ڈاکٹر خالد مشتاق

252

13166ر آہٹ پہ گماں ہوتا ہے کہ وہ آئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ میاں صاحب سعودیہ واپس چلے گئے تھے اور وہیں عید منائی، پر اِس وقت تو یہ دلِ ناداں کسی اور کے انتظار میں تڑپ رہا ہے۔ یقین مانیے اتنا اچھا پیکیج دیا تھا پھر بھی عین وقت پہ دغا دے گئی۔ دل دکھ سے بھر گیا اور ذہن پہ فکر چھانے لگی کہ اب کیا اور کیسے ہوگا۔۔۔؟
دراصل یہ عیدالاضحی کے دن ہوتے ہی بے پناہ مصروفیت کے ہیں، ایسے میں اگر کام والی ماسی ساتھ چھوڑ جائے تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ اتنے ناز اٹھائے مگر نجانے کون سی بات اس کی طبع نازک پہ گراں گزری کہ وہ کچھ کہے سنے بنا چل دی۔
جاتے ہوئے آنکھ بھی ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
( شاعر سے معذرت)
والدہ محترمہ (ساس صاحبہ) کی طبیعت اچھی نہ تھی، اب کی دفعہ ہم نے عید پر اُنہیں سب سے پہلے تیار کروا کے بستر پہ بٹھا دیا کہ بس آپ فکر نہ کریں سب سنبھل جائے گا۔ سب سے پہلے زردہ بنانا تھا، ابھی نمازِ عید بھی ادا ہونا باقی تھی۔ ہم برتن ہاتھ میں لیے چاولوں کی بوری کے پاس جا پہنچے، اسے کھولا تو دل دھک سے رہ گیا، نیم کے پتّے منہ چڑا رہے تھے۔ چاول صاف کرنے والے تھے۔ اس سے پہلے تو امی نے ہمیشہ ہی ماسی سے صاف کروا کے رکھے ہوتے تھے۔ نکال کے صاف کیے جس میں خاصا وقت لگ گیا۔
بچے بڑے ہوگئے ہیں ماشاء اللہ، خود سے تیار ہوگئے۔ اب ہم باورچی خانے میں گھسے زردہ بنا رہے تھے۔ بیرونِ ملک سے آنے کے بعد مہمان والی کیفیت نہ بھی ہو تو بھی چیزوں کی درست پوزیشن کا اندازہ لگانے میں خاصی مشکل ہوتی ہے۔ زردہ کا رنگ بہت مشکل سے بالآخر مل ہی گیا۔
مرد حضرات نمازِ عید ادا کرکے واپس آچکے تھے۔ ساتھ ہی بکروں کی قربانی شروع ہوگئی۔۔۔ زردہ بنا تو سانس میں سانس آئی۔
ابھی کچن سے نکلے ہی تھے کہ بڑے بھائی صاحب کی آواز آئی ’’جلدی سے پراتیں دے دیں، گوشت اور کلیجی وغیرہ رکھنے کے لیے۔‘‘
’’پراتیں۔۔۔ کہاں مل سکتی ہیں؟‘‘ ہمیشہ امی نے نکلوا کے اور دھلوا کے سامنے ہی اسٹور میں رکھی ہوتی ہیں۔ ہم اسٹور میں گھسے، پراتیں تلاش کیں۔ امی کے جہیز کی بڑی بڑی پراتیں سنک میں ایڈجسٹ ہی نہ ہو پا رہی تھیں۔۔۔ بڑی مشکل سے دھو کے بچوں کے ہاتھ باہر بھجوائیں۔ منہ دھونے کا بھی موقع نہ ملا کہ گوشت کی آمد شروع ہوگئی۔ ماشاء اللہ تینوں بھائیوں کی قربانی۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ تین عدد بکروں کی قربانی، اِدھر ہی ہوتی ہے۔ اور کچھ گائے کے حصے بھی۔
کچھ دیر میں باجی (جیٹھانی) اور بچے آگئے۔ کچھ کام تقسیم ہوگیا۔ جھٹ پٹ ککر نکالے، گوشت اور یخنی پلاؤ بنایا۔۔۔ ککر نے بھی راستے میں ساتھ چھوڑ دیا، مگر ہم نے بھی ہمت نہ ہاری اور دو بجے کھانا میز پہ لگا ہی دیا۔
سب نے کھانا کھایا۔ لڑکوں نے ہمت کی، مغرب سے پہلے گوشت تقسیم ہوچکا تھا۔ رات تک مہمانوں کی آمدورفت رہی۔ بس کچن ہی سمٹ سکا۔
اگلی صبح امید تھی کہ اپنی والی نہ سہی، کوئی نہ کوئی ماسی تو مل ہی جائے گی۔ اسی امید پر رہے۔ سب کو ناشتا کروایا۔۔۔ دوپہر ہو گئی مگر کوئی نہ آیا۔۔۔ امی جان کہنے لگیں ’’سامنے والی باجی کلثوم سے پتا کر آؤ، تم اکیلی کیا کیا کرو گی؟‘‘ کیونکہ باجی اپنے میکہ جا چکی تھیں۔ باجی کلثوم کے پاس جاکے اپنا دکھ بیان کیا اور بتایا کہ کتنی مشکل ہے، عبداللہ کو بخار ہے، امی بھی ٹھیک نہیں، کسی کام والی کا پتا کردیں۔۔۔ چلیں صفائی ہی کرجائے۔
باجی نے وعدہ کیا کہ وہ کچھ بندوبست کرتی ہیں۔ ہم پھر امید سجائے گھر آگئے۔
