(پانی کے جہاز سب سے پہلے کس نے بنائے، کس نے چلائے(طہٰ سعد

954

کے قدیم ترین جہاز سب سے پہلے مصریوں نے بنائے۔ اس بات کو پانچ ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ قدیم مصری باشندے تہذیب یافتہ تھے اور انہوں نے یہ ابتدائی جہاز دریائے نیل پر چلانے کے لیے بنائے تھے۔ مصر کے شمال میں بحیرہ روم واقع ہے۔ دریائے نیل جنوب سے آکر اسی سمندر میں گرتا ہے۔ جب قدیم مصریوں کو اپنے ابتدائی جہاز دریائے نیل پر چلانے میں کامیابی ہوئی، تو ان کا حوصلہ بڑھا اور وہ دریائے نیل سے نکل کر کھلے سمندر میں آگئے۔ اس طرح ابتدائی جہاز بحیرہ روم پر آئے۔ اُس زمانے میں بھاپ یا تیل سے چلنے والا انجن ایجاد نہیں ہوا تھا، اس لیے ان جہازوں یا بحری کشتیوں کو چپوؤں کی مدد سے چلایا جاتا تھا۔ ایک کشتی میں بیس یا بیس سے زیادہ آدمی چپو سنبھال کر بیٹھتے تھے اور سب ایک ساتھ زور لگاکر اسے چلاتے تھے۔ جتنے آدمی کشتی کے ایک طرف بیٹھتے تھے، اتنے ہی آدمی اپنے اپنے چپو سنبھال کر دوسری طرف بیٹھتے تھے۔ کشتی پر بادبان بھی لگا ہوتا تھا۔
مصر کے شمال میں بحیرہ روم واقع ہے۔ اس کے مشرقی ساحل پر ایک الگ قوم آباد تھی۔ تجارت کا سامان لانے لے جانے کے لیے وہ بڑی اور مضبوط کشتیاں بناتے۔ وہ صرف بحیرہ روم کا ہی سفر نہیں کرتے تھے بلکہ اس سے آگے بحر اوقیانوس پر بھی نکل جاتے تھے۔ وہ مغربی یورپ اور برطانیہ کے قدیم باشندوں کے ساتھ بھی تجارت کرتے تھے۔ اس قوم کے بعد جن لوگوں نے بحری قوت حاصل کی، وہ قدیم یونانی تھے۔ یونانیوں کی طرح قدیم رومن باشندے بھی جنگی کشتیاں استعمال کرتے تھے۔ اہلِ روم کے جہاز چھوٹے، لیکن مضبوط ہوتے تھے۔ تجارتی سامان کے لیے ان میں خاصی جگہ رکھی جاتی تھی اور بادبان اس طرح لگایا جاتا تھا کہ جہاز کی رفتار اور طاقت بڑھ جائے۔ یہ جہاز روم کی مختلف بندرگاہوں کے درمیان سفر کرتے تھے، جو پورے مغربی یورپ میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کی حکومت برطانیہ پر بھی تھی۔ پورے علاقے میں فوج رہتی تھی، جس کے لیے رسد ان کشتیوں پر ہی جاتی تھی۔
بحری قزاقی ہمیشہ سے مشہور رہی ہے۔ اب سے ہزار سال پہلے ناروے اور ڈنمارک کی طرف سے بحری قزاق برطانیہ کے ساحلی علاقوں پر حملہ کرتے تھے۔ لوٹ مار اور غارت گری ان کا مشغلہ تھا۔ یہ حملہ آور ’’وائکنگ‘‘ کہلاتے تھے۔ یہ اپنے جہازوں میں بیٹھ کر آتے تھے۔ ان حملہ آوروں کے جہاز لمبے اور خوب صورت ہوتے تھے۔ ایک جہاز سے پتا چلتا ہے کہ دونوں طرف سولہ سولہ چپو لگائے جاتے تھے اور قدیم مصری، یونانی اور رومی جہازوں کی طرح، ان پر بھی الگ ایک بادبان لگایا جاتا تھا۔ حملہ آوروں کی ڈھالیں جہاز کے اِدھر اُدھر لٹکی ہوتی تھیں۔ وائکنگ قزاق ان خوب صورت جہازوں میں بحر شمالی کو پار کرکے برطانیہ پر حملہ آور ہوتے تھے۔ پھر وہاں سے بحیرہ روم میں داخل ہوتے تھے اور بحر اوقیانوس تک کو پار کرکے امریکا تک مار کرتے تھے۔
