( اے اللہ ہمیں اپنے شکر گزار بندوں میں شامل کر(افروز عنایت

1366

العزت کی دی گئی نعمتوں میں سے سب سے بڑی انمول نعمت ’’صحت‘‘ ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘۔ چاروں طرف نظر دوڑائیں تو اس چیز کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اسی چیز کا مشاہدہ کرتے ہوئے میری نظر میری ایک پیاری بہن پر آکر ٹک جاتی ہے جس کے بھری جوانی میں دونوں گردے فیل ہوگئے۔ رب العزت کا شکر کہ بڑے بھائی نے اپنا گردہ دیا جس کی وجہ سے رب نے اسے نئی زندگی عطا کی۔ یہ تمام مراحل اس کے لیے بڑے صبر آزما تھے، لیکن آفرین ہے کہ اس کے لبوں پر ہر دم اپنے رب کا شکر الحمدللہ کا ورد رہا، بلکہ اس کا ناتا اپنے رب سے مزید مضبوط ہوگیا اور وہ اپنے رب سے جڑ گئی۔ حالانکہ آپریشن (پیوندکاری) کے بعد اسے طبی لحاظ سے بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، لیکن کبھی بھی اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، بلکہ ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتی نظر آتی ہے کہ ’’رب العزت نے مجھے نئی زندگی عطا کی ہے۔ بہت سے لوگ اس بیماری میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں ایک بھرپور زندگی گزارنے کے لائق ہوں، اللہ نے اولاد سے بھی نوازا ہے، معاشی طور پر مستحکم ہوں، شوہر ایک بہت اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، محبت کرنے والے دوست اور احباب ہیں‘‘۔ غرض کہ وہ رب العزت کی دی ہوئی دوسری نعمتوں پر ہر وقت شکر گزار نظر آتی ہے اور اس کی زندگی اسی شکر گزاری کی بدولت مطمئن ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
عاتکہ ایک پڑھی لکھی اور خوشحال فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن شادی کے بعد جب وہ سسرال پہنچی تو اسے بڑی مایوسی ہوئی۔ وہ سب کچھ اسے میسر نہ تھا جس کی وہ عادی تھی۔ اسے سسرال میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے اس دکھ کا اظہار اپنی والدہ سے بھی کیا جو خود ایک شکر گزار اور قناعت پسند خاتون ہیں، والدہ نے بیٹی کی باتیں بڑے تحمل اور سنجیدگی سے سن کر چند جملے بیٹی سے کہے کہ ’’اللہ بڑا منصف ہے، وہ اپنے بندوں سے ناانصافی نہیں کرسکتا، یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنے کسی بھی بندے کو اپنی ہر نعمت سے محروم کردے، اگر وہ چند نعمتوں کو ’’آزمائش‘‘ کے طور پر اپنے بندے سے روکتا ہے تو دوسری طرف سے اسے کچھ اپنی طاقتور نعمتوں سے ضرور نوازتا ہے، جس کی بدولت بندہ اپنے رب کی شکر گزاری پر مجبور ہوجاتا ہے، تم بھی ان نعمتوں کو تلاش کرو، تمہارا شوہر ایک خوبرو، پڑھا لکھا سنجیدہ شخص ہے، اس کی رفاقت تمہیں تحفظ اور تسکین کا احساس دلائے گی، کسی بھی شادی شدہ لڑکی کے لیے یہ نعمتِ خداوندی رب کی شکر گزاری کا باعث ہوسکتی ہے، لہٰذا خوش رہو، اپنے سے اوپر والوں کو دیکھنے سے سوائے تکلیف کے کچھ حاصل نہ ہوگا، جبکہ نیچے والوں کو دیکھو گی تو بہت سوں سے اپنے آپ کو بہتر پاؤ گی اور خدا کا شکر ادا کروگی۔‘‘ ماں کی اس بات کو عاتکہ نے ’’گرہ‘‘ میں باندھ لیا اور آج وہ بہت سے مسائل کے باوجود ایک پُرسکون اور اللہ پاک کے شکر گزار بندے جیسی زندگی گزار رہی ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
