افسران کے انتخاب کے لیے مقابلے کا امتحان کرواتا ہے، لہذا ممکن ہے کہ شاہ صاحب بھی مولوی صاحب کے مساوی تعلیم یافتہ ہوں اور اگر شاہ صاحب کے پاس کوئی ایم بی اے یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہو تو یہ بھی ان کو مولوی صاحب سے برتر نہیں کرتی، کیوں کہ اندرون سندھ سندھی قوم پرست طلبہ تنظیموں نے تعلیم کا جنازہ نکال دیا ہے اور کراچی میں ایم کیو ایم اور عشرت العباد جیسے لوگوں نے تعلیم کو تماشا بنادیا ہے۔
شاہ صاحب، عادت اور عبادت میں بڑا فرق ہے، عبادت اگلے لمحے سے شروع کی جاسکتی ہے، جب کہ عادت کو بدلنے میں وقت لگتا ہے، جو لوگ ساری زندگی دوبجے دن سوکر اُٹھتے ہیں، وہ اچانک منہ اندھیرے کیسے بستر چھوڑ سکتے ہیں؟ دوبجے اُٹھنے والے اگر صبح ہی صبح اُٹھ بھی گئے تو شروع کے دنوں میں اُن کے حالات نشے سے محروم ہیرونچی کی سی ہوگی، اس کیفیت میں جب اُن کا اپنا چلنا محال ہوگا تو وہ بے چارے دکان کیا چلائیں گے۔
ہمارے شوبز کے لوگوں کو تو ضیاء الحق بہت اچھی طرح یاد ہیں، وہ آج بھی مرحوم ضیاء الحق کا نام سُن کر ھذیانی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اسی ضیاء الحق نے جو ایک غیر منتخب سربراہ تھے اور بھٹو کو ہٹا کر بہ زور حکم راں بن گئے تھے، اس غیر جمہوری ضیاء الحق نے عوام کو گھی کے بجائے تیل کھانے کے راستے پر لگایا تھا۔
ضیاء الحق نے جب ارادہ کیا کہ قوم کو کوکنگ آئل کھانا چاہیے تو انہوں نے اس موضوع پر تیاری کے ساتھ ٹی وی پر آکر قوم سے خطاب کیا اور بتایا کہ تیل کو گھی کی شکل میں لانے کے لیے ایک روپیہ فی کلو کا خرچہ آتا ہے جب کہ گھی صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہے، انہوں نے بتایا کہ ہم پیسے خرچ کرکے اپنی صحت کے لیے نقصان خرید رہے ہیں۔ کہنے کو یہ ایک چھوٹا سا انتظامی مسئلہ تھا اور چند سو گھی کمپنوں کو حکم دے کر گھی کی تیاری سے روکا جاسکتا تھا، پھر بھی اس آمر نے ایک ’’چھوٹے سے مسئلے‘‘ پر قوم کی ذہن سازی کی لیکن شاہ صاحب نے جمہوری ہوتے ہوئے بھی ایک آمر جتنا جمہوری طریقہ نہیں اپنایا۔ کراچی کے بازاروں سے لاکھوں دکان داروں کا کاروبار وابستہ ہے۔ شاہ صاحب نے اُن سے مشورہ کرنے کے بجائے اور اُن کے ذہن سازی کیے بغیر حکم شاہی صادر کردیا کہ کراچی کے بازار سات بجے بند ہوجائیں گے۔ دیکھتے ہیں یہ فیصلہ نافذ بھی ہوتا ہے یا اپنی پیدائش سے پہلے ہی دفن ہوجاتا ہے اور اس فیصلے سے عوام کو فائدہ ہوتا ہے یا پولیس کے مالی حالات ترقی پاتے ہیں؟
