زاہد عباس

351

میرا کالم لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ عوام کی آواز بن کر ان کے مسائل و مشکلات اربابِ اقتدار کے سامنے لاؤں تاکہ عوام کے نمائندوں تک بات پہنچے، وہ عوامی مسائل حل کریں اور بدعنوانیوں میں ملوث لوگوں کے خلاف بروقت کارروائی کریں۔ میرا گزشتہ ہفتے کا کالم نادرا میں ایجنٹ و افسران کی کرپشن کو بے نقاب کرنے حوالے سے تھا، جیسے ہی عوام تک میری بات پہنچی لوگوں کی بڑی تعداد نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنے ساتھ نادرا کی جانب سے کی گئی ایسی ایسی زیادتیوں کا ذکر کیا، جنہیں سُن کر میراماتھا عرقِ شرمندگی میں ڈوب گیا، مجھے نہیں معلوم، اقتدار کے مسند پر بیٹھے لوگوں تک جب یہ بات پہنچے گی، ان کا ردّعمل کیا ہوگا؟ بہرحال، ان زیاد تیوں کی نشان دہی کررہا ہوں ، جو میرے علم میں لائی گئی ہیں۔ شاید انہیں پڑھ کر اعلیٰ حکومتی شخصیات یا عوامی نمائندے عوام پر گزرنے والے ان شب و روز کا احساس کرسکے، جس میں شہرِقائد کے باسی گرفتارِ بلا ہیں۔
مجھے ایک شخص ناصر محمود نے اپنی کتھا سناتے ہوئے بتایا کہ اس نے نادرا آفس میں پہلی مرتبہ شناختی کارڈ بنوانے کے لیے درخواست دی، تمام کاغذی کارروائی مکمل کر تے ہوئے نا صر محمود نے جو درخواست نادرا آفس میں جمع کروائی، اس پر عمل کرتے ہوئے اسے شناختی کارڈ کا اجرا کردیا گیا۔ ناصر محمود کے بقول وہ خوشی خوشی گھر آگیا، لیکن گھر آکر جب اس نے بغور شناختی کارڈ کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ اس پر درج تاریخ پیدائش میں پورے تین برس کا فرق ہے۔ بعد ازاں، فوری آفس سے رابطہ کرنے پر اسے عوامی مرکز روانہ کر دیا گیا، کبھی عوامی مرکز تو کبھی ضلعی دفتر۔ چکر لگ لگا کر اس کی جوتیاں گِھس گئیں اور کچھ حاصل حصول نہ ہوا، آخر میں دل برداشتہ جوتے گِھسنے والے ناصرمحمود کو متعلقہ نادرا آفس سے یہ پیغام دیا گیا کہ 5200 روپے فیس لے کر آؤ تب ہی مسئلہ درست ہوگا۔ ناصر محمود کہتا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہہ غلطی ادارہ کرے اور رقم درخواست دہندہ اداکرے، جب اس نے اس کلیے کا حوالہ دیتے ہوئے نادرا افسران سے انصاف چاہا تو وہ اکبر بادشاہ سے بھی بڑے بن گئے اور اس کی کوئی بھی بات سُننے کو تیار نہیں ہوئے۔ خالد محمود کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک غریب مزدور ہے، 5200 روپے کا بندوبست کرے یا گھر کا چولہا جلائے، اس کی سمجھ میں نہیں آتا، کس سے فریاد کرے، اب کس کے آگے اپنا مألہ رکھے۔ اس سوچ نے ناصر محمود کو گھن چکر بنا کر رکھ دیا ہے، نادرا سے وصول ہوا کارڈ اس کے لیے ایک کاغذ کے علاوہ کچھ نہیں، عمر میں تین برس کی غلطی کا خمیازہ اس طرح بُھگت رہا ہے کہ نوکری کے لیے در بدر کی ٹھو کریں کھانے پر مجبور ہے۔
