ماروی عبید

288

شام کا وقت تھا، لائبہ گھر میں اکیلی تھی اور رسالہ پڑھنے میں مگن تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ جب لائبہ نے دروازہ کھولا تو اس کی پڑوسن اور ماں کی پرانی دوست نازیہ تھیں جن سے لائبہ نے ٹیوشن پڑھی تھی۔
انہوں نے لائبہ کو خوش خبری سنائی کہ لائبہ نے ایم اے میں پورے صوبہ میں ٹاپ کیا ہے۔ اس بات پر لائبہ کو بے حد خوشی ہوئی اور وہ نازیہ آنٹی کو لے کر اندر آئی، تب آنٹی نے اس سے کچھ باتیں کہیں کہ دیکھو بیٹا تمہاری ماں نے تمہارے لیے بہت مشقتیں برداشت کیں، لوگوں کے گھروں میں کام کرکے تمہیں پالا، پڑھایا اور اس قابل بنایا۔ یہ سب ان کی دعاؤں اور محنتوں کا ثمر ہے جو تمہیں ملا ہے، لہٰذا تمہیں ان کی قدر کرنی چاہیے اور اب تمہیں اپنے اندر سے احساسِ کمتری کو ختم کرنا ہوگا، ایک نام اور مقام حاصل کرنا ہوگا تاکہ اپنی والدہ کو آرام و سکون دے سکو، کیونکہ تم دونوں ہی اللہ کے بعد ایک دوسرے کا سہارا ہو۔
یہ باتیں لائبہ کو ہمیشہ سخت غصہ دلاتی تھیں۔ اس وقت بھی اس کی خوشی غصے میں بدل گئی اور اس کا موڈ خراب ہوگیا۔ اتنی دیر میں لائبہ کی ماں بھی اپنے کاموں سے فارغ ہوکر لوٹی، تب لائبہ نے انہیں اپنے ٹاپ آنے کا بتایا۔
اس کی والدہ نے فرطِ مسرت میں اسے گلے لگایا اور شکرانے کے نوافل پڑھ کر خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ انہیں اسی دن کا انتظار تھا۔
لائبہ ہمیشہ سے احساسِ کمتری کا شکار رہی کیونکہ اس کے والد حیات نہ تھے اور نہ کوئی بہن بھائی تھا، نہ کوئی عزیز رشتے دار پوچھنے والا۔
اس کی ماں پڑھی لکھی نہ تھیں، انہوں نے لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اور گھر آکر مشین پر لوگوں کے کپڑے سی کر گزارا کیا، لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے لائبہ کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، اسے بہترین اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھایا۔ اور لائبہ بھی ذہین تھی۔ اس نے اپنی محنت سے ہمیشہ خود کو کلاس میں اوّل رکھا۔ اسکالرشپ کے ذریعے اس کے تعلیمی اخراجات بھی پورے ہوتے رہے۔ لیکن لائبہ نے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں کبھی اپنے گھر اور امی کا تذکرہ نہ کیا۔ کیونکہ وہ احساسِ کمتری میں مبتلا تھی اس لیے وہ لوگوں کو نہیں بتاتی تھی کہ وہ ایک ماسی کی بیٹی ہے جو ایک غریب محلے میں رہتی ہے۔
اس کے باوجود وہ آج اس مقام تک پہنچی کہ اس نے صوبے بھر میں ٹاپ کیا تھا۔ روز اس کی کالز آتیں کیونکہ میڈیا پر اس کے انٹرویو چلتے تھے، لیکن اس نے اپنے کسی انٹرویو میں اپنی والدہ کا تذکرہ نہیں کیا۔۔۔ پھر بھی اس کی والدہ اپنی بیٹی کی کامیابی پر خوش تھیں۔
ایک دن لائبہ جب گھر لوٹی تو اسے ایک بڑی کمپنی کی طر ف سے فون آیا۔ وہ لائبہ سے جاب کے سلسلے میں میٹنگ کرنا چاہتے تھے۔
اس طرح لائبہ اپنی کوششوں اور ماں کی دعاؤں سے ایک کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگئی۔ اسے کمپنی کی طرف سے گھر، گاڑی اور دیگر آسائشیں ملیں جن کی وہ خواہش رکھتی تھی۔ نئے گھر میں آنا اس کی ماں کے لیے ایک خواب تھا۔ اب انہیں ساری مشقتوں سے نجات مل گئی تھی۔ لائبہ نے گھر کے کام کے لیے نوکرانی رکھی اور ماں کو آرام دیا۔
اس عرصے میں لائبہ کی دوستی کاشان سے ہوئی۔ وہ لائبہ کے گھر رشتہ بھیجنا چاہتا تھا۔ کاشان بہت امیر خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ اسے کسی چیز کی کوئی کمی نہ تھی ۔ اور یہ سب لائبہ کے لیے ایک خواب تھا۔ جب اس بات کا تذکرہ لائبہ نے اپنی والدہ سے کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور تیاریوں میں لگ گئیں، کیونکہ آج ان کی دلی خواہش پوری ہونے جارہی تھی۔
