(وقت کا سبق (حمیرا خالد

285

پہ دستک کی آواز پر اس نے بے دلی سے کتاب بند کی تو دیکھا سامنے سامیعہ کھڑی تھی۔ اتنے دنوں بعد بیٹی کی صورت دیکھ کر وہ کھِل اٹھی۔ کتنے دنوں سے راہ دیکھ رہی تھی لیکن بلانے کی ہمت نہیں کر پارہی تھی کہ شادی کے بعد بچیاں اپنے گھر کو ہی آباد رکھیں اسی میں سُکھ ہے۔ لیکن اب ممتا کی بے تابی چھپائے نہ چھپ رہی تھی۔
’’ارے ارے کہاں سے آرہی ہو۔۔۔؟ مجھے بتایا تو ہوتا۔۔۔ حاتمؔ بیٹا کیسا ہے، لے کے نہیں آئیں۔۔۔؟‘‘ اس نے بہت سارے سوال ایک سانس میں ہی کر ڈالے اور سامیعہ ماں کی بے قراری کو محسوس کرتے ہوئے اپنی مصروفیت اور کاموں کی فہرست سنانے لگی کہ کیسے سارا دن آفس کی ڈیوٹی اور پھر گھر آکر بھی مسلسل کالز اور آن لائن میٹنگز مہلت ہی نہیں دیتیں۔اسے خوب اندازہ تھا کہ کتنے دنوں سے اس نے ماما سے ملنا تو کیا میسج کے جواب تک نہ دیے تھے۔ یہ لاپروائی نہ تھی بلکہ وہ بتا رہی تھی کہ ’’ماما حاتم نے اتنے مزے کا قیمہ بنایا۔۔۔ اور بس میں نے تو کہہ دیا اب تم ہی کوکنگ کیا کرو یا آرڈر کرلیا کرو جب تک خانساماں نہیں آتا، مجھ سے تو نہیں ہوگا۔‘‘
’’کیا۔۔۔ کیا۔۔۔آ؟؟‘‘ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ’’سموں تم نے اپنے میاں کو ایسے کہہ دیا؟‘‘
’’تو۔۔۔ کیا ہوا ماما۔۔۔! آپ کو پتا نہیں میں اُس سے زیادہ کام کرتی ہوں، اور پھر ہم دونوں کی ذمے داری ہے۔ سارا بوجھ ایک ہی پہ کیوں۔۔۔؟‘‘
وہ سوچنے لگی، یااللہ یہ مخلوط سوسائٹی کیا رنگ دکھائے گی! کیا عورت اور مرد کے کاموں کی تخصیص یوں ختم ہوجائے گی۔۔۔ کیا یہی ایجوکیٹڈ تہذیب ہے کہ رشتے کے تقدس کا پتا ہے نہ یہ کہ کس کے کیا حقوق، کیا فرائض ہوتے ہیں۔ سامیعہ کی باتیں سن کر وہ سہم سی گئی۔ یہ جانے انجانے میں وہ کہاں غلط کربیٹھی جو آج بچی کی تربیت میں یہ جھول ہے۔ مغربی معاشرہ تو مادیت کی دوڑ میں خاندانی نظام کو تباہ کرچکا ہے لیکن یہ ہمارے بچے اس نہج پر کیوں چل پڑے!
