بتول فاطمہ بلوچ

301

13254’مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں۔‘‘ (سورۃ النور)
اسلام واحد دین ہے جس نے عورت کو احترام و عزت کا تاج پہنایا، ورنہ اسلام سے پہلے دورِ جاہلیت میں عورت کو نحوست کی علامت سمجھا جاتا تھا اور عورتیں خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ آج بھی بہت سے غیر اسلامی ممالک میں عورت کی بے حرمتی کی جاتی ہے، عورت کو تشہیر کے لیے اخبارات، ٹی وی اور سائن بورڈز کی زینت بنادیا گیا ہے۔ جب کہ اسلام نے مرد اور عورت دونوں کے ایمان کا جز حیا کو قرار دیا ہے اور دونوں کو یہ بات بتا دی گئی ہے کہ ’’(اللہ) بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے۔‘‘ (سورہ النحل 90)
عورت کے معنی چھپی ہوئی چیز کے ہیں، لیکن آج بھی حقوقِ نسواں کی ماڈرن عَلم بردار تنظیمیں عورت کی آزادی کے نام پر بے حیائی اور جہالت کے بینر اٹھائے پھرتی ہیں۔ عورت کی آزادی کو بس گھر سے نکلنے اور آدھے لباس پہن کر اپنی نمائش کرنے تک محدود کرنے والی یہ نام نہاد تنظیمیں اصل میں عورتوں کے تقدس اور اسلام میں ان کو دیے گئے مرتبے سے غافل ہیں۔ ضرورت ہے عورت کو اس کے بلند اور اعلیٰ اخلاقی مقام سے باخبر رکھا جائے جو صرف اور صرف اسلام ہی عورت کو دے سکتا ہے۔ عورت کے بے پردہ رہنے کی بہت سی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ایمان کی کمزوری اور دلوں سے جاتا ہوا خوفِ آخرت ہے، اور مسلمان مرد خود ہی اپنی بیوی، بیٹی، بہن کے ساتھ بے پردہ گھومتے اور مخلوط مجالس میں لے جانے کو آزادی کہتے ہیں۔
اگر دورِ جہالت اور آج کے دور کا موازنہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم پھر سے اسی دور میں آگئے ہیں۔ عورتوں کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے، عصمت دری کی جارہی ہے، اور عورت خود بھی اپنے تقدس کو پامال کرنے میں برابر کی شریک ہے۔ اسے اس کے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ جہالت میں وہ تمام عوامل شامل ہیں جن کے کرنے سے عورت پر لعنت کی گئی ہے جیسے اعضا کی نمائش، بھڑکیلے، تنگ یا باریک لباس جن کے پہننے سے جسم بھی دکھائی دے اور مردانہ لباس جس سے عورت ہونے کا مقصد ہی فوت ہوجائے۔
آج کل مسلم سوسائٹی میں ایک نئی بیماری دیکھنے کو ملتی ہے کہ برقع اوڑھا جاتا ہے لیکن اتنا تنگ اور چست کہ برقع کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے، یا پھر چادر اس طرح اوڑھی جاتی ہے کہ سر ڈھانپ لیا جاتا ہے مگر جسم نمایاں ہوتا ہے۔ یہ سب ملاوٹ ہے، دھوکا ہے جو کہ حقیقت میں خود کو اور اللہ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ ہم پردہ تو کررہے ہوتے ہیں مگر ایسے پردے کی نہ کوئی شرعی حیثیت ہوتی ہے نہ معاشرتی۔
’’اے آدم کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے، اور تقویٰ کا لباس سب سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (سورۃ الاعراف)
میں اپنی تمام بہنوں سے کہنا چاہوں گی کہ پردے کو برضا و رغبت استعمال کریں، نہ کہ اپنے اوپر ایک پابندی سمجھ کر، اور ساتھ ساتھ خوشی و غمی میں کبھی بھی حیا کو پامال نہ ہونے دیں خواہ آپ کے اپنے گھر میں کوئی تقریب ہو یا خدانخواستہ غم کا کوئی موقع ہو، اور خیال رہے کہ آپ کا مقصد پُرکشش نظر آنا نہیں ہے بلکہ خود کو نامحرموں کی نظروں اور توجہ سے محفوظ رکھنا ہے۔ حیا نام ہی اس روک کا ہے جو فطرتاً ہر انسان میں برائی اور ظلم اور تہذیب سے گری ہوئی حرکت کے لیے کسی نہ کسی درجے میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اسلامی نظامِ فکر اسی لیے حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیتا ہے۔

حصہ