خالدہ نے زندگی کا ایک طویل عرصہ تکالیف و مصائب کا سامنا کرکے گزارا۔ اس شکر گزار بندی کی گفتگو کا ذکر یہاں ضرور کروں گی جو آج بھی ماضی کو یاد کرکے آبدیدہ ہوجاتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ’’شادی کے بعد مجھے جن مسائل سے دوچار ہونا پڑا اگر رب العزت نے مجھے بہت سی دوسری نعمتوں سے نوازا نہ ہوتا تو شاید میں ’’ٹوٹ‘‘ جاتی، انھی دوسری نعمتوں کے سائے میں مَیں نے یہ کٹھن سفر گزارا ہے، ہر قدم پر میرے رب کا ایسا مضبوط و توانا ساتھ رہا کہ آج بھی میرے آنسو بہہ نکلتے ہیں کہ یا اللہ تُو اپنے بندوں پر واقعی ستّر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اسی شکر گزاری کی بدولت رب نے میرے راستے کے تمام کانٹے صاف کردیے اور آسانیاں پیدا کرتا گیا، اور آج مجھے زندگی کی تمام آسائشیں اور نعمتیں حاصل ہیں۔ میں ہر نعمت پر شکر ادا کرتی ہوں اور آنسو بہاتی ہوں کہ رب العزت تُو مجھے کس نیکی پر اتنا نوازتا جارہا ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
درج بالا چند واقعات ایسے لوگوں کے تھے جو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے نظر آئے، لیکن اس کے برخلاف کچھ ایسے بندے بھی ہوتے ہیں جو ذرا ذرا سی تکلیف پر بلبلا اٹھتے ہیں اور دہائیاں دینے لگتے ہیں۔ رب کی اسی ناشکری کی بدولت وہ سکون سے محروم رہتے ہیں۔ ہر وقت دوسروں کو خوش دیکھ کر رنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ میرا تجزیہ ہے کہ ایسے ناشکرے بندے نہ صرف سکون سے محروم رہتے ہیں، طرح طرح کی بیماریوں اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں بلکہ رب العزت اس ناشکری اور ناقدری کی بدولت ان کو اپنی بہت سی نعمتوں سے محروم بھی کردیتا ہے۔ ایسی ہی ایک خاتون کا یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں، شاید نئی شادی شدہ بچیوں میں سے کوئی عبرت حاصل کرسکے جو ذرا ذرا سی بات پر شوہر کی ناقدری اور ناشکری کرتی ہیں۔
ثمینہ ایک اپر مڈل کلاس لڑکی تھی، اُس کا رشتہ جہاں طے ہوا وہ لوگ مڈل کلاس مگر عزت دار شریف فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ شادی سے پہلے لڑکی والوں کو لڑکے کی مالی حیثیت اور حالات گوش گزار کردیے گئے تاکہ بعد میں کوئی شکایت نہ ہو۔ لڑکا خوش شکل اور لڑکی کا ہم عمر تھا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ظاہری شکل صورت اور شخصیت کے لحاظ سے لڑکا لڑکی سے بہتر تھا، لیکن شادی کے بعد لڑکی کو لڑکے کے مالی حالات کا بڑا قلق تھا جس کا اظہار وہ اکثر سسرالی رشتہ داروں سے بھی کرتی رہتی، جس پر سب اسے یہی تلقین کرتے کہ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا، لڑکے کی نئی نئی ملازمت ہے آگے چل کر ترقی کرے گا۔ اگرچہ اس کی تمام جائز ضرورتیں پوری کی جارہی تھیں لیکن وہ ناشکری عورت ناخوش اور اکثر اپنے شوہر سے نالاں رہتی، خصوصاً اپنی بڑی نند (جو ایک صاحبِ حیثیت خوشحال گھرانے کی بہو تھی) کو دیکھ کر اس کا پارہ چڑھ جاتا۔ شوہر اور ساس نے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آخر دو مہینے کی بچی کا بھی اس نے لحاظ نہ رکھا اور شوہر سے خلع لے کر بچی کو لے کر اپنے راستے جدا کرلیے۔ آج اس کی طلاق کو 12/10 سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ وہ ماں اور بھائی بھابھیوں کے در پر زندگی گزار رہی ہے، اور بچی باپ کے ہوتے ہوئے یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جبکہ لڑکا اپنی دوسری بیوی اور بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی ایک پُرسکون زندگی گزار رہا ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
