(قرعہ اندازی اور قربانی (سید اقبال چشتی

348

بدر کا معرکہ درپیش ہے، باپ اور بیٹا دونوں اس غزوہ میں شریک ہونے کی سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتے، لیکن گھر کا کوئی ایک فرد اس غزوہ میں شریک ہوسکتا ہے، اس لیے باپ اور بیٹے دونوں کی اس بات پر تکرار ہے کہ کون شریک ہوگا۔
حضرت خیسمہ انصاریؓ اور بیٹا سعد بن خیسمہؓ فیصلہ کرتے ہیں کہ قرعہ ڈال لیا جائے، جس کے بھی حق میں قرعہ نکلا وہ غزوہ میں شریک ہوگا۔
قرعہ بیٹے کے نام نکلتا ہے جس پر باپ اپنی شفقت اور محبت کا حوالہ دیتے ہیں اور بیٹے کو دستبردار ہونے کے لیے کہتے ہیں، لیکن بیٹا جواب دیتا ہے کہ ’’ابا جان اگر یہ دنیا کا معاملہ ہوتا تو میں ضرور آپ کے حق میں دستبردار ہوجاتا، لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ شہادت اور دینِ اسلام کا معاملہ ہے‘‘۔ سبحان اللہ، اپنے رب سے ملاقات اور جنت کی طلب کے لیے قرعہ اندازی کے ذریعے فیصلہ کیا جارہا ہے کہ کون اس غزوہ میں شریک ہوگا۔
غزوۂ بدر دینِ اسلام کی بقاء کی جنگ تھی۔ اس غزوہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی تھی کہ ’’اے اللہ مسلمانوں کو فتح نصیب کرنا، اگر آج یہ شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو پھر تیرا اس دنیا میں کوئی نام لینے والا نہ ہوگا‘‘۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے۔ اس فتح کو ’’یوم فرقان‘‘ یعنی ’’حق و باطل کا فرق واضح کرنے والی فتح‘‘ کہا گیا۔ اس غزوہ میں عظیم قربانیاں پیش کی گئیں اور ایسی ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ رہتی دنیا تک کے لیے مشعلِ راہ بن گئیں۔ غزوۂ بدر میں باپ نے بیٹے کو، بیٹے نے باپ کو قتل کیا کہ اب ہمارا تعلق دینِ اسلام سے ہے اور جو دینِ اسلام کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ اس معرکے میں حضرت سعدؓ شہید ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لاتی ہیں اور آج پوری دنیا میں مسلمان ان ہی قربانیوں کے نتیجے کی وجہ سے موجود ہیں۔
اسلام کے لیے قربانی دینے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے اور صحابہؓ سے لے کر آج تک دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے سرفروشانِ اسلام نے اس بات کی پروا کیے بغیر کہ میرے بعد کیا ہوگا، صرف دین کی خاطر قربانی دی۔ قربانیوں کا یہ سلسلہ آج بھی جگہ جگہ مصر، فلسطین، کشمیر اور بنگلہ دیش میں جاری ہے اور سرفروشانِ اسلام اپنے رب سے ملاقات اور جنت کے حصول کے لیے پھانسی کے پھندوں کو چوم کر اپنے گلے میں ڈال رہے ہیں۔ اکثر قربانی کے مفہوم سے نابلد، دینِ اسلام کے ماننے والے قربانی کے جانور قربان کررہے ہیں جب کہ کفر مسلمانوں کی قربانی کررہا ہے، مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اور اُمتِ مسلمہ خوابِ غفلت میں پڑی ہے اور اس کے حکمران اللہ کی مدد و نصرت کے بجائے کبھی اقوام متحدہ، تو کبھی اسلام دشمن قوتوں کو پکار رہے ہیں، اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وہ سرزمینِ عرب، جہاں حضرت ابراہیم ؑ نے بی بی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل ؑ کو ریگستان میں چھوڑا تھا تو صرف اللہ کے بھروسے پر، اور آج پوری دنیا جانتی ہے کہ اس بیابان ریگستان میں آج پوری دنیا کے مسلمان جمع ہوتے ہیں، جہاں دنیا کی ہر نعمت پائی جاتی ہے۔ ہر سال لاکھوں مسلمان مکہ مکرمہ میں حج کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔ حج کی سعادت بھی شہادت کی طرح ہے۔ اللہ جس کو بلانا چاہے اسے یہ سعادت حاصل ہوجاتی ہے۔ جو اللہ پر بھروسا رکھتا ہے اور اپنی نیت صاف رکھتا ہے اللہ اس کو اپنے گھر کی زیارت کے لیے بلا لیتے ہیں۔
