(مودی کی پانی روکنے کی دھمکی (حامد ریاض ڈوگر

229

پاکستان دشمنی کے جنون میں مبتلا بھارتی حکمران خصوصاً انتہا پسند کردار کے حامل نریندر مودی آج کل پاکستان کے خلاف روزانہ ایک نئی بڑ ہانک رہے ہیں۔ پاکستان سے کھلی جنگ، پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کردینے، پاکستان کو بھارت کی طرف سے دیا گیا ایم ایف این کا درجہ واپس لینے اور پاکستانی اداکاروں کو بھارت سے نکل جانے کے الٹی میٹم کے بعد اب بھارتی انتہاپسند حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ ختم کردینے کی دھمکی دے دی ہے۔ 56 برس قبل 1960ء میں دونوں ملکوں کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج پر مکمل اختیار دیا گیا ہے، جب کہ مغربی دریا جو پاکستان کے حصے میں آئے اُن میں دریائے سندھ، جہلم اور چناب شامل ہیں۔ ان دریاؤں کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ تاہم بھارت کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ان مغربی دریاؤں سے بھی اس حد تک فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ جب تک وہ بھارت کی سرزمین پر بہہ رہے ہیں، بھارت وہاں گھریلو مقاصد، زراعت اور بجلی بنانے کے لیے ان کا پانی استعمال کرسکتا ہے۔ بھارت کے اس پانی کے استعمال کی حدود کا واضح تعین معاہدے میں کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لیے لگائے گئے پلانٹس پر پانی کو روکا نہیں جائے گا، اور اگر مجبوراً روکنا پڑے تو چند دن کے اندر اندر اسی قدر پانی دریا میں واپس ڈالا جائے گا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت جو تین مشرقی دریا بھارت کے حوالے کیے گئے اُن سے سیراب ہونے والے پاکستانی علاقوں میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے مغربی دریاؤں کے پانی کا رخ مشرقی دریاؤں کی طرف موڑنے کا انتظام کیا گیا اور اس مقصد کی خاطر پانچ بیراج بنائے گئے اور سات رابطہ نہریں بھی نکالی گئیں۔ اس کام پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کے لیے ایک خصوصی ’’انڈین بیس ڈویلپمنٹ فنڈ‘‘ قائم کیا گیا جس میں بڑی عالمی قوتوں امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، نیوزی لینڈ اور برطانیہ نے رقوم فراہم کیں۔۔۔!!!
پاکستان کے حصے میں آنے والے تین مغربی دریاؤں پر معاہدے کے وقت 6 ڈیم موجود تھے، جب کہ8 مزید ڈیم اُس وقت بھارت تعمیر کررہا تھا۔ معاہدے میں یہ بات بھی درج کردی گئی تھی کہ جو ڈیم پہلے سے موجود ہیں وہ جوں کے توں رہیں گے تاہم زیرتعمیر ڈیموں کے ڈیزائنوں میں پاکستان کی رضامندی کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ معاہدے کی رو سے بھارت کو ان دریاؤں پر اپنے علاقے میں بجلی کی پیداوار کے مزید منصوبے شروع کرنے کا حق بھی دیا گیا تھا مگر ساتھ ہی یہ پابندی بھی عائد کی گئی تھی کہ ان منصوبوں کا ڈیزائن معاہدے میں طے شدہ شرائط کے تابع ہوگا تاکہ پاکستان کی جانب پانی کے بہاؤ میں کمی نہ ہو۔ معاہدے پر عملدرآمد کے لیے ایک مستقل کمیشن بھی تشکیل دیا گیا اور فریقین میں کسی مرحلے پر پیدا ہونے والے اختلاف کو طے کرنے کا طریق کار بھی متعین کردیا گیا، اور اگر دونوں ملکوں کے واٹر کمشنر کوئی تنازع باہمی ملاقاتوں سے طے نہ کرپائیں تو معاملہ غیر جانب دار ماہرین کے سامنے پیش کیا جائے گا جن کا تقرر دونوں ممالک باہمی رضامندی سے کریں گے، اور اگر دونوں ملک متفق نہ ہوسکیں تو یہ تقرری عالمی بینک کرے گا۔ ابتدائی پچیس تیس سال تک تو معاملات بخیر و خوبی چلتے رہے اور دونوں ممالک میں کوئی بڑا تنازع سامنے نہیں آیا، مگر اس کے بعد بھارت نے معاہدے میں دی گئی آبی بجلی کے منصوبوں کی تنصیب کی اجازت سے غلط فائدہ اٹھانا شروع کردیا اور بجلی کی پیداوار کے نام پر نئے ڈیم بنانا شروع کردیئے جن کے ڈیزائن معاہدے میں طے شدہ شرائط کے مطابق نہیں تھے اور بھارت ان کے ذریعے پاکستان کا پانی روک سکتا تھا۔ چنانچہ اب تک بھارت وولر بیراج، سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم مکمل کرچکا ہے، کشن گنگا ڈیم کی تعمیر جاری ہے اور چھوٹے بڑے متعدد نئے منصوبوں کی تعمیر کا اعلان اور منصوبہ بندی بھی کرچکا ہے۔ اس پر فریقین کے مابین تنازعات بھی جنم لیتے رہے اور غیر جانب دار ماہرین سے رابطہ بھی کرنا پڑا ہے۔
بھارتی وزیراعظم کی سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ ختم کرنے کی دھمکی کے بعد پیدا شدہ صورت حال میں اگرچہ بتایا یہی گیا ہے کہ بھارت کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ عالمی بینک اس معاہدے کا ضامن ہے۔ بھارتی ماہرین کے بارے میں بھی یہی اطلاعات ہیں کہ انہوں نے اپنے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسی غلطی نہ کریں کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی جس پر عالمی رائے عامہ بھارت کے خلاف ہوجائے گی، اور ایسا کرنے کی صورت میں چین بھی دریائے براہما پترا کا پانی بند کردے گا جس سے بھارتی آبی ذرائع میں 36 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یہ دلیل بھی دی جارہی ہے کہ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران بھی بھارت اور پاکستان کے مابین سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد جاری رہا تھا اس لیے اب بھی بھارت عالمی دباؤ کے پیش نظر پاکستان کا پانی نہیں روک سکتا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے ’’خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘کے تحت پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی پر عملدرآمد ممکن نہ ہونے کے تمام دلائل اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں، مگر اس کے باوجود زمینی حقائق کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان اور اہلِ پاکستان کو اپنے ازلی دشمن کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ بھارت کو عالمی رائے عامہ کی کوئی پروا نہ پہلے کبھی رہی ہے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جانی چاہیے، جس کی دیگر بہت سی مثالوں کے ساتھ ساتھ سب سے تازہ ثبوت یہ ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بھرے اجلاس میں ڈٹ کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کا یہ ادارہ ایک سے زائد بار یہ قراردادیں منظور کرچکا ہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین متنازع خطہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔ یہ معاملہ آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر حل طلب مسئلے کے طور پر موجود ہے، مگر سشما سوراج نے اس ادارے کی جنرل اسمبلی میں نہایت ڈھٹائی اور دھڑلے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی بھی کی اور مذاق بھی اڑایا مگر عالمی رائے عامہ کا کوئی خوف بھارتی وزیر خارجہ کے نہ آڑے آیا اور نہ ہی جنرل اسمبلی میں بیٹھے ممالک میں سے کسی ایک نے بھی یہ جرأت کی کہ وہ بھارتی وزیر خارجہ کو ٹوکتا کہ وہ کس طرح اپنے وعدوں کے برعکس بات اس عالمی ادارے کے فورم پر کررہی ہیں۔۔۔ اس لیے سچ یہی ہے کہ کسی عالمی رائے عامہ کا کوئی خوف بھارت کو ہے نہ ہی ایسی کسی رائے کا کوئی اثر کسی فیصلے کو بدل سکتا ہے۔ یہ سب ڈھونگ کمزور ممالک کو مزید دبانے ہی کے لیے رچائے جاتے ہیں، ورنہ عمل کی دنیا میں آج بھی ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا اصول ہی کارگر ہے۔