ساجدہ ایک لوئر مڈل کلاس لڑکی، جسے شادی سے پہلے زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہ تھیں، اس کے نصیب جاگ اٹھے اور ایک انتہائی خوشحال گھرانے کے تعلیم یافتہ، ہم عمر اور خوش شکل اسمارٹ اور شریف لڑکے سے شادی ہوگئی۔ تمام سہیلیاں اور کزن اس پر رشک کررہی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتی اور شوہر اور سسرال والوں کی قدر کرتی کہ رب نے اس کے بھاگ کھولے اور سسرالیوں نے اسے مقام دیا۔ لیکن یہ عورت ہر وقت شوہر سے نالاں کہ مجھے پورا وقت نہیں دیتے، میری خواہشیں پوری نہیں کررہے۔ جبکہ شوہر بے چارہ بیوی کو خوش کرنے کے لیے اُس کی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ شوہر کو اُس وقت بڑا افسوس اور رنج ہوتا ہے جب وہ ناشکری عورت سب کے سامنے یہ دکھڑا بیان کرتی ہے کہ یہ کپڑے لتے تو میرے بھائی دیتے ہیں، میں تو اچھا پہننے اور اوڑھنے کو ترستی ہوں، میں نہ کھا کر بھی شکایت نہیں کرتی۔ جب لوگ اس سے یہ کہتے ہیں کہ وہ رب کا شکر ادا کرے اور شوہر اور ساس سسر کی بھی قدر کرے جنہوں نے تمہارا انتخاب کیا، تو بڑی نخوت سے کہتی ہے کہ اس میں ان لوگوں کا کیا احسان! یہ تو میرا نصیب تھا جو مجھے مل گیا ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
اصغر اپنے بہنوئی کے کارخانے میں ملازم تھا، لیکن بہنوئی نے کبھی اسے ملازم کی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ اس سے نہ صرف عزت سے پیش آتے بلکہ گاہے بہ گاہے مالی مدد بھی فراہم کرتے رہتے، لیکن اصغر نے اپنے بہنوئی کے اس احسان کو تو نہ مانا بلکہ اکثر لوگوں سے بہنوئی کی برائی ہی کرتا نظر آیا۔ اس کی بیوی بھی اکثر اسے اس بات پر ٹوکتی رہتی کہ بھائی جان کے ہم پر بہت احسان ہیں، وہ تمہاری محنت سے زیادہ تمہیں نوازتے رہتے ہیں اور اکثر ہماری مالی مدد بھی کرتے رہتے ہیں، تم خدا کا شکر ادا کرو۔ لیکن اصغر ایک احسان فراموش اور ناشکرا شخص تھا، اس نے سوچا کہ میں دوسری جگہ ملازمت کرلوں گا تو بہنوئی کو کاروبار میں خسارہ ہوگا کیونکہ اس کے کاروبار میں مَیں اس کا بڑا مددگار ہوں۔ بیٹوں نے بھی باپ کے اس فیصلے کو سراہا، اس طرح اصغر بہنوئی سے الگ ہوگیا۔ لیکن اسے پچھتاوے اور افسوس کے سوا کچھ حاصل نہ ہوسکا، کیونکہ نہ تو اس کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور نہ ہی اسے آرام کے لیے وقت ملتا، بلکہ اس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔
۔۔۔*۔۔۔
اوپر بیان کیے گئے واقعات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ شکر گزاری رب العزت کو پسند ہے اور ناشکری ناپسند ہے۔ اسی لیے اللہ کریم شکر گزار بندوں پر خاص کرم کرتا ہے۔ ایک خاص بات جو میں نے نوٹ کی ہے اور آپ سب بھی تائید کریں گے کہ عورتیں ناشکری کے اس مرض میں زیادہ مبتلا ہیں۔ خدا کی ناشکری، شوہر کی ناشکری جس کا وہ رونا بھی روتی رہتی ہیں اور دوسروں کو خوش دیکھ کر جلتی بھنتی بھی رہتی ہیں۔
بخاری، مسلم کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے (دوزخ میں) دیکھا کہ زیادہ تر عورتیں ہیں‘‘، لوگوں نے پوچھا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کیا سبب ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’ان کی ناشکری‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’کیا خدا کی ناشکری؟‘‘ فرمایا: ’’خاوند کی ناشکری اور بے قدری۔ ان کی ناشکری اتنی زیادہ ہے کہ اگر تم عمر بھر بھی ان کے ساتھ احسان کرتے رہو اور پھر ایک بار بھی ذرا سی کمی ہوجائے تو جھٹ کہہ دیتی ہیں میں نے کبھی تیری طرف سے بھلائی نہیں دیکھی‘‘۔