ایک اور شخص حسن امام نے نادرا کی فن کاریوں کے بارے میں آگاہ کیا، حسن امام ایک نعت خواں ہے، اس کی کئی سی ڈیز مارکیٹ میں موجود ہیں۔ ٹی وی ، ریڈیو پر نعتیں پڑھنے والے اس نعت خواں کا کہنا تھا کہ اس نے شناختی کارڈ جب تاریخ اجراکی تصدیق کے لیے متعلقہ دفتر میں جمع کرا یا تو اس پر غیر ملکی ہونے کا اعتراض لگا دیا گیا۔ حسن امام نے بتایا کہ میں نے ایک ایک ثبوت نادرا آفس میں جمع کروایا، لیکن پھر بھی میرے شناختی کارڈ کی تصیح اب تک نہیں کی جاسکی، میں دفتر کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکا ہوں، میں نے تعلیمی اسناد کے علاوہ بھی قابل قبول دستاویز نادرا آفس میں جمع کروا دی ہیں، مگر کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی، نادرا نے میرے ساتھ اس قدر زیادتی کی کہ شناختی کارڈ نہ دے کر مجھے عمرے کی سعادت سے بھی محروم کردیا، میراپاسپورٹ شناختی کارڈ کے بغیر نہ بن سکا، بغیر پاسپورٹ کے میں کس طرح عمرہ کر سکتا تھا، میں اللہ کی بار گاہ میں نادرا افسران کو ضرور پکڑوں گا، جنہوں نے مجھے روزہ رسولؐ کی زیارت سے محروم کیا، وہ حشر کے میدا ن میں میرے مجرم ہوں گے، نہ جانے کتنے مسلمانوں کو یہ ادارہ حج وعمرے سے محروم کررہا ہوگا، حسن امام نے کہا کہ خدارا، حکومت اس نا انصافی کو ختم کرے اور نادرا کے اس عملے کے خلاف کارروائی کرے، جو لوگوں کو حج یا عمرے کی سعادت سے محروم کر رہے ہیں۔ خو د پر ہونے والی نا انصا فیوں کا ذکر کر تے کرتے حسن امام کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بے شک، ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خانہ کعبہ اور رو زہ رسولؐ کی زیارت کرے، دن رات دعاؤں میں ہر مسلمان اللہ کے گھر جانے کی درخواست ہی تو کر تا ہے، شاید ہی کسی ملک میں مسلمانوں پر اس طرح دستاویزی اعتراض لگا کر حج و عمرہ پر جانے سے رو کا جاتا ہو۔ ایسی درخواستوں پر تو فوری فیصلے ہونے چاہئیں کیوں کہ یہ فرائض تو شاملِ عبادات ہیں۔
جوں جوں مجھے نادرا کی جانب سے کئی گئی نا انصا فیوں کے بارے میں معلوم ہو رہا تھا، میرا اعتما د اس محکمے سے اٹھتا جا رہا تھا۔ نہ جانے ہزاروں لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کے چکر لگوا لگواکر نادرا عملہ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟ جائز درخواستوں پر اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو لازم ہے کہ وہ غلطی محکمہ درست کرے، عوام کو تو اپنی غلطیوں کی سزا نہ دے۔
مجھے اس وقت بہت دُکھ ہوا، جب ایک عالمِ دین صالح احمد نعمانی نے اس ظلم کا احوال سُنایا، جو نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے ان کے ساتھ کیا۔ صالح احمد نعمانی نے بتایا کہ میں نے2002 میں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ایک درخواست نادرا آفس میں جمع کروائی، 1972 میں پہلے بنائے گئے شناختی کارڈ کی کاپی بھی ساتھ میں منسلک کی، کچھ ہی عرصے بعد نادرا آ فس کے حکام نے مجھ سے کہا کہ آپ کا شناختی کارڈ بن چکا ہے، لہذا آپ لیاقت آباد ڈاکخانہ پر قائم نادرا برانچ سے وصول کرلیں۔ نادرا کی طرف سے دی گئی ہدایت پر میں لیاقت آباد نادرا برانچ سے کارڈ وصول کرنے پہنچا تو میرے کارڈ پر موسیٰ کالونی کا پتہ تحریر تھا، جب کہ تصویر بھی کسی دوسرے شخص کی لگی ہوئی تھی، کارڈ پر درج ایڈریس کے مطابق کوئی شخص بھی اس جگہ رہائش پذیر نہ تھا، گھرانہ نمبر جو کہ 1972 میں بنائے گئے کارڈ کے تحت دیا گیا، وہ میرا ہی تھا۔ اس مسئلے کو لے کر جب میں متعلقہ دفتر گیا تو مجھے چکر پہ چکر لگوائے گئے۔ یہ چکر میں آج بھی لگارہا ہوں، میرے لیے ایک نہ ختم ہونے والا ایسا رستہ بن گیا ہے، جس کی منزل شاید ہی مجھے ملے۔ نعمانی صاحب کا کہنا ہے کہ نادرا کی جانب سے کی گئی غلطی کا قصوروار ٹھہراکر مجھے کبھی عوامی مرکز تو کبھی ڈسٹرکٹ آفس، کبھی متعلقہ دفتر تو کبھی آرام باغ پو لیس ہیڈکوارٹر کے لاتعداد چکر لگوائے گئے۔ میں آج بھی اپنی اصلی شناخت سے محروم ہوں، انہوں نے مزید بتایا کہ میں نے ہر جگہ سے قانون کے مطابق دستاویزات نادرا کے پاس جمع کروائیں، مگر ہر مرتبہ میرے شناختی کارڈ پر اسی شخص کا پتہ اور تصویر لگا دی جاتی ہے، مجھے یہ ڈر ہے کہ 2002 میں بنائے گئے میرے گھرانہ نمبر سے اس کارڈ پر کوئی غیر قانونی کام نہ ہوجائے، میں اپنے اس مسئلے کو حل کروانے اور کون کون سے در پر جاؤں، جہاں سے میرا یہ مسئلہ حل ہو۔ صالح احمد نعمانی کے مطابق نادرا سے جاری کردہ اس شخص کے کارڈپر میری ہی ولدیت عبدالغنی تحریر ہے، اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ موسیٰ کالونی میں نا معلوم جگہ پر رہنے والے اس شخص کے تین بیٹوں نے میرے ہی گھرانہ نمبر سے کارڈ بنوا لیے ہیں۔ صالح احمد نعمانی ولد عبدالغنی نے ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ ان کے قریباً 70000ہزار روپے جو کہ ڈاکخانہ میں جمع ہیں شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے نہیں نکلوا سکتے، اس وجہ سے وہ مالی طور پر بھی پریشان بیٹھے ہیں۔
قارئین، میں یہاں یہ بات بھی آپ کو بتاتا چلوں کہ صالح احمد نعمانی کے بارے میں جب میں نے معلومات حاصل کیں تو مجھے اس بات پر بڑی حیرت ہوئی کہ وہ کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ یہ وہ عالم دین ہیں، جنہیں مو لانا مودودیؒ کی عصری نشستوں میں حاضری کا شرف حاصل ہے، جو چار برس تک مولانا مودودیؒ کے شفقت کے سائے میں رہے اور مولانا صاحب کی امارت میں وہ رکن جماعت اسلامی بنے۔ اس قدر پڑھے لکھے اور معز زاستاد کے ساتھ اگر نادرا حکام کا یہ رویّہ ہے تو کسی دوسرے شہر ی کی تکالیف کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک شکا یات تحریر کرنے سے جائز شکایات حل ہوسکتی ہیں، محکموں میں ہونے والی کرپشن اور نا انصافیوں سے پردہ اٹھایا جا سکتا ہے اور مولا نا صالح احمد نعمانی جیسے فرشتہ صفت انسان کی ان دہائیوں کو ارباب اختیار تک پہنچایا جاسکتا ہے، جو بے خبر سب اچھا ہے کہ کلیے پر عمل کرنے پر مصروف ہیں۔ بات ذرا سی ہے، نادرا کے پاس گھرانہ نمبر موجود ہے، کمپیوٹر کا صرف ایک بٹن دبانے سے کسی بھی شہری کی معلومات حاصل کی جاسکتی ہے، اس سسٹم کے تحت (اگر غلطی ہوتی ہے تو وہ کی جاتی ہے )وگرنہ شاید ہی نادرا کے موجود ہ سسٹم کے تحت کوئی غلطی ہو۔ ہمارے ملک میں سسٹم کے تحت اگر ادارہ چاہے تو مجرم کی شناخت پل بھر میں کردے۔ اس سسٹم کے تحت ہر شہری کے بارے میں معلومات کرنا عام سی بات ہے تو پھر کیوں اور کس کے کہنے پر لوگوں کو بے جا تنگ کیا جارہا ہے؟ کسی بھی محب وطن پاکستانی کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اپنے اطراف میں ہونے والی حق تلفیوں ، نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرے۔ میں نے اس کالم کے ذریعے جس قدر ممکن ہے، حقائق لوگوں کے سامنے رکھ دیے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ نادرا حکام اور مستندِ اقتدار پر بیٹھے نمائندے مظلوم شہریوں کو کب انصاف دلواتے اور بدعنوانیوں میں مبتلا افراد سے کس طرح نمٹتے ہیں؟
nn

حصہ