جہاں تک 1965ء اور 1971ء میں پاکستان کا پانی نہ روکنے کا تعلق ہے تو سیدھی سی حقیقت یہی ہے کہ بھارت کے پاس اس کی صلاحیت نہ تب تھی نہ اب ہے کہ وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں کا سارا پانی روک سکے، البتہ وہ نہایت تیزی سے یہ صلاحیت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ضرور ہے اور اس مقصد کے تحت وہ ان دریاؤں پر نت نئے بند بنانے کے منصوبے بناتا رہتا ہے، چنانچہ ہمیں ڈرنا چاہیے اُس وقت سے جب بھارت اس قابل ہوجائے کہ وہ پاکستان کے حصے کے پانی کا رخ موڑ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہوجائے۔۔۔ پھر اُسے نہ کسی معاہدے کی پروا ہوگی، نہ کسی عالمی ادارے یا بین الاقوامی رائے عامہ کی۔۔۔ اور وہ جو چاہے گا کسی خوف کے بغیر کر گزرے گا، جس کی ایک معمولی سی جھلک اس خبر میں دیکھی جا سکتی ہے کہ بھارت نے ماضی کے کئی مواقع کی طرح ایک بار پھر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب کا پانی روک لیا ہے اور چناب میں پانی کی آمد خطرناک حد تک کم ہوکر صرف چھ ہزار کیوسک رہ گئی ہے جب کہ معاہدے کے مطابق پانی کی یہ مقدار کم از کم ساٹھ ہزار کیوسک ہونی چاہیے۔ دریائے چناب میں قادر آباد، پنجند سدھنائی اور اسلام ہیڈورکس سے پانی کا اخراج مکمل بند ہوچکا ہے، دریا اکثر مقامات پر ایک نہر کا منظر پیش کررہا ہے۔ پانی کی اس قلت کے باعث کپاس، گنے، دھان اور مکئی کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے کیونکہ لاہور، ساہیوال، ملتان، بہاولپور اور جھنگ کے علاقوں میں کسانوں کو پانی کی زبردست قلت کا سامنا ہے۔ پاکستان نے رتلے اور کشن گنگا ہائیڈرو پاور منصوبوں پر بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور دو طرفہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد یہ معاملہ بین الاقوامی فورم پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر ہوگا کیا؟ یہ کہ بھارت پاکستان کو مذاکرات میں الجھاکر ان منصوبوں کا بڑا حصہ مکمل کرچکا اور اب بین الاقوامی سطح پر کوئی فیصلہ ہوتا بھی ہے تو بھارت اس پر عملدرآمد میں لیت و لعل اور تاخیری حربوں کے ذریعے اسے ٹالتا رہے گا اور اپنے ڈیم مکمل کرکے اپنے مقاصد حاصل کرلے گا اور پاکستان حسبِ سابق شور مچاتا رہے گا جب کہ عالمی ادارے تماشا دیکھتے رہیں گے۔
جہاں تک چین کی جانب سے براہما پترا کا پانی روکنے کا تعلق ہے، ممکن ہے چین ایسی کوئی دھمکی بھارت کو دے دے، یا عملاً بھی تھوڑا بہت کوئی اقدام اُس کی جانب سے سامنے آ جائے، مگر ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ آج کی دنیا میں ہر ملک کو اپنے مفادات کسی بھی دوسرے ملک خواہ وہ کتنا بھی قریبی دوست کیوں نہ ہو، سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چین سے بے جا توقعات باندھنے کے بجائے اپنے زورِ بازو پر زندہ رہنے کا گر سیکھنا ہو گا۔۔۔ اور 1971ء کے سانحہ سقوط مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرنا ہو گا، ورنہ علامہ اقبالؒ تو ہمیں ایک صدی قبل ہی بتا گئے تھے کہ ؂
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
nn

حصہ