سُنا ھے کہ یوم حساب جب بندے اللہ کی عدالت میں حساب کتاب کے لیے پیش ہوں گے تو ملزمان کے ہاتھ پیر ان کے کرتوتوں کی گواہی دینے لگیں گے۔ مصفطی کمال، عشرت العباد، آفاق احمد، فاروق ستار جو الطاف حسین کے ہاتھ پیر تھے، وہ تو اس دُنیا ہی میں الطاف حسین کے کرتوتوں کی گواہی دینا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کی گواہیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایم کیوایم اور الطاف حسین کا یومِ حساب قریب آگیا ہے اب وہ اپنے اعمال کے مطابق نتیجہ پائیں گے۔
اللہ کا کیسا اچھا انتظام ہے کہ وہ شر کے ہاتھوں شر کو دفع کررہا ہے، کراچی کے دہشت گرد سینہ ٹھوک کر چیلنج کرتے تھے کہ ہمارے خلاف کوئی گواہی لاکے تو دکھاؤ، ہمارے خلاف عدالت میں جاکر تو دکھاؤ، ہم پر تم جو الزام لگاتے ہو، اُسے ثابت کرکے تو دکھاؤ۔۔۔کو ئی قانون پسند اور مہذب سیاسی جماعت یا فرد اس مافیا پر لگائے جانے والے الزامات کیسے ثابت کرسکتا تھا، یہ کام حکومت کے کرنے کا تھا، لیکن ہماری حکومتیں خواہ وہ وردی والی ہوں یا بے وردی، سب اس مافیا کے شریک کار اس کے مددگار بنے رہے، لیکن اللہ نے ان مجرموں کو ایسا گھیرا ہے کہ خود طوطے کی طرح بنا پوچھے اپنے جرائم کا اقرار کررہے ہیں، چور خود ایک دوسرے کے خلاف گواہی دے رہے ہیں، یہ ناحق قتل کیے جانے والے مظلوموں کی آہ کا اثر نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ مظلوموں کی آہ نے ظالم کے خلاف سیکڑوں گواہ کھڑے کردیے ہیں۔
لیکن ابھی شیطان اپنی مکاریوں سے باز نہیں آیا ہے، وہ اپنے بڑے کارندوں کے جگہ چھوٹے چھوٹے اور تقسیم کارندے کھڑا کرنے کی کوشش کررہا ہے، شیطان کی یہ کوشش عوام کے اجتماعی ضمیر سے ناکام بنائی جاسکتی ہے، ہمیں ایک زبان ہوکر مطالبہ کرنا ہوگا کہ جو قاتل ہے، اسے اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیے، جو بھتہ خور ہے، اس کے ہاتھ کاٹے جانے چاہئیں، جو ملک کا غدار ہے، اُسے غداری کی سزا ملنی چاہیے۔ ڈاکوؤں، لٹیروں، بھتہ خوروں، قاتلوں، غداروں کو گُروہوں میں تقسیم کرکے خراب اور کم خراب قرار نہ دیں، جس طرح آج نہ کوئی ’’گُڈ طالبان‘‘ ہے اور نہ ’’بیڈ طالبان‘‘۔ اسی طرح شہروں میں بھی کسی کو گُڈ اور بیڈ قرار دینے کی ضرورت نہیں۔
وزیرِ اعظم کو بھی کراچی کی اس داستان سے سبق لینا چاہیے، وہ اگر اب بھی اپنی گم راہی، من مانی، بے ایمانی، بدعنوانی اور مکر وفریب سے باز نہ آئے تو وہ دن دور نہیں، جب اُن کے اپنے ہاتھ پیر بھی اُن کے خلاف گواہ بن کر کھڑے ہوجائیں گے، اب پاکستان میں ظالم کا ظلم تمام ہوکر رہے گا اور اور مظلوموں پر ہونے والا ظلم بھی بُرے انجام کو پہنچ کر رہے گا۔، اب یہ ظالموں پر ہے کہ وہ خود باز آتے ہیں یا اللہ کی پکڑ کا انتظار کرتے ہیں، ممکن ہے اللہ نے سی پیک کے ذریعے ظالموں کو پیک کرنے کا انتظام کیا ہو، سی پیک اور اللہ کی پکڑ کا آپس میں کیا تعلق ہے اس پر آپ خود غور کریں اور اگرآپ حکم کریں گے تو کچھ میں بھی کچھ سُجھانے کی کوشش کرسکتا ہوں۔
nn

حصہ