’’بلند و بانگ‘‘ دعوے

691

آجکل استعفا طلب کرنے پر بڑا زور ہے، لیکن ہمارے قومی رہنما جانے کیوں الف پر زبر لگا کر یعنی اَستعفا طلب کررہے ہیں۔ اس کے نیچے زیر لگانے سے کچھ زیروزبر نہیں ہوجائے گا۔
اِستعفا میں پہلا اور تیسرا حرف بالکسر ہے، یعنی ان کے نیچے زیر ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ سادہ لوح افراد پوچھ بیٹھتے ہیں کہ یہ ’’بال۔کسر‘‘ کیا ہے؟
ہمارے رہنما جب ٹیلی ویژن پر آکر غلط تلفظ ادا کرتے ہیں تو اس میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ عام لوگ، خاص طور پر طلبہ اس کو صحیح سمجھ لیتے ہیں اور تلفظ صحیح کرنے کا کوئی اہتمام بھی نہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر لتمبر سے برادر عدنان نے شکوہ کیا ہے کہ کوئی صحیح تلفظ بتانے والا بھی نہیں حالانکہ صوبے میں اردو کے حوالے سے بڑا کام ہوا ہے، اردو کے کئی بڑے شاعر اس صوبے نے دیے ہیں، لیکن ادارے کی سطح پر کام نہیں ہورہا۔
استعفا (اِس۔ تِع۔ فا)کا مادہ ’عفو‘ ہے یعنی معافی مانگنا۔ عمومی مفہوم نوکری ترک کرنے کی درخواست یا کسی کام سے دستبرداری مثلاً:
یہی ٹھیری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفا مرا بحسرت و یاس
زیر و زبر کے فرق سے معانی بدل جاتے ہیں، مثال کے طور پر باہِر اور باہَر۔ باہِر (عربی بالکسر سوم یعنی ’ہ‘ کے نیچے زیر)۔ اس کا مطلب ہے روشن، ظاہر۔ اردو میں عموماً ظاہر کے ساتھ آتا ہے جیسے ’’ظاہر و باہر‘‘ ہے۔ اور باہَر بروزن خواہر ہندی کا لفظ اور اردو میں عام ہے، جس کا مطلب سب کو معلوم ہے: اندر کے خلاف، کھلے میدان میں۔ باہر آؤ، باہر نکلو، باہر کا آنا جانا وغیرہ۔ ایک مصرع ہے:
اتنا نہ اپنی جائے سے باہر نکل کے چل
داغؔ کے دو شعر دیکھیے:
گل کو کیا رتبہ ہے نازک بدنی سے اس کی
جو کبھی اوس میں بیٹھے نہ گھڑی بھر باہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کیا ہے جو نکلوائے گئے گھر سے رقیب
اور دربانوں سے پھنکوا دیے بستر باہر
باہر کے مطلب بے تعلق، جدا، علاوہ، حد سے نکلا ہوا بھی ہیں۔ داغ ہی کا شعر دیکھیے:
نہ چھیڑو ہم کو نہیں آج کل قرار سے ہم
کہ باہر آپ ہیں اپنے بھی اختیار سے ہم
باہر کے اور بھی کئی مطلب ہیں لیکن اتنا کافی ہے۔
چند برس پہلے تک ’’تحقیقات‘‘ اخباروں میں بطور واحد استعمال ہوتا تھا۔ اب یہ جمع میں استعمال ہورہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ تحقیقات عربی میں تحقیق کی جمع ہے، لیکن اردو میں بطور مفرد مستعمل ہے یعنی جانچ، پڑتال۔
استاد تسلیم کے ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے
ہوئے برسوں کہ اب تک اس کی تحقیقات ہوتی ہے
پہلا مصرع شاید کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے۔ تحقیق کا مطلب ہے دریافت کرنا، کھوج لگانا، حقیقت دریافت کرنا، جیسے ’’آپ اس خبر کی تحقیق کرکے مجھے مطلع کیجیے‘‘۔ تحقیق اور تفتیش میں ایک فرق یہ ہے کہ تحقیق سے وہ عمل مراد ہے جس میں غور و فکر کے ساتھ کوئی معاملہ دریافت کرکے فیصل کیا جائے۔ اور تفتیش صرف ابتدائی پوچھ گچھ کا نام ہے جو سرسری ہوتی ہے۔ لندن والے الطاف کے بارے میں چار سال تک تفتیش ہی ہوتی رہی، تحقیق نہیں ہوسکی۔
