محمد ابو بکر صمدانی

352

13254’آیا ہے انقلاب نبیؐ کے ظہور سے‘‘
ادب نگری کی سنہری جالیوں سے نور محمدیؐ چھن چھن کر ہویدا ہو رہا ہے اور رحمت دھنک رنگوں میں منقسم ہو کر گنبد خضرا سے پھیلتے پھیلتے گنبد آبگینہ رنگ کو ضور کر رہی ہے۔ امت محمدیہ کے سلام و پیام خدا کے لاڈلے تک پہنچ رہے ہیں نورانی مخلوق کا ایسا تار بندھا ہے جو تاقیامت قطار اندر قطار رہے گا۔ ریاض رسولؐ کے بلبل یہ ثناخواں ہیں جن کے نالوں اور نواؤں کو حضرت حسان بن ثابتؓ کی نسبت حاصل ہے اور اسی قطار میں مودب وزیر حسن وزیر بھی اذن و خول کا طالب ہے۔
اس لیے نعتِ محمد لکھ رہا ہوں میں وزیرؔ
مدحت خیر الواری میں ڈوب جانا ہے مجھے
حسن و عشق کی ہم آوازی اور ہم آہنگی میں التھاب قلب کے بعد دوسرا پڑاؤ اجتھاد کسب کا ہے جیسا کہ خود سراپا تنویرِ دوست آنحضرتؐ نے فرمایا ’’میری تعریف میں ایسا مبالغہ نہ کرو جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کے بارے میں کیا‘، مگر یہاں خطرات قدرے کم تھے کیونکہ عیسائی تعریفِ عیسیٰؑ محض اپنے گناہوں کے کفارے کے طور پر کرتے تھے۔ جبکہ امت محمدیہؐ بجز عشق کہ کچھ نہیں اور پھر وہ عشق ہی کیا جو آدابِ حسن سے آشنانہ ہو اور آداب حسن سے واقفیت کے لیے ورق الٹنے پڑتے ہیں یہ بھی ایک آزمائش ہے۔ سو وزیر اس وادی میں بھی عازم سفر نظر آتے ہیں لکھتے ہیں کہ میں نے قرآن و حدیث سیرت کی کتابوں کا باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ تاریخ اسلام و صحابہ اکرامؓ کو پڑھا اور خصوصاً علامہ اقبالؒ اور ماہر القادری کو پڑھ کر لاشعور میں نعت گوئی کی تڑپ جاگنے لگی جس کو شعوری پیراہن ان کے استاد حافظ دہلوی اور علامہ ماہر القادری کی توجہ نے عطا کیا۔ سو اس امتحان میں ان کے کامران ہونے کی گواہی پروفیسر محمود غزنوی دیتے ہیں۔
’’نعت گوئی شاعری کا تقویٰ ہوتی ہے۔ جہاں افراط و تفریط سے دامن بچا کر منزل مراد تک پہنچا جاتا ہے۔۔۔ میں نے وزیر حسن وزیر کی نعتیہ شاعری ’’مدحتِ سرکار دو عالمؐ کا مطالعہ کیا اور ایک ایک شعر میں شاعر کو مستحق پایا ہے ان کی شاعری میں نسبت کے چراغ جابجا روشن ہیں‘‘۔
وزیر اس عشق و مستی کے ہنر کو کھیل مت سمجھو
کہ اس مدحت سرائے میں فقط اہل ہنر ٹھہرے
سو صاحب ہنر ہونا بھی آداب حسن میں سے ہے۔ نعت کے اشعار کا زباں و بیاں کی صحت میں مزین ہونا ازحد ضروری ہے اور وزیر اس باب میں بھی بے مراد نہیں ہیں بقول استادی عبدالصمد تاجی وہ اپنی کیفیت قلب کو بخوبی شعریت کا جامہ پہنانے پر دسترس رکھتے ہیں۔ یہی تصدیق محترم اجمل سراج صاحب نے یوں فرمائی ’’جب آپ اس مجموعے کا مطالعہ کریں توبہ خوبی جان لیں گے کہ وہ زبان و بیان پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ نعت کی نزاکتوں کو سمجھنے والے ہیں‘‘
ہم کو لکھنے لکھانے کا فن آگیا
نعت کہنے کو جو استعارے چنے
(وزیرؔ )
نعت کے استعارے چنتے چنتے اسی وسیلے سے وزیر حسن وزیر تمام اصناف سخن میں عالمانہ رنگ دکھانے لگے غلام علی وفا لکھتے ہیں۔
’’ان کے ساتھ چند مشاعرے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ان کے فن کی پختگی لفظوں کی نشست و برخاست اور سب سے بڑھ کے موضوعات اور ان کے اظہار کا عالمانہ و صف انتہائی متاثر کن ہے‘‘
وہ دن بھی نیا ہو گا و رات نئی ہوگی
جب دیکھیں گے روضے کو آنکھوں میں نمی ہو گی
جب بادِ صبا ہو کر آئے گی مدینے سے