پندرہویں صدی میں جہازوں کی بناوٹ میں اہم تبدیلیاں کی گئیں۔ ان کی جسامت بڑھائی گئی اور ایک بادبان کے بجائے ان میں دو، تین بلکہ چار بادبان تک لگائے گئے۔ لڑنے والے سپاہیوں کے لیے ان پر حفاظتی ’’ محل‘‘ بھی تعمیر کیے گئے۔ جدید جہازوں میں ان کی مثال موجود ہے۔ عربوں میں جہازرانی کا اصل زمانہ حضرت عثمانؓ کی خلافت سے شروع ہوتا ہے۔ عربوں نے بحیرہ روم، خلیج فارس اور بحرہند میں جنگی کارروائیوں کے لیے بحری جہاز استعمال کیے۔ بحیرہ روم میں جب عربوں کی سلطنت قائم ہوگئی، تو انہوں نے تجارتی اور جنگی جہاز بنوائے اور بحری بیڑوں کو سپاہیوں اور فوجی ساز و سامان سے آراستہ کیا۔ اس طرح فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں تمام اہم بندرگاہوں پر جہاز سازی کے کارخانے قائم تھے۔ بحیرہ روم کے جزیرے سسلی میں جہاز سازی کا بڑا مرکز تھا۔ مصر میں جنگی جہازوں کے بہت سے کارخانے تھے۔
کمپاس یا قطب نما کی ایجاد کے بعد تو سفر میں نئی آسانیاں پیدا ہوگئیں۔ سائنس نے اس کام میں مدد دی۔ اب سفر کی نئی راہیں کھلیں۔ دلیر ملاّح نئے سمندروں پر پہنچے۔ مثلاً1492 ء میں کولمبس نے بحر اوقیانوس کو بحری جہاز کی مدد سے پار کیا اور ایک نئی دنیا دریافت کی، جس کا نام امریکا پڑا۔ اسی طرح کمپاس کی مدد سے 1497ء میں واسکوڈی گاما نے افریقا کے جنوبی سرے سے چاروں طرف سفر کیا اور جون کیبٹ نے نیو فاؤنڈلینڈ (نیا دریافت کردہ ملک) دریافت کیا۔ 1514ء میں انگریزوں نے ’’وول وچ‘‘ بندرگاہ میں ایک نیا جہاز پانی میں اتارا، جس پر اُس زمانے کے شاہ برطانیہ ہنری ہشتم اور تمام اہلِ برطانیہ کو فخر تھا۔ یہ جہاز، جہازرانی کی تاریخ میں ’’گریٹ ہیری‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا وزن ڈیڑھ ہزار ٹن تھا اور اس پر چار بادبان لگائے گئے تھے۔ اس کے ’’محلّاتات‘‘ دور سے نظر آتے تھے۔ ملاّحوں کی تعداد907 تھی اور اس پر 195 توپیں نصب تھیں۔ اس کے چاروں طرف مختلف رنگوں سے خوب صورت نقش و نگار بنائے گئے تھے اور نہایت خوب صورت جھنڈے لہرا رہے تھے۔ برطانیہ کئی جزیروں پر مشتمل ہے، اس لیے بحری جہازوں کے بغیر کہیں آنا جانا ممکن نہ تھا۔ اس لحاظ سے وہاں جہاز رانی اور جہاز بنانے کے فن نے بے حد ترقی کی۔
nn

حصہ