چلیے، اب کچھ لطیفے پڑھ لیجیے۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ کشمیر کے مسئلے پر ایوان میں خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ کشمیریوں پر بڑی ’’ستم ظریفی‘‘ ہورہی ہے۔ موصوف نے کہیں سے یہ لفظ سن لیا ہوگا۔ کسی سے مطلب بھی پوچھ لیے ہوتے۔ ستم ظریفی کا مطلب ہے ظرافت کی آڑ میں ستم کرنا، شوخی، شرارت وغیرہ۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی کی فوج جو کچھ کررہی ہے اس میں ظرافت کا دخل نہیں، ستم ہی ستم ہے، اور اس کو ستم ظریفی کہنا ایک اور ستم ہے۔ بہرحال خورشید شاہ قابلِ معافی ہیں۔ کسی کا مصرع ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
پہلا مصرع یاد نہیں۔
ایک لطیفہ لاہور سے جناب افتخار مجاز نے بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ابھی (17اکتوبر) جیو نیوز پر رحیم یار خان کے حادثے کی خبر چل رہی ہے جو ’’ایک ذرائع‘‘ کے مطابق پیش کی گئی۔ حضرت، ایک ذرائع کے مطابق تو بڑی عام غلطی ہے جو ٹی وی پر کیا اخبارات میں بھی شائع ہوتی رہتی ہے۔ یہ کام عموماً نمائندے اور رپورٹر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ شہر کا نمائندہ اور رپورٹر خود کو جمع سمجھتے ہیں کیوں کہ خبریں جمع کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہوگا کہ ’’ایک ذریعے کے مطابق‘‘ لکھنے اورکہنے سے، خبر میں زور پیدا نہیں ہوگا۔ ہم اس پر مزید تبصرہ اس لیے بھی نہیں کریں گے کہ خود جسارت میں ہم نے ’’ایک ذرائع کے مطابق‘‘ پڑھا ہے۔ عدم ثبوت پر الطاف کی برأت کی خبر دیتے ہوئے ٹی وی چینل سما کے بڑے منجھے ہوئے اینکر شہزاد اقبال اس میں برطانوی ادارے ایم آئی۔16 کا ہاتھ تلاش کررہے تھے۔ یہ ادارہ اپنے نام کے حساب سے بڑا مظلوم ہے۔ یہ MI-6 ہے لیکن ہم جیسے لوگ آئی کو ایک سمجھ کر چھ سے ملا دیتے ہیں چنانچہ اسے ایم۔16 بھی پڑھا ہے۔ لیکن ایم آئی۔16 نئی چیز ہے۔ اگر آئی کو چھ سے ملانا ہی تھا تو اسے ایم۔16 کہہ دیا ہوتا۔ یہ خبر بار بار اسی طرح چلی اور کسی نے تصحیح نہیں کی۔ ایم۔ آئی ملٹری انٹیلی جنس کا مخفف ہے۔
ایک سیاست دان کے ’’بلندوبانگ‘‘ دعووں کی خبر ٹی وی چینل سے دی جارہی تھی اور ایسے جیسے بانگ دی جارہی ہو۔ دعوے خواہ کیسے ہوں لیکن بلند بانگ کے بیچ میں واؤ نہیں آتا، جیسے خط و کتابت اور قوس و قُزح میں واؤ نہیں آتا یعنی خط کتابت اور قوس قُزح۔ بانگ فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے آواز، صدا، اذان، مرغ کا بولنا وغیرہ۔ اب بلند و بانگ کا کیا مطلب ہوا؟ دو الفاظ کے درمیان واؤ ’اور‘ کے معنوں میں آتا ہے۔ یعنی بلند اور آواز۔ کیا صرف بلندبانگ سے کام نہیں چل سکتا، یعنی بلند آواز، صدا وغیرہ۔

حصہ