30(ستمبر رائے مارچ انتشار نہیں اتحاد ضروری (حامد ریاض ڈوگر

258

حامد ریاض ڈوگر
صحافت میں قدم رکھے ابھی چند برس گزرے تھے اور ان دنوں دیگر شعبوں کی طرح صحافت کے شعبہ میں بھی دائیں اور بائیں کی تقسیم بہت نمایاں تھی، دائیں بازو سے مراد اسلام پسند جب کہ بائیں سے مراد سوشلزم اور کمیونزم کے علمبردار ہوا کرتی تھی۔۔۔ مرحوم ضیاء الاسلام انصاری دائیں بازو کے صحافیوں کے سرخیل ہوا کرتے تھے یہ 1983-84ء کی بات ہے کہ وہ نیشنل پریس ٹرسٹ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے اس وقت کے ممتاز اور کثیر الاشاعت روزنامہ ’’مشرق‘‘ کے پہلے مدیر اعلیٰ اور پھر اس کے ساتھ ساتھ منتظم اعلیٰ بھی مقرر کر دیئے گئے ۔۔۔ اس موقع پر لاہور کے آواری ہوٹل میں ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔۔۔ جماعت اسلامی پاکستان کے اس وقت کے درویش صفت امیر میاں طفیل محمد تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔۔۔ ان کی تقریر کے بعد سوال و جواب کی نشست جاری تھی، ایک صحافی نے پوچھا کہ پیپلز پارٹی کے نوجوان آج کل بہت جارحانہ طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں کیا آپ جمعیت کے نوجوانوں کو ان کا جواب دینے کی ہدایت کریں گے؟ ٹھنڈے اور سادہ مزاج میاں طفیل اپنی عادت اور طبیعت کے برعکس یکدم غصے سے لال پیلا ہو گئے اور صحافی کو تقریباً ڈانٹتے ہوئے انہوں نے ایک جملے میں جواب دیا ’’کیا تم چاہتے ہو ملک میں خانہ جنگی کرا دوں؟‘‘۔۔۔ !!!
تیس بتیس برس پرانا واقعہ راقم الحروف کو ملک میں جاری سیاسی ماحول دیکھ کر شدت سے یاد آیا جب کہ ایک جانب بالکل فلمی انداز میں ٹوکے، کلہاڑیاں، گنڈاسے اور ڈنڈے لہرائے جا رہے ہیں، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار لوگوں نے راتوں رات ’’جانثارانِ نواز شریف‘‘ قسم کے مسلح دستے منظم کر لیے ہیں اور رائے ونڈ کی جانب قدم بڑھانے والوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے، ٹانگیں توڑنے، ٹانگوں پر آنے اور کندھوں پر جانے کی کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ساتھ ہی ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے ڈنڈ۔۔۔ بیٹھکیں نکالنے، مقابلے کی تیاریوں اور فلمی مکالموں کی ادائیگی کا مقابلہ بھی جاری ہے۔۔۔ اس سارے عمل میں سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ تمام حرکتیں گلی محلے کے نوجونوں اور غیر ذمے دار سیاسی کارکنوں کی جانب سے نہیں کی جا رہیں بلکہ اس کا سب سے پہلا اظہار خود حکومت کی طرف سے اور اس کی وفاقی کابینہ کے رکن عابد شیر علی کی طرف سے سامنے آیا جنہوں نے رائے ونڈ جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دی اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔۔۔ عابد شیر علی کے شدید سیاسی مخالف رانا ثناء اللہ جن پر ماڈل ٹاؤن لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے چودہ کارکنوں کو پولیس کی سیدھی گولیوں کے ذریعے قتل کروانے کا الزام ہے اور اس الزام ہیں وہ ایک عرصہ تک پنجاب کابینہ سے الگ بھی رکھے بھی رکھے گئے اور خود ان کی اپنی مسلم لیگ نواز کے رہنما اور وفاقی کابینہ کے رکن عابد شیر علی کے والد چودھری شیر علی بھی بھرے جلسہ عام میں رانا ثناء اللہ کوقاتل قرار دے چکے ہیں، یہ رانا صاحب بھلا شریف برادران سے وفاداری اور جانثاری کا اظہار کرنے میں کیسے پیچھے رہ سکتے تھے انہوں نے بھی تحریک انصاف کو رائے ونڈ کی جانب رخ کرنے پر عبرتناک سبق سکھانے کی دھمکی لگا دی۔۔۔ پھر پنجاب حکومت کے ترجمان رکن صوبائی اسمبلی زعیم قادری بھی میدان میں کودے اور ’’جانثاران نواز شریف‘‘ کے جتھے کے ہمراہ لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے جا پہنچے۔ اور تحریک انصاف کو الٹی میٹم دے دیا کہ وہ 25 ستمبر تک اپنے جلسے کے لیے رائے ونڈ کی بجائے کسی اور جگہ کا انتخاب کر لے ورنہ نواز شریف کے جاں نثار رائے ونڈ کا رخ کرنے والوں کو سبق سکھا دیں گے۔ یہ فیصلہ ہونے میں تو ابھی وقت ہے کہ تحریک انصاف جلسہ کے لیے رائے ونڈ کی جگہ بدلتی ہے یا نہیں اور نہ بدلنے کی صورت میں زعیم قادری اور ساتھ انہیں کیا اور کس طرح سبق سکھاتے ہیں مگر زعیم کے ہمراہ آنے والے جاں نثاران نواز شریف نے موقع پر ہی زعیم قادری کو سبق ضرور سکھادیا کہ ایسے مشتعل اور عمران خاں کے بقول رنگ باز کارکنان جب ایک بار قابو سے باہر ہو جائیں تو انہیں قابو کرنا آسان نہیں ہوتا چنانچہ زعیم کے ساتھ پریس کلب آنے والے یہ جانثار خصوصاً ان میں شامل سانحہ ماڈل ٹاؤن میں عالمگیر شہرت حاصل کرنے والے ’’گلو بٹ‘‘ کا بھائی ’’غنی بٹ‘‘ صحافیوں اور پریس کلب کے عملہ سے الجھ پڑا اور اپنے ساتھیوں سے خوب مار بھی کھائی اور اپنے بھائی کی طرح خوب شہرت بھی کمائی ۔۔۔!!!
لاہور کے علاوہ گوجرانوالہ، فیصل آباد اور راولپنڈی سمیت کئی دیگر شہروں میں بھی حکمران خاندان کے جانثاران مسلح جتھوں نے اپنی نمائش چند دنوں میں کرا دی ہے اور تیس ستمبر میں تو ابھی کئی روز باقی ہیں دیکھئے اس بحر کی تہہ سے مزید کیا کیا کچھ ابھرتا ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے نوجوانوں نے بھی ظاہر کے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں کہ ان کے قائد عمران خاں نے خود یہ اعلان کیا ہے کہ جو ان کے جلوس کی راہ میں آئے گا بہت مار کھائے گا چنانچہ ان کے جنونی نوجوانوں نے بھی ’’بلا فورس‘‘ تشکیل دے دی ہے جب کہ خواتین بھی شہر شہر میں ’’کفن پوش جتھے‘‘ تیار کر رہی ہیں۔ تاہم ان سارے اشتعال انگیز اور مار دھاڑ سے برسرمیدان جاری ان مقابلوں کے ساتھ ساتھ فریقین نے عدالتی برسر میدان جاری ان مقابلوں جاری ان مقابلوں کے ساتھ ساتھ فریقین نے عدالتی اور قانونی جنگ بھی شروع کر دی ہے چنانچہ حکمران مسلم لیگ کی طرف سے مسلح دستوں کی نمائش اور دھمکیوں کے ساتھ عدالت عالیہ لاہور میں بھی درخواست دائر کی گئی ہے کہ تحریک انصاف کو رائے ونڈ کی جانب مارچ سے رکھا جائے۔ چیف جسٹس سے اس درخواست کی سماعت کے لیے فل بینچ تشکیل دے دیا ہے جو آئندہ ہفتے اس درخواست کی باقاعدہ سماعت کرے گا۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے حکمران لیگ کی ’’ڈنڈا فورس‘‘ کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کر لیا ہے اور تحریک کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل فرخ نے الیکشن کمیشن کے نام ایک مراسلہ میں مطالبہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما عابد شیر علی اور زعیم حسین قادری وزیر اعظم کی ہدایت تحریک انصاف کے خلاف ’’ڈنڈا فورس‘‘ منظم کر رہے ہیں اور تحریک انصاف کے خلاف استعمال پھیلانے میں معروف ہیں، اس صورتحال کا الیکشن کمیشن نوٹس لے اور اس سلسلے میں ضروری کارروائی عمل میں لائی جائے۔۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ ضلعی و صوبائی انتظامیہ اور پولیس کے ’’ٹک ٹک دیدم۔۔۔ دم نہ کشیدم‘‘ کے رویہ کے بعد اب عدالت عالیہ اور الیکشن کمیشن بھی بروقت کوئی ٹھوس اقدام کرتے ہیں یا یہ بھی وقت گزاری کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔۔۔!!!