ہمارے مربی اور بزرگ محترم پروفیسر ڈاکڑعطاء اللہ حسینی صاحب نے اپنے قریبی دوست ڈاکٹر محمود حسین مرحوم سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی کے کہنے پر نوکری چھوڑ کر جامعہ ملیہ کے عظیم منصوبے کی تکمیل کے لیے اُن کے ساتھ کام کا آغاز کیا تھا، آج بھی جامعہ ملیہ کے نام سے چاروں طرف قائم تعلیمی اداروں کے درمیان رہائش پذیر ہیں۔ آپ نے ایک قصہ سنایا جو قارئین کی نذر اس لیے کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ پر بھروسا رکھو۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے ’’اسکول والے بابا حج پر جارہے ہیں۔۔۔‘‘
’’اچھا، مگر کیسے۔۔۔؟ بابا تو اسکول کے باہر بچوں کی چیزیں بیچتے ہیں اور ان کی روز کی آمدنی زیادہ سے زیادہ پچاس روپے تک ہوگی‘‘۔ میں نے سوالیہ انداز میں پروفیسر صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’لیکن اللہ جس کو یہ سعادت نصیب کرے اور اپنے گھر کی زیارت کے لیے بلا لے‘‘۔ پروفیسر ڈاکڑ عطاء اللہ حسینی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور تمام روداد سنائی کہ کس طرح اسکول والے بابا حج پر جارہے ہیں۔ اسکول والے بابا جن کی کوئی اولاد نہیں ہے، دونوں میاں بیوی جامعہ ملیہ کیمپس میں ایک چھوٹے سے کوارٹر میں رہتے ہیں۔ بابا گزربسر کے لیے اسکول کے باہر ٹھیلے پر چیزیں بیچتے ہیں۔ ایک دن بابا گھر کے استعمال کے لیے چائے کی پتی کا ایک پیکٹ خرید کر لائے تو اس میں عمرے کا ٹکٹ نکلا۔ چائے کی کمپنی سے رابطہ کیا گیا تو کمپنی کے منیجر نے بابا سے ملاقات کرکے اور ان کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ہماری کمپنی پاسپورٹ سے لے کر واپسی تک کے تمام اخراجات برداشت کرے گی۔ بابا کا عمرے کا ٹکٹ اور روانگی کی تاریخ بھی آگئی لیکن بابا کی بیوی کی طبیعت خراب ہوگئی اور عمرے پر روانگی سے دو دن قبل بابا کی بیوی کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے بابا عمرے پر نہیں جا سکے۔ جہاں بابا کو اپنی شریکِ حیات کے دنیا سے رخصت ہونے کا غم تھا وہیں اللہ کے گھر کی زیارت پر نہ جانے کا بھی افسوس تھا۔ ایک ساتھ دو غم بابا کو ملے۔ کچھ دن بعد چائے کمپنی کے منیجر سے رابطہ کیا گیا کہ اب رمضان المبارک کا مہینہ قریب ہے لہٰذا بابا کو رمضان میں عمرے پر بھیج دیا جائے۔ اس پر کمپنی منیجر نے کہا کہ ہمارے اسٹاف کی حج کے حوالے سے قرعہ اندازی ہوئی ہے، ہماری کمپنی نے فیصلہ کیا ہے کہ ان خوش نصیب لوگوں کے ساتھ بابا بھی حج پر جائیں گے۔ اس طرح بابا حج پر جارہے ہیں۔
صحیح کہا جاتا ہے کہ ہر جانے والا یہی کہتا ہے جب بلاوا آجائے تو چلے جائیں گے۔ ایک غریب فرد جس کے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں لیکن وہ حج کی سعادت حاصل کرلیتا ہے۔ میں ایسے افراد کو بھی جانتا ہوں جو کروڑوں کے مالک ہیں لیکن اب تک حج پر نہیں جاسکے۔ یہ پیسے سے نہیں بلکہ نیت اور اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