سب کچھ وہ بتا دے گی جوان سے سنی ہو گی
(وزیرؔ )
مدینہ سے چلی ہوئی باد صبا کا پیغام وہ جوہر ہے جو دنیا سے نفرت و عداوت کو ناپید کر دے گا اور محبت ہی محبت جلوہ گر نظر آئے گی۔ وزیر۔ کی شاعری اس جہت سے انقلابِ زمانہ کی آواز بھی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر شاداب احسانی نے آپ کی شاعری کے اس پہلو کو آشکار کیا۔
’’شاعر اپنی شاعری میں صدادب اور سیرت طیبہ کو اس انداز میں نظم کرتا نظر آتا ہے کہ اکیسویں صدی کے تناظر میں انسان سے انسان کا رشتہ بحوالہ رسولؐ عربی مشاہدہ کہا جا سکتا ہے اور تقسیم در تقسیم کے مزکور عمل پر کاری ضرب بھی پڑتی نظر آتی ہے‘‘
آیا ہے انقلاب نبیؐ کے ظہور سے
روشن ہے کائنات محمدؐ کے نور سے
’’مدحت سرکار دو عالمؐ‘‘ میں مبارک بادوں کے سلسلے مین ایک نام فرخ اظہار کا ہے۔
’’شہل ممتنع میں نعت کے اتنے حسین اور خوبصورت اشعار‘‘ مدحت سرکار دو عالمؐ ’’میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ وہ جس نزاکت سے اشعار کو سنوارتے ہیں ایسا سلیقہ بہت کم نعت گو شعراء کے کلام میں دیکھنے میں آتا ہے‘‘
بربط زیست تھی محتاج خروشِ مضراب
نغمگی آگئی سرکار کے آجانے سے
اور سید مشتاق راجہ نے تمام امت محمدیہ کو ’’مدحت سرکار دو عالم‘‘ پڑھنے کی دعوت دی جوان کے وفور شوق پر دلالت کرتی ہے۔
’’اب مزید تو آپ ’’مدحت سرکار دو عالمؐ‘‘ کو پڑھ کر ہی جان سکتے ہیں کہ جناب وزیر حسن وزیر صاحب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعت گوئی کا خاص انعام کیوں عطا کیا گیا‘‘
مری حیات کا مقصد ہے بندگی رب کی
مرے نصیب کا حاصل مگر مدینہ ہے
بسا لیا ہے اسے میں نے اپنی آنکھوں میں
جدھر نگاہ اٹھاؤں ادھر مدینہ ہے
***
ہر رہگزر پہ آپؐ کا جلتا دیا ملے
شجر و حجر میں آپ کی حمد و ثنا ملے
اس طرح سے کوئی بھی کسی سے نہیں ملا
جیسے کہ اپنے رب سے حبیب خدا ملے
علم اصول کا معروف قاعدہ ہے کہ مفصل کے بعد مجمل بھی مفصل ہوتا ہے۔ اسی اصول سے علم بلاغت کا ایک قاعدہ مستبط ہوتا ہے یعنی ’’الکنایۃ ابلغ من التصریح‘‘ کہ کنایۃ صراحت سے ابلغ ہے۔ اس ناقص کے خٗال میں ’’مدحت سرکار دو عالمؐ‘‘ اور اس میں شامل حمد و مناجات باب عشق میں تصریح اور تفصیل ہیں اسی لیے انہوں نے دہلے مجموعۂ نعت لانے کی ٹھانی اور ان کا زیرِ طبع مجوعۂ غزلیات ’’روشنی‘‘ اجمال اور کنایۃ ہے اور در حقیقت وہ بھی عشقِ حقیقی کی طرف ان کے گامزن ہونے کا آئینہ دار ہے۔ بقول حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب ’’چنانچہ ہماری شاعری کی اصل روایت یہی ہے کہ اس کا موضوع اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت ہے اور خواہ پیرایۂ اظہار غزل کا استعمال ہوا ہو۔ لیکن معانی میں اکثر و بیشتر اسی اصل موضوع کا لحاظ کیا گیا ہے‘‘۔
(نعت رسولؐ اور اس کے آداب از مفتی تقی بحوالہ مستند حمد و نعت)
تیری آرزو عبادت تیرا عشق والہانہ
تیری زندگی کا مقصد ہمیں آگ سے بچانا
تیرا لفظ لفظ آیت، تیرا صرف صرف قرآن
تیریؐ زندگی حقیقت، میری زندگی فسانہ
دیدۂ نم وزیر حسن نے پیرا نہ سالی میں جو یہ خوبصورت مجموعۂ نعت بطور زادراہ اپنے اعمال سے سجایا ہے یہ ان کے لیے باعث شفاعت اور ہمارے لیے چراغ راہ ہے۔ اس دعا میں ہم بھی ان کے شریک ہیں۔
سوچ میری حجازی بنا دے
مرے دل کو نمازی بنا دے
اے وزیرؔ اپنے رب سے دعا ہے
ہر عمل امتیازی بنا دے
nn

حصہ