ماضی میں بھی اور موجودہ صورتحال میں بھی ایک بات بہت نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ حکمران لیگ ایسے مواقع پر کمال مہارت سے پروپیگنڈہ تکنیک کا استعمال کرتی ہے اور ماضی میں اگر انتہائی دھاندلی کے خلاف احتجاج کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی تحریک کا رنگ دیا گیا تو پانامہ لیکس اور حکمرانوں کی بدعنوانیوں کے خلاف حزب اختلاف خصوصاً عمران خاں کی موجودہ تحریک کو پروپیگنڈے کے تمام ہتھکنڈوں کو استعمال میں لاتے ہوئے ایک جانب اگر حکمران خاندان کے گھر پر حملہ ، یلغار، گھیراؤ اور چادر و چار دیواری کی پامالی کا رنگ نہایت کامیابی سے دیا گیا تو دوسری جانب اس احتجاج کو ترقی و خوشحالی کا دشمن قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا جا رہا ہے۔۔۔ پہلے پروپیگنڈا میں تو حکمران اس حد تک کامیاب ہوئے کہ بے چارے عمران خاں کو تقریباً تنہا کر دیا اور شیخ رشید کے علاوہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں حتیٰ کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور خود عمران خاں بار بار یہ وضاحت کرنے پر مجبور ہوئے کہ وہ جاتی عمرہ کے محلات تک مارچ نہیں کریں گے بلکہ ان سے کئی میل دور محض ایک بڑا جلسہ عام کر کے واپس آ جائیں گے اب ان وضاحتوں کے بعد انہوں نے دوبارہ ذاتی طور پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور توقع ہے کہ ان رابطوں کا ثبت رد عمل سامنے کرئے گا اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں ’’رائے ونڈ مارچ‘‘ میں اگر بھر پور شرکت نہیں کم از کم قائدین کی سطح پر علامتی شرکت پر آمادگی کا اظہار ضرور کر دیں گی۔۔۔!!!
درپیش صورت حال کا ایک نہایت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی ایک بار پھر پاکستان کے خلاف جارحانہ طرز عمل کا مظاہرہ کر رہا ہے اور حملے تک کی دھمکیوں سے گریز نہیں کیا جا رہا ان حالات میں قومی اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنے کی شدید ضرورت ہے اس لیے اگر عمران خاں ملک کی سرحدی اور دفاعی صورت حال کو جواز بنا کر اپنا ’’رائے ونڈ مارچ‘‘ملتوی یا منسوخ کرنے کا اعلان کر دیں تو انہیں کسی قسم کی سبکی کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا اس اقدام کو حب الوطنی کا اظہار قرار دیا جائے گا اور اس طرح اچھی خاصی نیک نامی ان کے حصے میں آئے گی اسی طرح اگر عمران خاں اس مارچ کو انا کا مسئلہ بنا کر ہر صورت تیس ستمبر کو رائے ونڈ جانے پر بضد ہوں تو حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ہر قسم کی اشتعمال انگیزی سے سختی سے روک دیں اور عمران کے احتجاج کو خوش اسلوبی سے مکمل ہونے کا موقع دے کر قومی یکجہتی کو فروغ دیں اور پوری قوم کو اس کے اصل دشمن بھارت کے مقابلہ کے لیے متحد کرنے پر تمام توجہ مرکوز کر دیں۔۔۔!!!
nn

حصہ