محمد عمر احمد خان

296

موسم بہار کی ایک صبح لالو ریچھ کی آنکھ کھلی تو اُس نے جنگل کے ماحول میں ایک عجیب سی تبدیلی محسوس کی۔ اُس کی ناک میں پھولوں کی خوشبو کی جگہ دھوئیں کی تیز بو آئی۔ وہ آنکھیں مَلتا ہوا درخت سے اُتر آیا۔ اس نے دیکھا کہ جنگل کے سارے جانور شاہ بلوط کے درخت کے نیچے جمع ہیں اور آپس میں چہ میگوئیاں کررہے ہیں۔
’’خیریت تو ہے، یہ صبح ہی صبح سارے جانور یہاں کیوں جمع ہیں؟‘‘ لالو نے بی لومڑی سے پوچھا۔
لومڑی بولی: ’’بھائی لالو، خیریت ہی تو نہیں ہے۔ تم دیکھ نہیں رہے، فضا میں آکسیجن کی جگہ بدبودار دھوئیں کی آمیزش ہے، جنگل کے بڑے بڑے درخت کاٹ کر جلائے جارہے ہیں۔‘‘
سامی چیتے نے گفتگو میں حصّہ لیتے ہوئے کہا:
’’تمہیں یاد نہیں، پچھلے سال اسی طرح دھوئیں کی آمد کے ساتھ ہی ہمارے جنگل سے کتنے سارے جانور اچانک لاپتا ہوگئے تھے!‘‘
لالو ریچھ بولا: ’’ہاں ہاں، یاد آیا، ٹوٹو بندر، پوپو گینڈا، کوکو زرّافہ، راجا شیر، جنگلی بکری اور میرا پڑوسی کالو ریچھ، پتا نہیں بے چارے کہاں گئے؟‘‘
’’ارے بھئی جائیں گے کہاں؟ انہیں وہی لے گیا ہے، جو جنگل کے درخت کاٹ رہا ہے، فیکٹریاں لگا رہا ہے، دریاؤں اور جھیلوں میں فضلہ (فیکٹریوں کا بچا ہوگندا مواد) بہا رہا ہے اور جس نے سارا ماحول آلودہ کررکھا ہے‘‘۔ بی لومڑی نے ہاتھ نچا کر کہا۔
’’آپ ٹھیک کہتی ہیں خالہ لومڑی، یہ اسی شیطان کے کارنامے ہیں‘‘۔ منکو ہرن نے کہا۔
’’مجھے تو پورا یقین ہے کہ جو جانور لاپتا ہوئے، انہیں وہی پکڑ کر لے گیا ہے‘‘۔ چھمیا گلہری نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’اور اب وہ سب بے چارے کسی چڑیا گھر میں قید ہوں گے‘‘۔ بی لومڑی نے تاسف بھرے لہجے میں کہا۔
’’لیکن کسی کو قید کرنا اچھی بات تو نہیں‘‘۔ چوچو چوہا دُم ہلاکر بولا۔
لومڑی نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا:
’’ارے میاں، تم کیا جانو اس انسان کی حرکتیں۔ یہ جانوروں اور پرندوں کو پکڑکر بڑے بڑے پنجروں میں قید کردیتا ہے۔ رنگ بہ رنگی مچھلیوں کو شیشوں کے بڑے بڑے جار میں بند کرکے خوش ہوتا ہے اور دوسروں کی آزادی چھین لیتا ہے۔ اپنی ان حرکتوں کو وہ ’’تفریح‘‘ کا نام دیتا ہے۔‘‘
دانی اُلّو نے اپنے بڑے بڑے گول دیدے گھماتے ہوئے کہا:
’’میں نے سنا ہے کہ یہ ترقی کے نام پر تباہی پھیلاتا ہے!‘‘
’’پھر تو اس سے بڑا دہشت گرد کوئی نہیں۔‘‘
’’ارے، نہیں۔۔۔ انسانوں کی دنیا میں کئی بڑے دہشت گرد ہیں۔۔۔‘‘
’’چھی چھی چھی، کتنا بُرا ہے انسان۔‘‘
سارے جانور انسان کو برا بھلا کہنے لگے تو بی لومڑی نے کہا:
’’ارے بھئی، آپ سب کو یہاں انسان کو غیبت کے لیے نہیں بلکہ اس کی شیطانی حرکتوں سے بچنے کے سلسلے میں غور کے لیے بلایا گیا ہے۔ ہم سب کو مل جل کر یہ سوچنا ہے کہ انسان کی ان خطرناک حرکتوں سے کیسے بچا جائے؟‘‘
بی لومڑی کی یہ بات سن کر سارے جانور سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ ابھی یہ سوچ بچار جاری تھی کہ شیر بادشاہ وہاں آگیا اور جانوروں سے مخاطب ہوا:
’’مجھے معلوم ہے،آپ سب کیوں فکرمند ہیں، لیکن پریشان نہ ہوں، میں نے درخت کاٹنے والے انسانوں کو جنگل سے بھگانے کی ترکیب سوچ لی ہے۔‘‘
’’وہ ترکیب کیا ہے عالی جاہ؟‘‘ سارے جانوروں نے بڑی بے صبری سے پوچھا۔
’’میں آج ہی رات کو ان کے کیمپ پر حملہ کرکے دو تین انسانوں کو مار ڈالوں گا، باقی میری دہشت سے بھاگ جائیں گے۔‘‘
’’آپ نے بالکل درست سوچا ہے عالی جاہ، آج ہی اس پر عمل کیجیے، ہماری برادری بھی اس حملے میں آپ کے ساتھ ہوگی‘‘۔ سامی چیتے نے غرّاتے ہوئے کہا۔
غصّے میں بھرے ہاتھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے! ان کے سردار سمبا نے چنگھاڑتے ہوئے کہا:
