بھارتی میڈیا کا جنگی جنون

273

’’نہ جانے کس وقت میرا اللہ سے ربط قائم ہوا اور میں نے اسلام کو جاننے کی جدوجہد مزید تیز کردی۔ میں نے نہ کبھی مسلمان ہونے کا سوچا تھا اور نہ ہی کبھی اسلامی کتب کا مطالعہ کیا تھا، بس میں کچھ عرصے سے مسلمانوں اور ان کی معاشرت سے وابستہ تھی، اپنی صحافیانہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے پیش نظر فلسطین جانا ہوا انتخابات کی کوریج کے لیے، ائیرپورٹ پر اسرائیلی حکام نے میرا سوٹ کیس اپنے قبضے میں لے لیا، حتیٰ کہ میرا کوٹ بھی۔ میں شدید سردی میں فلسطین کے علاقے ویسٹ بنک (مغربی کنارے) میں داخل ہوئی۔ برطانوی اخبار دی میل کے لیے 2005ء کے صدارتی انتخابات کی کوریج کرنا تھی، ایسی حالت میں مجھے رام اللہ کے علاقے میں ایک بوڑھی خاتون ملی، وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کے اندر لے آئی اور الماری سے ایک کوٹ اور حجاب نکال کر دیا اور میرے سر پر بوسہ دے کر مجھے رخصت کردیا۔ نہ وہ مجھے جانتی تھی اور نہ ہی میری زبان، مگر اس کا یہ حُسنِ سلوک میرے اسلام کی جانب متوجہ ہونے کا پہلا موقع ثابت ہوا، اور فلسطینی خواتین اسلام سے میری انسیت کا سبب بنیں۔ سر سے پاؤں تک برقعے میں ڈھکی مسلم عورت، جو خوبصورتی دنیا کے نامحرموں سے چھپاکر رکھتی، جبکہ مغربی دنیا میں جو عورت اپنی جتنی نمائش کرتی ہے اتنے ہی معاشرتی فوائد سمیٹ سکتی ہے۔ اور جب میں 2007ء میں لبنان گئی تو وہاں کچھ دن یونیورسٹی کی طالبات کے ساتھ گزارے، جو سب باحجاب تھیں، سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخن تک مکمل پردے میں۔ وہ سب انتہائی خوبصورت تھیں اور ساتھ ساتھ خودمختار اور صاف گو بھی۔ بہادر اور نڈر لڑکیاں مجھے ویسی بالکل بھی نہ لگیں جیسا تصور مغربی اخبارات ایک مسلم عورت کا پیش کرتے ہیں۔ جب میرا اس مسلم معاشرے میں میل جول بڑھا تو اسلام سے واقفیت بھی بڑھتی گئی۔ قرآن سے آگاہی بھی حاصل کرنی شروع کی، اور پھر مسلم امہ کی محبت اور خلوص مجھے اتنا ملا کہ سمیٹنا مشکل ہوگیا، اور ایک دن میں بھی دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئی، اور پھر میں نے لباس بھی ایک مسلم عورت والا منتخب کیا۔ میرے خیال میں جب ایک عورت حجاب کرتی ہے تو اُسے بالوں کی آرائش کے لیے زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا۔ جب میں نے حجاب کرنا شروع کیا اُس وقت سردی کا موسم تھا، مجھے زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔ ہاں مگر گرمیوں میں حجاب کرنا واقعی ہمت کا کام ہے اور میں برقعے کو ایک موزوں لباس سمجھتی ہوں۔ جب میں نے حجاب کرنا شروع کیا تھا اس دوران مجھے اپنے پیشے کے حوالے سے بھی تشویش لاحق ہوئی تھی کہ حجاب پہن کر کیا میں اپنی موجودہ پوزیشن برقرار رکھ پاؤں گی! لیکن پھر میں نے سوچا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اسلام کے کچھ اصول تو اپنا لوں اور کچھ کو چھوڑ دوں! لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسلام کو اپنے اندر پورا کا پورا سمو لینے کی کوشش کروں گی۔‘‘
یہ آپ بیتی اور قبولِ اسلام کی سرگزشت سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلےئر کی بیگم کی بہن یعنی سالی لورین بوتھ کی ایک بے باکانہ زندگی سے ایک باحجابانہ زندگی کی طرف سفر کی ہے جو برطانوی صحافی ہیں۔ اس سے پہلے برطانوی صحافی ایوان ریڈلی بھی اسلام قبول کرکے مغربی دنیا میں اسلام کی سفیر بن چکی ہیں۔ ایوان ریڈلی نے مغرب میں اسلام اور حجاب کے متعلق پیدا کیے گئے غلط اور منفی پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا۔