اسے یاد ہے جب سامیعہ اکثر اپنے پاپا کے رویّے پر سخت طیش میں آجایا کرتی۔ اس کے خیال میں پاپا کے حاکمانہ مزاج کی وجہ سے گھر میں سخت بے انصافی ہوتی ہے۔ اب اسی کا ردعمل ہے جو سامیعہ کے معاملات میں اسے دکھائی دے رہا تھا۔
سامیعہ جانتی تھی کہ اس کے پاپا نے آج تک خود پانی بھی نہ پیا تھا اور ماما نے کبھی کچھ کرنے بھی نہ دیا، اسی لیے ان کا حال یہ تھا کہ کبھی گلاس بھرنے جاتے بھی تو چار کپ گرا دیا کرتے۔ اس نے کبھی موقع ہی نہ دیا۔ وہ کیا جانیں کچن کے دھندے! انہوں نے تو چائے کے کپ میں چمچہ بھی نہ چلایا تھا۔
سامیعہ کڑھتی رہتی کہ ماما کبھی چین سے بھی بیٹھ جایا کریں۔ کھانے کے دوران دس دفعہ اٹھک بیٹھک ہوتی ہے۔ اسے شکایت تھی کہ ماما تو باندی کی طرح حکم پر دوڑتی ہیں۔ اِسی نے پاپا کو اتنا سہل پسند بنادیا ہے اور وہ احساس بھی نہیں کرتے کہ سارے کام کا لوڈ ماما کے اوپر ہے کچھ ہاتھ ہی بٹا دیں۔
’’ایسی باتیں نہیں کیا کرتے‘‘ وہ جھڑک دیتی۔ اس کے ذہن میں تو اپنے والدین کے ازدواجی تعلق کا عکس نقش تھا جہاں یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون کس کے لیے زیادہ راحت کا باعث ہے۔
ابا اکثر رات کو دیر سے آتے۔ اُن کی ہدایت تھی کہ کام کی نوعیت ایسی ہے کہ دیر سویر تو ہوتی ہی رہے گی، اس لیے کھانے پر انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی ان کی وجہ سے کوئی جاگتے رہنے کا تکلف کرے۔ پھر بھی اماں گھڑی پر نظر ٹکائے انتظار کیا کرتیں کہ ابا کو کھانا گرم کرکے کھلائیں۔ مرد تھکا ہارا گھر آئے اور بیوی آرام نہ دے تو کس کام کی۔۔۔ مگر ادھر ابا کا یہ حال کہ دبے پاؤں آتے اور کھٹکا کیے بغیر سہولت سے جو میسر آتا یونہی کھا کے لیٹ جاتے کہ کسی کو زحمت نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ صبح سویرے اماں کی جھنجھلاہٹ اور پیار بھری ڈانٹ سننا پڑتی اور آئندہ یہ حرکت نہ کرنے کا وعدہ لیا جاتا۔ رشتوں کا احترام اس نے ماں سے ہی سیکھا تھا۔
ایک دن چھوٹے بھیا کے لاکھ اٹھانے پر اس نے آنکھ نہ کھولی، اُس دن بھیا کو ناشتا کیے بغیر ہی جانا پڑا۔ اماں کو خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئیں اور ابا سے بھی شکایت کردی۔ اس دن ابا نے ہمیں بلاکر بتایا کہ کس طرح جب وہ بغیر کھائے کام پر نکل گئے تھے تو ان کی بہنا نے سارا دن رو رو کے گزارا۔۔۔ بھیا کے غم میں خود بھی کچھ کھایا نہ پیا۔۔۔ ابا کہنے لگے کہ حیرت ہے اب اپنے بھیا کا بہن کو خیال کیسے نہیں۔۔۔! یہ کہنا تھا اور ہم سمجھ گئے ابا ہمارے اندر کیا احساس بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں واقعی اپنے رویّے پر سخت ندامت ہوئی کہ ہماری سستی کی وجہ سے چھوٹے بھیا سارا دن کیسے گزاریں گے جب کہ چھوٹے بھیا نے کبھی ہماری کسی فرمائش کو رد نہیں کیا تھا، اور جب ہم نے غصے میں بھوک ہڑتال کی ٹھان لی تو چھوٹے بھیا ہماری خوشامد میں سب سے آگے آگے ہوتے۔ کتنے خوب صورت رشتے ہیں۔۔۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