’’ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم انسان کو اپنے بھاری بھرکم پیروں سے کچل دیں گے۔‘‘
جنگلی عقاب بھی غصّے میں پھڑپھڑایا:
’’اور میں ان کی آنکھیں پھوڑ ڈالوں گا۔‘‘
بھیڑیوں نے چلاّ کر کہا:
’’ہم انسانوں کا نرخرہ کاٹ دیں گے۔‘‘
جب سارے جانور چیخنے چلاّنے لگے تو لومڑی نے شیر کے آگے ادب سے سر جھکاتے ہوئے عرض کی:
’’حضور، جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟‘‘
شیر نے اپنی ذہین مشیرِ خاص سے کہا:
’’تم جو کہنا چاہتی ہو، ضرور کہو۔ ہم تمہاری بات غور سے سنیں گے، کیوں کہ تم سب سے عقل مند ہو۔‘‘
لومڑی نے فکرمندی سے کہا:
’’عالی جاہ، انسان پر حملہ کرنا خود اپنی جان خطرے میں ڈالنا ہے، اس کے پاس ہمیں مارنے کے لیے بارود سے بھری ہوئی بندوقیں ہیں۔ اگر ہم میں سے کوئی ان کے نزدیک بھی گیا تو مارا جائے گا۔‘‘
’’ہوں، تم کہتی تو ٹھیک ہو، انسان واقعی بڑا خطرناک ہے۔‘‘
شیر کا غصّہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
’’تو اس کا مطلب ہے کہ انسان کو اس کی من مانی سے کوئی نہیں روک سکتا؟‘‘ سامی چیتے نے مایوسی کے عالم میں کہا۔
’’کیا انسان درختوں کو اسی طرح کاٹتا رہے گا، دریاؤں اور جھیلوں کے کنارے فیکٹریاں لگاتا رہے گا، فضلہ جلا کر فضا میں آلودگی پھیلاتا رہے گا اور جانوروں کو چڑیا گھروں میں قید کرکے جنگل کا حُسن برباد کرتا رہے گا۔ اس طرح تو ایک دن ساری دنیا کا حسن غارت ہوجائے گا‘‘۔ منکو ہرن کا لہجہ خوف میں ڈوبا ہوا تھا۔
شیر بادشاہ نے مایوسی کے عالم میں اپنی گردن ہلائی اور کہا:
’’افسوس، ہم کچھ نہیں کرسکتے، انسان کو کوئی نہیں سمجھا سکتا۔‘‘
لومڑی نے سب کو مایوسی سے نکالنے کے لیے کہا:
’’سارے انسان بُرے نہیں، ان کی بستی میں اچھے لوگ بھی ہیں۔‘‘
ابھی سارے جانور آپس میں یہی باتیں کررہے تھے کہ جنگل میں بہت ساری گاڑیوں کے چلنے اور پھر کچھ انسانوں کے اترنے کی آوازیں آئیں۔
شیر بادشاہ نے جلدی سے عُقاب کو معلومات کے لیے بھیجا۔ جانوروں کو کسی انسان کے تیز تیز بولنے کی آواز آرہی تھی۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ دوسرے انسانوں کو ڈانٹ رہا ہو، پھر گاڑیوں میں سامان ڈالنے اور ان کے واپس جانے کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔
کچھ ہی دیر بعد عُقاب نے آکر خوش خبری سُنائی:
’’وہ جارہے ہیں۔۔۔ سارے انسان جارہے ہیں۔‘‘
’’یہ سب کیسے ہوا؟‘‘ شیر کے لہجے میں جاننے کا تجسّس نمایاں تھا۔
عُقاب نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا:
’’انسانوں کا ایک بڑا افسر آیا تھا۔ اس نے درخت کاٹنے اور فیکٹری لگانے والوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ وہ اس جنگل کا حُسن برباد نہ کریں اور ماحول کو آلودہ نہ بنائیں۔ فوراً اپنا سامان سمیٹیں اور یہاں سے رخصت ہوجائیں۔ اس نے ڈپٹ کر کہا کہ وہ اس علاقے کا کمشنر ہے۔ یہاں جنگلی حیات رہتی ہے، جسے اپنے ماحول میں رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اب یہاں کوئی بُرے ارادے سے آیا تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
لمبو زرّافے نے اپنی لمبی گردن سے دور جاتی ہوئی گاڑیوں کو دیکھا اور پُرمسرت لہجے میں بتایا:
’’وہ سب واپس جارہے ہیں اور فیکٹری کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں بھی غائب ہوچکا ہے۔‘‘
یہ سُن کر سارے جانور خوشی سے ناچنے لگے۔ پھر ناچتے ناچتے جانوروں نے کہا ’’انسان بہت اچھا ہے۔‘‘
لومڑی نے کہا:
’’ہاں، اگر وہ کمشنر کی طرح اچھے کام کرے تو۔۔۔‘‘
nn

حصہ