کچھ دیر میں باجی کلثوم نے بیل دی۔ ہم ان کے ساتھ ایک دو ماسیوں کے آنے کی امید لگائے بیٹھے تھے، وہ اکیلی آئیں اور یہ نیوز بریک کی کہ سب کی سب سیروں پہ نکلی ہوئی ہیں یا گوشت اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔۔۔ کہہ رہی ہیں آج تو مشکل ہے۔
’’اچھا باجی آپ کا شکریہ۔۔۔ آپ نے تکلیف کی۔‘‘ انہیں رخصت کرکے پلٹے تو طائرانہ نگاہ گیراج، صحن اور برآمدے پر ڈالی۔ ابکائی سی آنے لگی۔ گوشت کی بساند اب سخت گرمی کے باعث بڑھ رہی تھی۔
اندر آئے تو لاؤنج میں چھیچھڑوں اور بچے کھچے گوشت سے لت پت پراتیں اور جگہ جگہ جما خون دیکھ کے چکر سے آگئے۔۔۔ کیا ڈرائنگ، ڈائننگ، حتیٰ کہ بیڈ روم تک میں گلاس، پلیٹیں، بچوں کے پھینکے ہوئے ریپر، چپلیں، کپڑے منہ چڑا رہے تھے، اوپر چھت پر رات کی شاندار بار بی کیو کی باقیات زلزلہ کے بعد کا منظر پیش کررہی تھیں۔ ہر چیز اپنی جگہ سے ہلی ہوئی تھی۔ ہماری ٹانگوں سے تو جیسے جان ہی نکل گئی۔۔۔ اور وہیں ڈھے سے گئے۔ میاں صاحب کا فون آیا۔ بڑی تگ و دو کے بعد بھی آواز میں تازگی نہ آسکی۔
’’کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟‘‘ انہوں نے سوال کیا۔
’’کچھ نہیں، بس صفائی کی اسٹریٹجی بنا رہی ہوں۔‘‘
’’سب بچوں کو ساتھ لگاؤ کام جلدی سمٹ جائے گا‘‘۔ اچھا مشورہ تھا۔ ہم نے سب کو لاؤنج میں جمع کیا اور محنت کی عظمت پر ایک دل سوز تقریر کی۔۔۔ اپنے ہاتھ سے کام کی فضیلت بیان کی۔ آخر میں یہ شعر پڑھا:
یہ انتظارِ سحر کہاں تک
بناؤ خود اپنے چاند سورج
فاطمہ بولی ’’مما! آخر آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’سادہ سی بات ہے کہ ماسی کا انتظار فضول ہے۔۔۔ آپ سب کپڑے بدلیں، مل کر گھر صاف کرتے ہیں‘‘۔ بچیوں نے تسلی دلائی کہ ہم کچن اور ڈائننگ ایریا سمیٹ لیتے ہیں، آپ باقی صفائی کرلیں۔
بس پھر ہم نے پائنچے چڑھائے۔۔۔ پائپ پکڑا اور سرف ڈال ڈال کے سارا گھر دھو ڈالا۔ ہاتھوں پر شاپر چڑھا کے گوشت کی باقیات کو تھیلوں میں بھرا، باہر کوڑے کی جگہ رکھوایا تاکہ گاڑی لے جائے۔ کمرے سیٹ کیے۔ بچیوں نے برتن دھو کے کچن سمیٹ دیا تو ہم نے کچن بھی دھو ڈالا۔ آخر میں بھاری بھرکم پراتوں کو اٹھاکے باہر والے کھرے میں رکھا اور پانی ڈال دیا کہ ذرا ٹھیر کے اچھی طرح دھو ڈالیں گے۔
یہ سب کرکے خاصا سکون محسوس ہوا۔ چائے کے دو کپ بنائے اور امی کے پاس جا بیٹھی۔ بہت خوش ہوئیں کہ سب کام سمٹ گئے۔ میں نے بھی سکون کا سانس لیا اور کمر ٹکا کے خبریں سننے اور چائے پینے لگی۔ یکدم امی جان کی آواز کانوں میں پڑی ’’پراتیں مانجھ لیں؟‘‘
چائے کا گھونٹ گویا حلق میں اٹک گیا۔۔۔ نظریں چرا کے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ سمیہ پاس کھڑی تھی، اسے یہی معلوم تھا کہ مما نے دھو دی ہیں، اونچی آواز میں بولی ’’جی دادو مما دھو کے آئی ہیں۔۔۔‘‘
مگر انہیں ہرگز یقین نہ آیا، کہنے لگیں ’’لاؤ دکھاؤ کیسی دھلی ہیں؟‘‘
میں نے چائے کے کپ اُٹھائے اور جلدی سے کچن میں آگئی۔ سوچا دھو ہی لوں، امی کی تسلی ہوجائے گی، آخر کو ان کے جہیز کی پراتیں ہیں۔ اپنی طرف سے خوب رگڑ کے مانجھیں، اور دھوپ میں سُکھا کے اسٹور میں رکھ دیں۔
سب کام ختم کرکے عشاء کی نماز ادا کی۔۔۔ رات ایک بجے بستر پر کمر ٹکائی تو تھکاوٹ کے احساس نے گھیر لیا، لیکن سکون کا احساس پھر بھی غالب تھا۔
ایک سبق ضرور سیکھا، آپ بھی سنیں: گھر میں بڑے بزرگ موجود ہوں تو اُن کی قدر کریں، وہ خاموشی سے اتنے کام سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں جس کا اندازہ ہمیں ہو نہیں پاتا جب تک کہ ہم اُن کے زیرِ سایہ عیدیں اور تہوار مناتے رہتے ہیں۔ اللہ سب بزرگ والدین کو اپنی رحمتوں میں رکھے، آمین۔
nn

حصہ