اخبار میں خبر پڑھی کہ عمران خان حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے جارہے ہیں، لیکن پھر خبر آئی کہ عمران خان حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کی وجہ سے حج پر نہیں جائیں گے۔ معلوم نہیں ایسی کون سی تحریک تھی کہ عمران خان نے حج پر جانے کے بجائے حکومت مخالف تحریک کو جاری رکھنے کے لیے اپنا ارادہ تبدیل کردیا۔ حج سے قبل اپوزیشن کی تمام جماعتیں کرپشن اور پانامہ لیکس کے حوالے سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی تھیں لیکن پھر اچانک سب اپوزیشن پارٹیاں پیچھے ہٹ گئیں۔ شاید اس کی وجہ میری نظر میں اللہ کے گھر کی زیارت اور حج جیسے مقدس فریضے کو چھوڑ کر حکو مت مخالف تحریک کو جاری رکھنے کا اعلان ہو۔ معلوم نہیں ایسی کون سی افتاد آپڑی ہے کہ عمران خان مستقل سڑکوں پر رہنا چاہتے ہیں؟ ان کے اس طرزعمل کی وجہ سے سینئر سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو تو نہیں جمہوریت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
جمہوری معاملات پارلیمنٹ میں حل کرنے کے بجائے مستقل سڑکوں پر آکر احتجاج کی صورت میں شور مچانے کی وجہ سے عمران خان کی سیاسی ساکھ میں مسلسل کمی آرہی ہے اور ہر ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی ہار اور پارٹی میں اختلافات کی خبریں اس بات کا ثبوت ہیں۔ جو لاکھوں کا لشکر جمع کرنے کے دعوے کررہے تھے اب سینکڑوں کی تعداد بھی ان کے لیے جمع کرنا مشکل ہورہی ہے۔ شاید تحریک انصاف کے کارکنان ناچ ناچ کر اور مستقل سڑکوں پر رہنے کی وجہ سے تھک چکے ہیں، یا پھر بددل ہوگئے ہیں۔ دھرنوں کے حوالے سے میڈیا کی خبروں میں بھی جان نہیں ہے بلکہ میڈیا پر چلائی جانے والی خبریں سیاسی سے زیادہ انٹرٹینمنٹ معلوم ہوتی ہیں۔ ایمپائر کی انگلی کو اللہ کی انگلی قرار دینے والے اب اللہ کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن مجھے قوی امید ہے کہ قرعہ اندازی میں تحریک انصاف کی کامیابی کے حوالے سے کوئی نام نہیں آئے گا، البتہ اگر عمران خان اپنی ساری طاقت اسلام کے نفاذ اور اسلامی حکومت کے قیام میں لگائیں تو ’’نیا پاکستان‘‘ نہیں ’’اسلامی پاکستان‘‘ وجود میں آسکتا ہے۔ اگر عمران خان حج پر جانے یا تحریک چلانے کے حوالے سے قرعہ اندازی کرلیتے تو یقیناًحج کا ہی قرعہ نکلتا۔ عمران خان تو حج پر نہیں جا سکے لیکن بدقسمتی سے ہمارے آفس کے بھی 30 افراد حج پر نہیں جاسکے۔ ان تمام افراد کے نام حج قرعہ اندازی میں آئے تھے لیکن بڑوں کی غلطی کی وجہ سے یہ تمام افراد حج پر جانے سے رہ گئے۔ تسلی کے لیے یہ کہا گیا کہ بلاوا نہیں آیا تھا، لیکن پورا اسٹاف جانتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے کمیشن کے چکر میں وقت نکال دیا۔ کرپشن ہر جگہ موجود ہے مگر افسوس کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کرپشن کے خلاف مہم چلا رہی ہے لیکن ان کے اپنے دامن کرپشن سے پاک نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ قوم بدعنوانوں کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں کرپٹ لوگوں کا ساتھ نہیں دے رہی اور تمام سیاسی پیشن گوئیاں کہ عید سے پہلے قر بانی ہوگی، لیکن عید گزرنے کے باوجود بھی کوئی سیاسی قربانی نظر نہیں آرہی، البتہ عید سے قبل پاکستان کے لیے قربان ہونے کے لیے جس فرد کا نام قرعہ میں نکلا وہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم ہیں جنھوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر یہ ثابت کیا کہ جس پاکستان اور اسلام کی تحریک کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ قربان کیا تھا اب بھی اگر ہماری جانوں کے نذرانے دے کر اسلام کا نظریہ زندہ ہوسکتا ہے تو ہم معافی کے بجائے پھانسی کے پھندے پر جھول جائیں گے لیکن اسلام کے نفاذ کی تحریک سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
