محمد انور

226

13159تحدہ قومی موومنٹ، ٹوٹنے کے بعد، اب انفرادی مکافات کے اس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جہاں سے دوبارہ واپسی ناممکن ہو گی۔ وہ قوم کے لیے ’’برے کام کا برا انجام‘‘ کی ایک ایسی سیریل سامنے آرہی ہے جس کی مثال ماضی میں سیاسی حلقوں میں نہیں ملتی۔ ملے گی بھی کیوں؟ جو کچھ ایم کیو ایم کے قیام کے بعد سے ہوتا رہا وہ بھی سب تاریخی تو تھا۔ پتھروں اور پتّوں پر شبیہ نمودار ہونے کے ساتھ لوگوں کو طاقت کے حصول کے لیے اسلحہ خریدنے کی جانب راغب کسی عام آدمی نے نہیں کیا تھا بلکہ اُس شخص نے کیا تھا جو اسی اسلحہ کے خوف سے ملک اور اپنوں سے دور جاکر رہنے پر مجبور ہے۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ 3 مارچ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اُس وقت سے ٹوٹنے لگی تھی جب اس کی پیدائش متحدہ کے بجائے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ہوئی تھی۔ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ وہی لوگ بنے جنہوں نے اسے بنایا تھا۔ اسے قائم کرنے میں جس کا جتنا کردار رہا، وہ اس کے ٹکڑے کرنے کا بھی ذمے دار ہے۔
نیک مقاصد کا حصول کبھی غلط راستے سے ممکن نہیں ہوسکتا۔ یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے۔ ایم کیو ایم میں کسی نیک مقصد کے لیے بنتی تو ناصرف قائم رہتی بلکہ روز بروز مضبوط بھی ہوتی۔ معصوم مہاجروں یا اردو بولنے والوں نے ایم کیو ایم کو سب کچھ دیا بلکہ جانیں بھی دیں مگر بدلے میں ایم کیو ایم کی جانب سے ان لوگوں کو کچھ بھی نہیں ملا۔وہ لوگ آج بھی محروم ہیں۔
ایم کیو ایم پہلی بار1991ء میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اُس وقت بھی الطاف حسین کی غلط پالیسیوں کو کوشش کے باوجود نہ سمجھ کر اور پورے تنظیمی نظام کو مشکوک جان کر آفاق احمد اور عامر خان نے اپنے سیکڑوں ساتھیوں سمیت بغاوت کی اور الطاف حسین سے کنارہ کشی اختیار کی تھی۔ (بعدازاں عامر خان دوبارہ نامساعد حالات کی وجہ سے واپس تنظیم میں لوٹ آئے)
ان دونوں رہنماؤں کی علیحدگی کے بعد مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے رواں سال3 مارچ کو الطاف حسین اور ان کی تحریک سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ ان دونوں نے بھی الطاف حسین پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے رابطوں سمیت دیگر سنگین الزامات عائد کیے۔ پھر 22 اگست کو کراچی پریس کلب کے باہر اپنے بھوک ہڑتالی کارکنوں سے الطاف حسین کی ملک کے خلاف توہین آمیز تقریر کے بعد 23 اگست کو ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیوایم کے دیگر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بانی ایم کیو ایم سے لاتعلقی ظاہر کردی۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعلان کیا تھا کہ ہم ایم کیو ایم پاکستان کے اصل ذمے دار ہیں۔ یہ تھی ایم کیو ایم سے ہونے والی آخری اور اہم کنارہ کشی۔