برطانوی صحافی ایوان ریڈلی ستمبر 2000ء میں افغانستان میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہوئیں، اس کوشش کے دوران اُس وقت کی طالبان حکومت نے انہیں قید کرلیا، مگر اس قید کے دوران طالبان کے حُسنِ سلوک اور ان کی شرافت نے ایوان ریڈلی کے وہ خیالات تبدیل کردیے جو اسلام مخالف قوتوں نے پھیلائے تھے۔ اکتوبر میں رہائی کے بعد برطانوی صحافی ایوان ریڈلی نے دنیا کو بتایا کہ میں نے اپنی گزشتہ ساری زندگی میں خود کو لندن میں اتنا محفوظ محسوس نہیں کیا جتنا طالبان کی قید کے دوران محسوس کیا۔ وہ طالبان، جن کو دنیا وحشی درندے ظاہر کرتی تھی اُنھوں نے قید کے دوران مجھے بہت عزت و احترام دیا۔ ایوان ریڈلی اپنی کتاب ”In The Hand of The Taliban” میں لکھتی ہیں کہ وہ نیلی آنکھوں والے مجھے اپنی بہن کہہ کر مخاطب کرتے، اور میری جانب آنکھ اُٹھاکر دیکھتے بھی نہ تھے۔ ایوان ریڈلی نے واپس برطانیہ پہنچ کر سب سے پہلے قرآن کا مطالعہ شروع کیا جس کے بعد وہ بالآخر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئیں اور باحجاب زندگی گزارنے لگیں۔ برطانوی صحافی ایوان ریڈلی نے کہا کہ اسلام وہ نہیں جو ٹونی بلےئر یا مغربی میڈیا بتا رہا ہے، بلکہ اسلام وہ ہے جو قرآن میں لکھا ہے۔آزاد خیال یا عرفِ عام میں خود کو لبرل کہنے والے افراد عموماً کنزرویٹ افراد کو تنگ نظر گردانتے ہیں، مگر درحقیقت یہی آزاد خیال سب سے زیادہ تنگ نظر ہوتے ہیں۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق فرانس کے دارالحکومت پیرس کے مضافات میں ایک ریسٹورنٹ کے مالک نے دو مسلمان خواتین کو کھانا دینے سے انکار کردیا۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد فرانسیسی عوام نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے مظاہروں کی کال دی جس کے بعد ریسٹورنٹ کے مالک نے اپنے رویّے پر معافی مانگ لی۔ اس ویڈیو میں ریسٹورنٹ کا مالک دو باحجاب خواتین کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ ’’دہشت گرد مسلمان ہیں اور سارے مسلمان دہشت گرد ہیں‘‘۔ چھ سال قبل خود کو آزاد خیال کہنے والے مغربی ممالک نے حجاب و نقاب اور برقعے پر پابندی لگائی اور اب برقعے کے بعد برقینی بھی ان کو قابل قبول نہیں ہورہی۔
پاکستان کے معروف انگریزی اخبار ٹریبیون نے 18اگست کو Tanuj Garg کا تجزیہ Only bikinis, no burqinis شائع کیا جس میں لکھا تھا کہ ذرا تصور کیجیے کہ آپ بھاری رقم خرچ کرکے (فرنچ ریویرا) جیسے پُرتعیش مقام پر چھٹیاں منانے جائیں مگر وہاں کا خوبصورت ساحل ایرانی سمندری کنارے جیسا منظر پیش کررہا ہو! فرانس کو اپنی سرزمین پر مغربی اقدار رائج کرنے کا حق ہے۔ ہر ملک کے اپنے اصول و قوانین ہوتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں بہت سے ساحلوں اور ہوٹلوں کے سوئمنگ پولز میں بکنی پہن کر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی لبرل عورت مشرق وسطیٰ میں خود کو ڈھانپ کر رکھتی ہے اور مقامی اقدار کا احترام کرتی ہے تو فرانس آنے والوں کو بھی اس کی اقدار کا احترام کرنا چاہیے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو وہاں مت جائیں جہاں آپ کے احساسات مجروح ہوتے ہوں۔ گزشتہ دنوں فرانسیسی شہر کینز میں تیراکی کے مکمل اسلامی لباس برقینی پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور شہر کے مےئر کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد اچھی رسوم و روایات اور سیکولرازم کا احترام ہے، برقینی اسلامی شدت پسندی کی علامت ہے، چونکہ فرانس دہشت گردی کے حملوں کی زد میں ہے اس لیے ساحل پر برقینی پہننے سے امن و امان کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس پابندی کے جواز میں جو وجوہات بتائی گئیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ پورے کپڑے پہن کر پانی میں جانا حفظانِ صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ جبکہ غوطہ خوروں کا لباس بھی برقینی جیسا ہی ہوتا ہے۔ فرانس کے وزیراعظم مینوئل والس نے برقینی کو عورتوں کی غلامی کی علامت قرار دیا۔نسل پرستی کے خلاف اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس پابندی کو تشویش ناک قرار دیا اور کہا کہ برقینی پر پابندی دراصل مسلمانوں کو زِچ کرنے کے لیے اُٹھایا گیا سیاسی اقدام ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس لیگ کے دائر کیے گئے مقدمے کے فیصلے میں فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت نے مسلمان خواتین کے لیے تیار کیے گئے تیراکی کے لباس برقینی پر عائد سرکاری پابندی کو بنیادی آزادی کی سنگین اور کھلم کھلا غیر قانونی خلاف ورزی قرار دیا۔ حالیہ دنوں میں میڈیا پر نیس کے ساحلی علاقے میں برقینی میں لپٹی خاتون سے پولیس زبردستی برقینی اتروا رہی تھی۔ برقینی پر عائد اس پابندی کے دوران دو شہروں میں 30 خواتین پر جرمانے عائد کیے گئے جن میں سے 24 خواتین کا تعلق نیس اور 6 کا کانے سے تھا۔ ان خواتین کو 38 یورو فی کس جرمانہ کیا گیا۔
یاد رہے فرانس ہی وہ ملک ہے جس نے 2010ء میں چہرے کے نقاب پر پابندی لگائی تھی۔ اس طرح حجاب کرنا ایک جرم ٹھیرا اور اس کی سزا ہے 205 امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ۔ اسی دوران اسپین کے بھی کچھ شہروں میں حجاب پر پابندی عائد کردی گئی، مگر اسپین کی سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر پابندی ہٹا دی کہ نقاب پر پابندی سے مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے بعد 2012ء میں بیلجیم میں بھی برقعے پر پابندی عائد کردی گئی اور اس کی سزا رکھی گئی سات دن قید اور 380یورو جرمانہ۔ اس سے قبل 2008ء میں ڈنمارک میں ججوں پر عدالتی احاطے میں برقع یا اسی طرح کے مذہبی یا سیاسی نشانات پر پابندی عائد ہے جس میں صلیب، یہودی ٹوپی، پگڑی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہالینڈ نے مئی 2015ء میں مکمل چہرے کے اسلامی حجاب کو سرکاری عمارتوں، اسکولوں، اسپتالوں اور عوامی نقل و حمل کی جگہوں پر ممنوع قرار دیا اور اس کی سزا ہے 285 پاؤنڈ اسٹرلنگ تک کا مساوی جرمانہ۔ چین کے شہر اُرومچی میں بھی برقعے پر پابندی عائد ہے۔ یہ علاقہ سنکیانگ کا دارالحکومت ہے۔ اور اب سوویت یونین کی سابقہ جمہوریہ لٹویا بھی نے عورتوں پر اسلامی طرز کے مکمل حجاب پر ملک بھر میں پابندی لگا دی ہے۔ اس قانون پر 2017ء سے عمل درآمد ہونے کا امکان ہے۔
کچھ اچھی خبریں بھی ہیں جیسے کہ 25 اگست کو انڈیپنڈنٹ کے مطابق Police Scotland approves hijab as official uniform to boost number of Muslim women joining force۔ اس کے علاوہ ترکی میں حجاب کے لیے کی جانے والی جدوجہد بھی رنگ لے آئی ہے اور اب پولیس کانسٹیبل حجاب پہن کر ڈیوٹی کرسکیں گی۔ ان دونوں ممالک نے باحجاب خواتین کی پولیس میں شمولیت کے فروغ کے لیے یہ اقدامات اُٹھائے ہیں تاکہ باحجاب خواتین بھی زیادہ تعداد میں پولیس کے پیشے کو اپنا سکیں۔
حجاب سے خوفزدہ مغرب اپنے اس خدشے سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ عورت چاہے مغرب کی ہو یا مشرق کی، اب یہ جان چکی ہے کہ اس کی عزت و احترام اسلام و حجاب میں ہی پنہاں ہے۔

حصہ