سامیعہ نے جھنجھوڑا ’’ماما آپ میری بات سن رہی ہیں۔۔۔ میں آپ کی طرح باندی بن کر رہنے والی نہیں، آفس سے آکر ہم دونوں مل جل کر گھر کے کام سمیٹتے ہیں۔ وہ چائے بناتے ہیں تو میں برتن دھو لیتی ہوں۔ اب اگر خانساماں نہیں بھی آتا تو آپ پریشان نہ ہوں ہم اپنے کام خود کرلیں گے۔
شکر ہے حاتم بابا کی طرح حاکمِ وقت نہیں۔۔۔ دراصل ماما آپ نے بھی تو کبھی احتجاج نہیں کیا اور اب تک اس کی سزا بھگت رہی ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں کہ مرد کا کام صرف خدمت لینا نہیں خدمت کرنا بھی ہے‘‘۔ وہ اپنا وہی فلسفہ دہرانے لگی جو آزادئ نسواں کا پرچار کرنے والوں نے نئی نسل کے ذہنوں میں اتار دیا ہے۔
حالانکہ فطرت نے عورت کی تو سرشت میں خدمت گزاری گوندھ دی ہے، وہ بغیر ناگواری کے اپنی ذمے داری ادا کرتی ہے۔ یہ مغربی فکر ہے جس نے عورت کو پہلے مرد کے شانہ بشانہ چلایا اور پھر اس کے مدمقابل لاکھڑا کیا۔ اب دونوں ہی ان اخلاقی تقاضوں کو بھلا بیٹھے ہیں جو خوش گواری اور انسیت کے ساتھ ادا کیے جاتے تھے۔بے شک شوہر کی خدمت اور گھر کے کام کاج کی ذمے داری کلیتاً عورت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ عورت صاحبِِ حیثیت ہو تو اس کے لیے خادم فراہم کیا جائے، یہ بھی درست ہے کہ اگر بیوی شوہر کے رشتے داروں کے ساتھ مل کر نہ رہنا چاہے تو الگ مکان کا مطالبہ کرسکتی ہے، یہ اس کا قانونی حق ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ عورت مرد کے لیے وجۂ سکون ہو، اولاد کے ساتھ مضبوط رشتہ ہو، سسرالی عزیزوں کے ساتھ صلۂ رحمی کا رویہ ہو، اور یہ سب کچھ کرنا اس کا اخلاقی فرض اور حسنِ سلوک ہے جو اس کی عظمت اور بڑائی کی دلیل ہے۔
’’سامیعہ! پتا ہے یہ سہولتیں عورت کو کیوں فراہم کی گئی ہیں؟‘‘ اس نے سامیعہ کو غور سے دیکھا۔ وہ ہمہ تن گوش تھی۔
’’حقوق اور ذمے داریوں کی تقسیم میں یہ توازن اس لیے رکھا گیا ہے کہ فطرت کو عورت سے ماں بن کر نسل انسانی کو آگے بڑھانا ہے اور یہ کوئی وقتی اور ہنگامی مشغلہ نہیں ہے، اس کے لیے طویل اور دشوار گزار مرحلوں سے گزرنا ہوتا ہے، اس میں توانائی اور صلاحیتوں کا بڑا حصہ لگانا ہوتا ہے، اسی لیے فطرت نے مساواتِ مرد و زن کے لیے ایک معتدل نظریہ دیا ہے۔‘‘
بچوں کو بتانا اور بتاتے رہنا ضروری ہے، اور وہ یہ کام کرتی رہی۔ آخرکار ایک دن۔۔۔ اس نے محسوس کیا کہ سامیعہ کی تربیت جس قدیم ترین ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے ہوئی ہے اس پر نقب لگانا اتنا آسان نہیں ۔ خیالات کو پراگندہ کرنے کے لیے جو دھول اڑائی گئی ہے اس نے راہوں کو دھندلا تو دیا تھا لیکن گرد پھر گرد ہے، بیٹھ جایا کرتی ہے۔
آج سامیعہ ماں سے لپٹ کر کہہ رہی تھی ’’ماما! آپ بہت عظیم ہیں اور مجھے آپ جیسا ہی بننا ہے۔ آپ کا کہنا ٹھیک تھا کہ عورت کی اصل سلطنت اس کا گھر ہوتا ہے، بس اب مجھے اپنی اصل سلطنت پر ہی حکمرانی کرنی ہے کہ جو لذت و سکون اس میں ہے اور کہیں نہیں۔۔۔‘‘

حصہ