یہ اتفاق ہے یا مکافات کہ مہاجروں کو حقوق دلانے کی جدوجہد کے نام پر قائم ہونے والی اس پارٹی کے جو رہنماء عوام سے وعدے کرتے رہے اور قربانی مانگتے رہے، اہم سرکاری عہدے لیے، وہی ان دنوں زیادہ پریشان اور بے چین نظر آتے ہیں۔ یقیناًان میں الطاف حسین صفِ اول میں ہیں، جبکہ عشرت العباد اور مصطفی کمال دوسرے تیسرے نمبر پر ہیں۔ اب یہ لوگ ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ لیکن یہ الزامات اُس وقت لگائے جارہے ہیں جب معاملہ ان کی ذات کا پیدا ہوا۔ مصطفی کمال نے اچانک ہی گورنر عشرت العباد کو گورنر کے عہدے سے ہٹاکر ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور واضح الفاظ میں یہ کہا کہ گورنر سندھ عشرت العباد سنگین جرائم میں ملوث ہیں، انہیں بعض لوگ رشوت العباد کہتے ہیں۔ مصطفی کمال کے ان الزامات کے جواب میں عشرت العباد نے اپنے عہدے کے تقاضوں کو نظرانداز کرکے مصطفی کمال کو ان کا نام لیے بغیر مصطفی کدال سے منسوب کیا اور اس ضمن میں اردشیر کاؤس جی کے کالم کا حوالہ دیا۔ عشرت العباد نے 12 مئی 2007ء اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے واقعات کا ذکر بھی چھیڑا اور کہا کہ ان کے ملزمان کو گرفتار کرکے چوک پر لٹکائیں گے۔ اس بات کے جواب میں مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ عشرت العباد برطانوی شہریت رکھتے ہیں، وہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور 12مئی کے واقعات میں ملوث ہیں۔
یہاں یہ بات قابل غورہے کہ 12مئی (2007)کے واقعہ کے وقت مصطفی کمال سٹی ناظم تھے جبکہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں مصطفی کمال کے ساتھ ایم کیو ایم سے لاتعلقی ظاہر کرنے والے اُن کے ساتھیوں اور دوستوں کا نام آتا ہے۔ ان واقعات میں ملوث حماد صدیقی کے بارے میں مصطفی کمال نے کہا تھا کہ وہ میرے رابطے میں ہیں اور ان پر اِس واقعہ میں ملوث ہونے کے الزامات جھوٹے ہیں۔
گورنر کے منصب پر بیٹھے ہوئے عشرت العباد کی باتوں سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کا دفاع کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہیں ان واقعات میں ملوث کرنا درست نہیں ہے۔ لوگ عشرت العباد کی بات تسلیم کرلیتے اگر یہ بات انہوں نے موجودہ حالات کے بجائے چند سال پہلے کہی ہوتی۔ مگر اب لوگ اس بات کو تسلیم کرنے کے بجائے اُن الزامات کو درست ماننے میں حق بجانب ہے جو عشرت العباد پر مصطفی کمال نے عائد کیے ہیں۔
دوسری طرف عشرت العباد کی طرف سے برملا اس بات کے اظہار نے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں، انہیں مزید متنازع بنادیا ہے۔گورنر ریاست کا صوبے میں نمائندہ ہوتا ہے، وہ نہ تو کسی پارٹی کا ہوتا ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ یا مخصوص ادارے کی نمائندگی کرتا ہے۔
رہی بات مصطفی کمال، یا پاک سرزمین پارٹی کے رہنماؤں کی، تو غور طلب بات یہ ہے کہ مصطفی کمال نے آخر کس کے اشارے پر گورنر عشرت العباد کو اپنی مہم کا ہدف بنایا؟ خیال ہے کہ مصطفی کمال نے گورنر کی برطرفی اور گرفتاری کا مطالبہ کسی کے اشارے پر ہی کیا ہے۔ اگر یہ بات درست تسلیم کرلی جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مصطفی کمال کو ان قوتوں نے استعمال کرلیا جنہوں نے انہیں دبئی سے پاکستان آکر دوبارہ سیاست کرنے کی دعوت دی تھی۔
کراچی کے سیاسی حالات میں اگرچہ ایم کیو ایم میں آنے والی تبدیلی شہریوں کے لیے اس لیے خوش آئند ہے کہ انہیں امید ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سرکردہ رہنما معروف اصولوں کے تحت اپنی سیاست کو جرائم پیشہ افراد سے دور رکھیں گے۔ لوگوں کو امید ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار اپنے عزم کے مطابق پُرامن سیاست کو فروغ دیں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ شہر کو ہر طرح کے جرائم سے پاک کرنے کے لیے کراچی آپریشن مسلسل جاری رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے رینجرز کو مزید اختیارات دیے جائیں۔
