(پاک بھارت مزاکارات کی بحا؛ی ممکن ہے؟ (سلمان عابد

223

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے یا ختم کرنے کی جو اہم کنجی ہے وہ مذاکرات کی بحالی ہے۔ جب مذاکرات کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں تو مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت بھارت اور پاکستان مذاکرات کے راستے سے بلاوجہ دور ہوکر ایک ایسی جنگ میں کود رہے ہیں جو عملی طور پر دونوں ملکوں اور خطہ کی سیاست اور استحکام کے مفاد میں نہیں۔اس وقت بھارت اور پاکستان اسی بحرانی کیفیت سے گزر رہے ہیں جہاں مذاکرات یا تعلقات کی بحالی کا عمل خواب بن کر رہ گیا ہے۔ حالیہ پاکستان بھارت کشیدگی پر امریکہ نے بھی دونوں ملکوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکرات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں، اختلافات کا حل تشدد میں نہیں بلکہ مذاکرات میں مضمر ہے۔ جب بات مذاکرات کی بحالی کی ہوتی ہے تو اس کا ایک واضح اشارہ سفارت کاری کے محاذ پر سیاسی اور قانونی جنگ سے جڑا ہوتا ہے۔ یعنی سفارتی محاذ پر بھارت اور پاکستان کو آگے بڑھ کر مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اجتماعی مفادات کو تقویت دینی چاہیے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حالیہ تقریر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بھارت مذاکرات کے بجائے جنگی ماحول پیدا کرنے کو اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بنائے ہوئے ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم اپنی سیاسی اور سفارتی حکمت عملی سے پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیں گے۔ پاکستان کو بھارت نے دہشت گردی برآمد کرنے والا ملک قرار دیا ہے۔ جب بھارت اس پر زور دے گا کہ پاکستان بطور ریاست دہشت گردی یا دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا ہے تو پھر تعلقات کی بحالی کا عمل پیچھے رہ جائے گا۔ جو لب و لہجہ بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں اختیار کیا وہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کی پالیسی ہی پاکستان سے ٹکراؤ کی ہے۔
سیکرٹری خارجہ کی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت یا مذاکرات کا جو عمل شروع ہونا تھا وہ بھی بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث تعطل کا شکار ہے۔ کئی موقعے ایسے آئے جب مذاکرات کا عمل دوبارہ پٹری پر چڑھ سکتا تھا، لیکن بھارت کی حالیہ سخت گیر قیادت کے طرزعمل نے ان اہم مواقع سے فائدہ نہیں اٹھانے دیا۔ عمومی طور پر بھارت کی حکومت اور اس کی سخت گیر مزاج کی جماعتوں اور افراد سمیت میڈیا نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو پاکستان کی کمزوری سمجھا ہوا ہے۔ ان کے بقول پاکستان اس وقت دنیا میں تنہائی کا شکار ہے اور وہ دوستی کا ہاتھ بڑھا کر اس تنہائی کو کم کرنا چاہتا ہے۔ ان کے بقول یہ اچھا موقع ہے کہ ہمیں پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنا چاہیے۔ عالمی سیاسی تجزیہ نگار دیکھ سکتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں مذاکرات کی راہ میں پاکستان اور بھارت میں سے کون رکاوٹ ہے؟ یقیناًجواب بھارت ہی ہوگا۔ اب ایک بار پھر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہے، بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر انہوں نے دیگر ممالک کے سربراہان سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ بھی اس کانفرنس کا بائیکاٹ کریں۔ اگر دیگر ممالک بھارت کی حمایت کرکے کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو یہ سفارتی محاذ پر بھارت کی اہم کامیابی ہوگی۔ اگرچہ پاکستان نے عالمی بینک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد پر راضی کرے، لیکن مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بقول اگر بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو اسے ہم اعلانِ جنگ ہی تصور کریں گے۔ ان کے بقول اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو چین کو بھی بھارت کا پانی روکنے کا جواز مل جائے گا۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جس یکسوئی سے پاکستان مخالف مہم کی قیادت کررہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہت آگے تک جانے کا ارادہ کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں موجودہ صورت حال میں بھارت سے خبردار رہنا ہوگا۔
اگر بھارت کی یہ بات بھی مان لی جائے کہ پاکستان بھارت میں دہشت گردی کا ذمہ دار ہے تو اس کا حل بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی تلاش کیا جاسکتا ہے کہ اس میں کیا سچ، کیا جھوٹ اور کیا تعصب یا مفروضہ پر مبنی بات ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ قرار دینے اور ان کی سرپرستی کرنے کے الزامات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ان الزامات کا مقصد عالمی سطح پر اس تاثر کو گہرا کرنا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے میں تضادات کا شکار ہے، جبکہ ہم عالمی برادری میں اس تاثر کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے میں سنجیدہ کوششوں کا حصہ دار بنا ہوا ہے۔ پاکستان سمیت اگر بھارت اور خطہ کی سیاست کو دہشت گردی یا انتہا پسندی سے نکلنا ہے تو یہ کام پاکستان تنہا نہیں کرسکے گا، بلکہ اس کے لیے بھارت اور دیگر علاقائی ملکوں کو اس جنگ سے نمٹنے میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کے امکانات کو پیدا کرنا ہوگا۔ لیکن علاقائی سیاست میں استحکام پیدا کرنا اس وقت بھارت کی ترجیحات کا حصہ نہیں لگتا۔ امریکہ سمیت بڑی طاقتیں دونوں ملکوں کو سیاسی سبق تو پڑھاتی ہیں کہ وہ مذاکرات کا راستہ اختیارکریں، لیکن مسئلہ محض سبق پڑھانے کا نہیں ہے، بلکہ عملی طور پر عالمی طاقتیں سفارت کاری کے محاذ پر ثالثی کا ایسا کردار ادا کرتی ہیں کہ دونوں ملکوں کو دباؤ میں لاکر میز پر بٹھایا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ تاثر خاصا گہرا ہے کہ امریکہ سمیت عالمی برادری بھارت اور اُس کی جنگی جارحیت پر مبنی پالیسی پر وہ دباؤ نہیں ڈال رہی جو اس وقت پاکستان سمیت خطہ کی سیاست کے لیے ضروری ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سمیت کئی اہم عہدے دار تواتر کے ساتھ ایسی زبان، الفاظ عالمی فورمز اور بالخصوص بھارتی قیادت کے سامنے استعمال کررہے ہیں جو بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف جاتے ہیں۔ اس وقت جنگ کا جو ماحول بھارت نے پیدا کیا ہے، اس کے خلاف کوئی مضبوط آواز عالمی برادری نہیں اٹھا سکی۔
امریکہ تو ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان کو یہ سبق بھی دیتا ہے کہ پاکستان اس خطہ کی سیاست میں بھارت کی چودھراہٹ کو تسلیم کرلے۔ حالانکہ مسئلہ کسی کو چوھدری بنا کر پیش کرنے سے حل نہیں ہوگا۔ دو ملکوں کے درمیان تعلقات اگر برابری کی بنیاد پر نہ بھی ہوں لیکن ان میں چھوٹے اور بڑے کی تمیز رکھی جائے تو اس میں عزت و وقار کا پہلو اہم ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم اس پہلو کو فتح و شکست کے تناظر میں دیکھیں گے تو مسئلہ مزید بداعتمادی کی طرف بڑھے گا۔ بھارت کے سابق وزیر داخلہ نٹور سنگھ نے اپنی ہی حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ وہ ایک بڑا ملک ہونے کے ناتے تحمل کا مظاہرہ کرے۔ اسی طرح انہوں نے بھارتی میڈیا کو بھی کہا ہے کہ وہ جنگ کا ماحول پیدا کرنے کے بجائے خود بھی صبر سے کام لے۔ لیکن مودی حکومت جس کا ایک بڑا عنصر بھارتی میڈیا میں بھی ہے، ایک ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے کہ بھارت کے لوگوں میں یہ تاثر مضبوط ہو کہ پاکستان بھارت میں براہِ راست دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اس کی ایک وجہ کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹانا اور دوسرا داخلی سیاست میں جو مسائل بھارت کو درپیش ہیں، ان پر یہ رائے قائم کرنا کہ وجہ ان مسائل کی پاکستان ہے۔
مذاکرات کی بحالی کا عمل چار بنیادوں پر مستحکم ہوسکتا ہے:
اول: دونوں ملکوں کی قیادت میں یہ اتفاق پایا جاتا ہو کہ ہمیں ہر صورت میں تناؤ کو کم کرکے مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کرنا ہے۔
دوئم: دونوں ملکوں پر داخلی اور خارجی محاذ سے دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ کیونکہ بعض اوقات حکومتیں خواہشات سے زیادہ دباؤ کا شکار ہوکر وہ فیصلے کرتی ہیں جو مختلف طبقات کی جانب سے سامنے آتے ہیں۔ لیکن یہ عمل بغیر کسی مزاحمت کے ممکن نہیں ہوتا۔ اس دباؤ کی جھلک ہمیں دونوں ملکوں کے مختلف طبقات کی جانب سے نظر بھی آنی چاہیے۔
سوئم: مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے فریقین میں سیاسی لچک بھی ہو اور تحمل و بردباری سمیت معاملات کے حل میں وقت دیں۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فوری طور پر مسائل حل ہوں گے، تو یہ درست نہیں۔
چہارم: علاقائی اور عالمی فورمز کو خطہ کی مستحکم سیاست، تنازعات کے خاتمے اور ایک دوسرے کے قریب آنے کے عمل کو بڑھانا ہوگا اور اس میں بڑے ممالک اور فورمز کو نگرانی اور جواب دہی کے عمل کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔
ایک بات پاکستان کو بھی سمجھنی ہے کہ اگر اس نے داخلی سطح پر اپنے مسائل بھی حل نہ کیے تو اس سے بھارت کے ساتھ ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں اس تاثر کو مضبوط کرنا ہے کہ پاکستان کمزور ملک نہیں اور نہ ہی ہمارے داخلی مسائل بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ ہیں۔ اس وقت پاکستان کو تین حوالوں سے داخلی محاذ پر مسائل ہیں۔
(1) سول ملٹری تعلقات اور بھارت کے بارے میں ایک رائے کا ہونا۔
(2) داخلی سیاست میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری محاذ آرائی کی سیاست۔
(3) مضبوط سفارت کاری کے محاذ پر موجود چیلنجز۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ان چیلنجوں سے نمٹنے میں ناکام ہورہے ہیں اور خود اپنے لیے بھی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ البتہ اس وقت مذاکرات کی بحالی اور مذاکرات کے حل کی کنجی بھارت کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ایک بڑا جمہوری ملک ہے اور اس کو ایک بڑا ملک ہونے کے ناتے دوستی یا تعلقات کی بحالی کی طرف آنا ہوگا، لیکن یہ کام حالیہ جنگی جنون کی سیاست کو طاقت فراہم کرنے سے نہیں ہوگا۔ کیا بھارت اس مثبت عمل میں پہل کرے گا؟ اس پر کئی سوالیہ نشان ہیں اور ہمیں اسی کا جواب تلاش کرکے محفوظ راستہ تلاش کرنا ہے۔
nn

حصہ