بدقسمتی سے عالم اسلام کے تمام حکمران اللہ کی زمین پر اسلام کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں جبکہ امام کعبہ نے اپنے خطبہ حج میں مسلم حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وہ زمین پر اللہ کا نظام نافذ کریں جو انسانوں کو امن و سلامتی فراہم کرتا ہے، پوری دنیا میں مسلمان مشکلات کا شکار ہیں اور روز بہ روز مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمان فرقہ واریت اور آپس کے اختلافات کو ختم کریں اور اُمت کا اتحاد قائم کریں، کیونکہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، ایک اللہ، ایک رسولؐ اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں، اس لیے مسلمانوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دین اسلام کے نفاذ کے لیے کام کریں۔ امام کعبہ نے اپنے خطبۂ حج میں امتِ مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امت اپنے مسائل کے حل کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے، انہوں نے خاص طور پر مسلم حکمرانوں کو پیغام دیا کہ آج امتِ مسلمہ سخت حالات سے گزر رہی ہے، جب تک مسلمان مشترکہ طور پر کوشش نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ امتِ مسلمہ کے حکمرانوں ہی کی وجہ سے آج امت مشکلات اور مسائل سے دوچار ہے۔ پوری دنیا میں اسلامی ممالک ہی دہشت گردی کا شکار ہیں اور مسلمانوں ہی کو دہشت گرد کہا جارہا ہے۔ امامِ کعبہ نے یہ بات پوری دنیا سے آئے ہوئے مسلمانوں کے سامنے کہہ دی کہ تمہارے حکمران صحیح نہیں ہیں، کسی بھی اسلامی ملک میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہے۔ امام کعبہ نے اپنے خطبۂ حج میں واضح پیغام دیا ہے کہ وہ آج اگر اللہ کو راضی کرنے آئے ہیں تو ان کا رب اُس وقت راضی ہوگا جب عالم اسلام کے مسلمان زمین پر اللہ کے نظام کے قیام کی جدوجہد کریں گے کیونکہ یہ کام انبیاء کا ہے لیکن کیا کریں بدقسمتی سے مسلمان اس سے غافل ہیں۔ جو یہ کام کررہے ہیں دنیا ان کو دہشت گرد کہہ رہی ہے۔ مسلم حکمران کہیں اسلام پسندوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھ کر جیلوں میں ڈال رہے ہیں تو کہیں انہیں پھانسیاں دی جارہی ہیں۔ ہر کوئی اپنے حکمرانوں سے ناخوش ہے پھر بھی ہر طرف خاموشی ہے۔ مسلم دنیا کے مسلمان فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد مبارک باد وصول کررہے ہیں اور میدانِِ عرفات کے اس خطبۂ حج کے پیغام کو بھول چکے ہیں جو امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا کہ ’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑے رہنا‘‘۔ اسی بھول کا نتیجہ ہے کہ آج امت انتشار کا شکار ہے۔ جب مسلمانوں نے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دیا تھا اور اپنی جان، مال، وقت دین کی سربلندی کے لیے وقف کردیے تھے تو اللہ نے مسلمانوں کو دنیا کا اقتدار عطا کیا تھا۔ لیکن جب مسلمانوں کے اندر دنیا کی محبت اور جنت کی تڑپ صرف دعاؤں تک رہ گئی تو وہ مصائب میں مبتلا ہوگئے۔ اب بھی وقت ہے اگر عالم اسلام کے مسلمان اور حکمران اسلام کا دفاع کریں تو یقیناًمسلمان ایک بار پھر اس دنیا میں غلبہ پا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے وقت کی، جان کی، مال کی قربانی دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ دنیا کا نہیں اسلام کے دفاع اور اللہ کو راضی کرنے کا معاملہ ہے۔

حصہ