اللہ کی شکر گزاری کے ساتھ ہمیں بندوں کے احسان کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے چاہے وہ چھوٹا سا ہی احسان کیوں نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’جو شخص انسانوں کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر نہیں کرتا‘‘ (ابو داؤد)۔ رب کریم نے اپنے بندوں کو بہت سی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا ہے، اس کا اقرار کرنا اور اپنے رب کی تعریف کرنا، ان نعمتوں کی قدر کرنا، اس کو اپنی حیثیت سے زیادہ سمجھنا اور ان نعمتوں کو کسی گناہ میں استعمال نہ کرنا، یہی رب کی ’’شکر گزاری‘‘ ہے۔ اور کسی نعمت کی محرومی پر یا چھن جانے پر رب کی مصلحت جاننا اور آزمائش سمجھ کر اسے برداشت کرنا ’’صبر‘‘ ہے۔ ایک شکر گزار بندہ جب اللہ کی ہر نعمت پر اس کی شکر گزاری کرتا رہے گا تو اس کے دل میں اللہ کی محبت ’’گھر‘‘ کر لے گی اور یہ محبت اور شکر گزاری کی عادت ایسی پختہ ہوجائے گی کہ وہ رب کی کسی بھی نعمت کی محرومی پر چلاّئے گا نہیں بلکہ ’’صبر‘‘ کرے گا کہ وہ مجھے بار بار نوازتا بھی تو ہے۔ اور بندے کا یہ احساس بھی پختہ ہوتا ہے کہ شکر اور صبر پر اللہ نہ صرف اس دنیا میں انعام و اکرامات کی بارش کرتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کا ’’انعام خصوصی‘‘ ہوگا۔ سورۃ البقرہ میں رب العزت کا فرمان ہے:
’’مجھ کو یاد کرو اور ناشکری نہ کرو‘‘۔ اسی طرح سورۃ آل عمران میں ارشاد ربانی ہے ’’اور ہم بہت جلد جزا دیں گے شکر کرنے والوں کو‘‘۔ شکر ادا کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں اجر دینے کے بارے میں سورۃ ابراہیم میں اس طرح رب نے ارشاد فرمایا ہے:
’’۔۔۔اگر تم (میری نعمتوں کا) شکر کرو گے میں تم کو زیادہ نعمت دوں گا خواہ دنیا میں بھی، یا آخرت میں تو ضرور، اور اگر ناشکری کرو گے تو (یہ سمجھ رکھو کہ) میرا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیت میں ناشکری کرنے والوں کے لیے تنبیہ بھی ہے، کہ ناشکری رب کی ناراضی کا موجب بنے گی، اور آخرت میں اس کا عذاب ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے روز کے معمولات میں ہر وقت اللہ کی تسبیح و حمد و ثنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن کی بدولت ہماری زندگی آرام دہ و سہولتوں سے بھرپور ہے۔ ساتھ میں اپنے اُن دوستوں، ساتھیوں، عزیز و اقارب کا بھی مشکور رہنا چاہیے جنہوں نے ہم پر چاہے ایک چھوٹا سا ہی سہی، احسان کیوں ناں کیا ہو۔ کیونکہ بندوں کا شکر گزار انسان اپنے رب کا بھی شکر گزار رہتا ہے۔ درس و تدریس کے 20 سالہ دور میں مجھے بہت سے ایسے ساتھیوں سے واسطہ پڑا جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور جن کے رویوں سے میری حوصلہ افزائی ہوئی۔ میں برملا اس کا اظہار کرتی رہتی ہوں اور ان کی احسان مند ہوں، کیونکہ اگر آپ کسی کے احسان مند ہوں کیونکہ اگر آپ کسی کے احسان کا بدلہ نہ بھی اتار پا رہے ہیں تو کم از کم اس احسان کو ماننا اور اس کا شکریہ ادا کرنا ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ یہ عادت آپ میں انکسار و عاجزی پیدا کرتی ہے۔ کسی کے احسان کو نہ ماننا، اس کا شکریہ ادا نہ کرنا تکبر اور غرور کی علامت ہے۔ اپنے آپ کو پُرسکون رکھنے اور ایک مطمئن و آسودہ زندگی گزارنے کے لیے ’’شکر‘‘ کی عادت اپنائیں۔
میں اپنے مضمون کا اختتام مشکوٰۃ کی اس حدیثِ مبارکہ سے کروں گی۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ارشادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’چار چیزیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص کو مل گئیں اس کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں مل گئیں:
شکر کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان، اور بدن جو ملا اس پر صابر ہو اور بیوی جو اپنی جان اور شوہر کے مال میں اس سے خیانت نہیں کرنا چاہتی۔‘‘
دعا ہے کہ رب العزت ہم سب کو اپنے شکرگزار بندوں میں شامل کرے (آمین)
nn

حصہ