جب کاشان اپنی ماں کے ساتھ لائبہ کے گھر آیا تو سمیرا بیگم کی ملاقات لائبہ کی ماں سے ہوئی، اور وہ انہیں دیکھ کر غصے میں آگئیں، کیونکہ لائبہ کی ماں نے بہت عرصے تک سمیرا بیگم کے گھر ملازمت کی تھی، پھر اچانک وہ بغیر بتائے وہاں سے کام چھوڑ کر چلی گئی تھیں جس کا سمیرا بیگم کو شدید غصہ تھا۔
لائبہ کی ماں اپنی بات سمجھانے کی کوشش میں تھیں کہ لائبہ وہاں آگئی اور اس نے ظاہر کیا کہ وہ ان کے گھر میں ملازمہ ہیں، جب کہ اس کی ماں اچانک کسی کی تعزیت کے لیے چلی گئی ہیں۔ اس بات سے لائبہ کی ماں کو دلی صدمہ پہنچا لیکن وہ لائبہ کی خوشی کی خاطر خاموش رہیں، اور دوسری طرف لائبہ کو دکھ تو بہت ہوا لیکن وہ کسی بھی قیمت پر کاشان کا رشتہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔ مہمانوں کے جانے کے بعد لائبہ نے ماں کو رشتہ طے ہونے کا بتایا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اب ماں کی جگہ وہ کس خاتون کو لائے! لائبہ کی ماں ہر صورت میں بیٹی کو اس کی خوشیاں دلانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اس کا حل نکالا اور اپنی دوست نازیہ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔
نازیہ آنٹی نے پہلے تو لائبہ کو بہت برا بھلا کہا، اسے بہت باتیں سنائیں، ماں کی قدر کا احساس دلایا، لیکن لائبہ کو اس بات کی کوئی پروا نہ تھی۔ ماں نے اپنی دوست سے ہاتھ جوڑ کر مدد کو کہا تو وہ ان کی خاطر مان گئیں۔
کچھ دن بعد سمیرا بیگم اور کاشان لائبہ کی والدہ سے ملنے آئے، شادی کی تاریخ طے ہوئی، لیکن سمیرا بیگم نے شرط رکھی کہ وہ ماسی کو دوبارہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں تاکہ گھر کے کام کروا سکیں۔
لائبہ اور نازیہ آنٹی نے بہت اعتراض کیا لیکن سمیرا بیگم کی ناراضی کو دیکھ کر لائبہ کی والدہ نے خود ہی یہ شرط مان لی کیونکہ وہ ماں ہونے کی بنا پر بیٹی کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتی تھیں۔
شادی کے بعد لائبہ کی ماں اسی گھر میں نوکرانی کی حیثیت سے کام کرنے لگیں لیکن لائبہ مطمئن ہی رہی، اور ماں اپنی بیٹی کی خوشیوں میں مخل نہیں ہونا چاہتی تھیں جس کی وجہ سے وہ خاموش رہنے لگیں، وہ دل کو اولاد کی خوشی کی خاطر سمجھا رہی تھیں۔
ایک دن کام کرتے ہوئے ان کے ہاتھ سے گلاس گر کر ٹوٹ گیا تو سمیرا بیگم کو بہت غصہ آیا، انہوں نے ماسی کو سخت سست اور برا بھلا کہا اور گھر سے نکلنے کا حکم دیا۔ لائبہ یہ سب دیکھ کر غصہ میں آگئی، اس نے اپنی ساس سے بدتمیزی کی۔ کاشان یہ سب دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔
لائبہ کی ماں وہاں سے دکھ اور تکلیف میں چلی گئی۔ ادھر لائبہ کو شدت سے احساس ہوا کہ اس نے کتنی زیادتی کی ہے، اپنی ماں کو کس قدر ذلیل کیا ہے، انہیں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کا رو رو کر برا حال تھا۔
لائبہ نے کاشان سے کہا کہ وہ ماسی (ماں)کو تلاش کرے۔ اچانک رات میں لائبہ آئی تو پتا چلا کہ ماں کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور لاش اسپتال میں موجود ہے۔ یہ سن کر وہ صدمے سے بے ہوش ہوگئی۔
اسپتال پہنچ کر اس نے لاش اپنے ساتھ لے جانے کی بات کی لیکن اسپتال انتظامیہ نے کہا کہ لاش صرف وارثوں کو دی جاتی ہے جب کہ آپ لوگ ان کے وارث نہیں ہیں۔ یہ سن کر لائبہ سے برداشت نہ ہوا اور اس نے حقیقت بتادی کہ وہی ان کی سگی اولاد ہے، جس پر لاش اس کے حوالے کردی گئی۔ لیکن کاشان اور اس کی والدہ کا دل لائبہ سے بہت خراب ہوا، اسے بہت برا بھلا کہا گیا کہ اس نے ماں کو، جس کے قدموں تلے جنت ہے، دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا اور اس قدر ذلیل ہونے پر مجبور کردیا۔ لائبہ کا سارا وقار، غرور اور اطمینان خاک میں مل گیا۔

حصہ