ایم کیو ایم کے بانی اور ان کے ساتھیوں کی بات کی جائے تو یہ بات درست لگتی ہے کہ جب متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، یہاں رجسٹرڈ ہی ڈاکٹر فاروق ستار کے نام پر ہے تو الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کو نئے نام سے جماعت رجسٹرڈ کرانا ہوگی، یا پھر اپنی جماعت ہونے کے دعوے کو قانونی طور پر ثابت کرنا پڑے گا۔ چونکہ ایم کیو ایم نے جو منشور یا اپنے قوانین بنائے ہیں ان کو ملک میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت میں بانی اور سابق قائد ہونے کے باوجود الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کا ایم کیو ایم کے حوالے سے دعویٰ کمزور ہوجائے گا۔ ملکی قوانین میں کسی تنظیم کی رجسٹریشن میں بانی کے حوالے سے کوئی اختیارات مخصوص نہیں کیے جاتے۔ اس لحاظ سے بھی الطاف حسین کی گرفت کمزور پڑنے لگی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مصطفی کمال کی پاک سر زمین پارٹی، ڈاکٹر فاروق ستار کی ایم کیو ایم اور ڈاکٹر عشرت العباد کا مستقبل کیا ہے؟ اس بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ دونوں جماعتوں اور ڈاکٹر عشرت العباد کو سیاست میں اور ریاست کے نظام میں زندہ رہنے کے لیے اپنے آپ پر لگے تمام الزامات کی فوری یا کچھ دن بعد قانونی لحاظ سے صفائی پیش کرنی ضروری ہوگی، کیونکہ اب بات بیان بازی سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ان الزامات کو ثابت کیا جائے نہ کہ واپس لیا جائے۔ اب سیاسی جماعتوں کو عملی طور پر یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ان کی صفوں میں جرائم پیشہ لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات میں پہلے بھی ایک سے زائد مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ ملک کے سیکورٹی ادارے کراچی سمیت تمام شہروں کو غیر قانونی اسلحہ اور اسلحہ کی سیاست سے پاک کرنے کے ساتھ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ ایسی صورت میں کراچی سمیت ملک بھر میں صرف وہی جماعتیں چل سکیں گی جو بغیر اسلحہ اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنی سیاسی جدوجہد کریں گی۔ چونکہ سیاست کی آڑ میں سب سے زیادہ کراچی متاثر ہوا ہے اور آئندہ بھی ہونے کے خدشات ہیں، اس لیے سیکورٹی اداروں کی زیادہ توجہ کراچی پر ہی لگی ہوئی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ یہاں بھارتی خفیہ ایجنٹوں کی موجودگی بھی ہے۔
کراچی کو ایک جماعت کی طرف سے غیر قانونی سیاسی قوت حاصل کرنے سے ہونے والے مسلسل نقصانات کا بھی یہی حل تھا کہ اس قوت کو تقسیم کردیا جائے۔ اس تقسیم میں اداروں کی کوششیں اپنی جگہ لیکن اللہ کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے سب سے اہم اور حتمی ہیں۔ اللہ کی حکمت نے ہی ملک اور انسانیت کے دشمنوں کو سب کے سامنے برہنہ کرکے رسوا اور دربدر کردیا ہے۔ اب ایسی تمام قوتوں کو بھی مذکورہ سیاسی جماعت کے مکافات کے سلسلے کو سامنے رکھ کر سوچنا ہوگا کہ انہیں بغیر دھونس دھمکی کس طرح سیاست میں جینا ہے!!

حصہ