حامد ریاض ڈوگر

335

کہنے کو تو وہ نواب ابنِ نواب تھے مگر اُن تمام عیوب و نقائص سے پاک تھے جو نوابوں کا خاصا تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ سر سے پاؤں تک سیاست میں دھنسے ہوئے تھے مگر اس کے باوجود شفاف کردار تھے، اور صبح سے شام تک سیاستدانوں میں گھرے رہنے کے باوجود سیاستدانوں کو عموماً مرغوب اکثر عاداتِ بد سے بیزار تھے، وہ باتوں ہی کے دھنی نہ تھے بلکہ عمل کے میدان میں بھی صاحبِ کردار تھے، تمام عمر قید و بند کی صعوبتیں سہنے کے باوجود جمہوریت کے قافلہ سالار تھے۔ وہ انتہائی ملنسار بلکہ حقیقتاً خاکسار تھے، اسلام اور پاکستان کے سچے جانثار تھے۔۔۔ اپنی طرز کی اس منفرد شخصیت نے 1918ء میں غلام ہندوستان میں آنکھ کھولی اور 1933ء میں آزادئ جمہوریت اور اعلیٰ اقدار کی سربلندی کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ یوں 70 برس تک اپنے مشن کی خاطر جان کھپانے کے بعد آخر 26 اور 27 ستمبر 2003ء کی درمیانی شب یہ ہستی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
نوابزادہ نصر اللہ خان، 86 برس کی عمر میں انتہائی ضعیف العمری، پیرانہ سالی اور علالت کے عالم میں بھی اپنے مشن کے لیے جوانوں سے زیادہ توانا عزم کے مالک تھے۔ وہ زندگی کے آخری سانس تک نہایت مستعدی سے جمہوریت کی منزل کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔ ان کا عزم اور ولولہ جوانوں کو حوصلہ دیتا تھا۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز تحریکِ آزادی کے دنوں میں انگریز کی فسطائیت کے خلاف جدوجہد سے کیا اور اپنی زندگی کا آخری سانس جنرل پرویزمشرف کی فوجی حکومت کے خاتمے کی تحریک میں لیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کے والد ریاست چودان کے نواب تھے۔ 1933ء میں مظفر گڑھ سے میٹرک کیا، پھر ایچی سن کالج میں داخل ہوگئے۔ انہی دنوں ان کا خاندان نوابی روایات کے مطابق یونینسٹ پارٹی کا ہمنوا تھا مگر انہوں نے بغاوت کرتے ہوئے زمانۂ طالب علمی میں ہی 1933ء میں مجلس احرار میں شمولیت اختیار کرلی۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد، سید عطاء اللہ بخاریؒ کے رفیق رہے۔ احرار کی طرف سے کانگریس اور مسلم لیگ سے مذاکرات کرنے والے وفود میں بھی شامل رہے۔ احرار کی تحریک کشمیر کے آخری دنوں میں فعال رہے۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ 1952ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے، لیکن یہ کھرا اور سچا احراری جلد کھوٹے سکوں سے اکتا گیا اور 1953ء میں مسلم لیگ چھوڑ کر عوامی لیگ بنالی۔ مادرِ ملتؒ محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے دوران ان کے جوہر پہلی بار کھل کر سامنے آئے۔ 1962ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور پاکستان کے پہلے فوجی آمر کے خلاف پہلا اتحاد بنا ڈالا جس کا نام نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ تھا۔ 1968ء میں ڈیموکریٹک کمیٹی بنائی اور بالآخر ایوب خان کو چلتا کیا۔ بھٹو کے خلاف قومی اتحاد بنایا۔ بھٹو کی جگہ ضیاء الحق آئے تو پہلے ان کی حکومت کا حصہ بنے، مگر یہ ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکا تو جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی تشکیل دی۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران آئی جے آئی کا ساتھ دیا لیکن شریک نہیں ہوئے۔ نوازشریف کے خلاف پی ڈی اے اور عوامی اتحاد قائم کیا۔ جنرل پرویزمشرف برسراقتدار آئے تو نواب صاحب اے آر ڈی بناکر مدمقابل آگئے۔
بابائے جمہوریت ساری عمر جمہوریت کے لیے انتھک جدوجہد کرتے رہے مگر سیاستدانوں کے غیر جمہوری رویوں سے بھی انتہائی تنگ تھے اور ان کے خلاف بھی تحریکیں چلائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے صرف جنرل محمد ایوب خان، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کو طالع آزما قرار دے کر ان کے خلاف ہی قوم کو بیدار اور متحرک و متحد نہیں کیا بلکہ سیاسی وزرائے اعظم کے آمرانہ طرزِعمل کے خلاف بھی آواز بلند کی اور ان کا تختہ الٹنے والے فوجی جرنیلوں سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کی کارروائی کا خیرمقدم ہی نہیں کیا بلکہ ان کی کابینہ کے لیے اپنی جماعت سے وزیر بھی دیئے۔ اسی طرح انہوں نے جنرل پرویزمشرف کی طرف سے نوازشریف کو اقتدار سے الگ کرنے پر اپنے تعاون کا یقین دلایا اور نوازشریف کے خلاف تحریک چلانے والے اتحاد جی ڈی اے کے سربراہ کی حیثیت سے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جنرل پرویزمشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کو اپنا پروگرام قرار دیا۔ مگر جلد ہی وہ فوجی جرنیلوں سے بھی مایوس ہوجاتے رہے اور ان کے آمرانہ طرزعمل کے باعث انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی اور جنرل پرویزمشرف کے خلاف اے آر ڈی کے نام سے اتحاد تشکیل دیئے اور احتجاجی تحریکیں منظم کیں۔ نواب صاحب کی زندگی کا یہ پہلو عجیب ہے کہ وہ ساری عمر مختلف جماعتوں پر مشتمل اتحاد بناتے رہے اور احتجاجی تحریکوں کے لیے عوام کو متحرک و منظم کرتے رہے، تاہم دوسروں کو متحد و منظم کرنے والا یہ شخص اپنی جماعت کو نہ تو منظم کرسکا اور نہ ہی اسے عوام میں مقبولیت کا مقام دلاسکا۔ ان کی جماعت ’’پاکستان جمہوری پارٹی‘‘ ان کی ذات ہی کے گرد گھومتی رہی اور ضلعی و صوبائی سطح تو دور کی بات ہے اسے مرکزی سطح پر بھی پورے عہدیدار دستیاب نہ ہوسکے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان عمر بھر جس اعلیٰ سیاسی مقام و مرتبے پر فائز رہے، اگر وہ چاہتے تو بے پناہ سیاسی اور مادی فوائد سمیٹ سکتے تھے، مگر انہوں نے خود کو ہمیشہ ایسی آلائشوں سے پاک رکھا، اس ضمن میں اپنے تو ایک طرف، پرائے بھی ان کی پاک دامنی کے گواہ ہیں۔ انہوں نے عمر کا ایک بڑا حصہ لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب چند کمروں کے کرائے کے ایک مکان میں گزار دیا اور اسے عالیشان صوفوں اور گداز قالینوں سے سجانے کے بجائے اپنے کردار کی بلندی سے آراستہ کیا۔ وہ یہاں مستقلاً ایک کمرے میں مقیم رہے۔ یہی ان کا بیڈ روم تھا اور یہی ڈرائنگ روم، جس کا دروازہ ہر آنے والے کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا۔ چھوٹے بڑے سیاستدان اور صحافی، محنت کش اور کسان، شاعر اور ادیب سب جب چاہتے کمرے کا دروازہ کھولتے اور اپنے دور کی اس یکتا ہستی سے شرفِ ملاقات حاصل کرلیتے۔ وہ خندہ پیشانی سے سب کا استقبال کرتے، کھانے کے وقت کھانے ورنہ چائے بسکٹ اور برفی سے مہمان کی تواضع کرتے۔ آموں کے موسم میں اپنے باغات کے آموں کی سوغات سے بھی مستفید فرماتے، اور سب سے بڑھ کر ان کی شستہ اور شگفتہ گفتگو آنے والے کے کانوں میں رس گھولتی اور دل میں گھر کرتی چلی جاتی۔
وطنِ عزیز کے اکثر سیاستدانوں کے برعکس نواب صاحب قول و فعل کے تضاد سے بڑی حد تک پاک تھے۔ انہوں نے جو اصول درست سمجھے سیاست ہی کے میدان میں ان کی پابندی نہیں کی بلکہ دین کے معاملے میں بھی انہوں نے جس بات کو درست سمجھا، اس سے اپنی عملی وابستگی کا ثبوت دیا۔ انہوں نے تمام عمر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو حرزِ جاں بنائے رکھا۔ اگرچہ ان کی شہرت بحالئ جمہوریت کے حوالے سے زیادہ ہے مگر ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے جدوجہد بھی ان کے سیاسی پروگرام کا ایک اہم نکتہ تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پختہ ایمان رکھتے تھے اور ملک میں طویل عرصے تک چلنے والی تحریک ختم نبوت کے مختلف مراحل میں وہ پیش پیش رہے۔ وہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق عام سیاسی روش سے ہٹ کر بدزبانی، غیبت اور بہتان تراشی سے ہمیشہ گریز کرتے رہے اور حکمرانوں سے شدید ترین اختلاف کے باوجود کبھی ان کے بارے میں نازیبا زبان استعمال نہ کرتے۔ یہی طرزِعمل ان کا مخالف سیاستدانوں کے بارے میں تھا جن کا نام وہ ہمیشہ احترام سے لیتے۔ ذاتی زندگی میں وہ فرض نمازوں کے علاوہ تہجد کے بھی پابند تھے، اکثر ایسا ہوتا کہ محفل برپا ہوتی، گفتگو چل رہی ہوتی، وہ آہستگی سے اٹھتے، ساتھ والے کمرے میں جاکر نماز ادا کرتے اور واپس آکر شریکِ محفل ہوجاتے۔ اس پیرانہ سالی میں بھی وہ سفر و حضر میں نماز کا خصوصی اہتمام کرتے، یہی حال دیگر فرائضِ دینیہ کا تھا۔
ہمارے یہاں یہ رواج ہوگیا ہے کہ ہر مرنے والے کے ساتھ ’’وہ اپنی ذات میں انجمن تھے‘‘ کا جملہ چپکا دیا جاتا ہے۔ مگر نوابزادہ نصراللہ خان کی ذات پر یہ جملہ فی الواقع صادق آتا ہے، وہ سیاست کی سنگلاخ وادیوں کے رہرو ہونے کے ساتھ ساتھ دینی مسائل پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے۔ ایک منجھے ہوئے اور لاکھوں کے مجمع کو مسحور کردینے کی صلاحیت رکھنے والے مقرر تھے۔ تاریخ پر عبور، اور شعر و ادب کا نہایت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ اردو، فارسی کے ہزاروں اشعار انہیں زبانی یاد تھے، جنہیں وہ اپنی تقاریر اور گفتگو میں برمحل استعمال کرتے تھے۔ خود بھی بہت اچھے شاعر تھے اور ناصر تخلص کرتے تھے، صحافیوں سے اکثر اس بات پر نالاں رہتے تھے کہ وہ ان کے پڑھے ہوئے اشعار کو خبروں میں خلط ملط کردیتے ہیں۔ نواب صاحب خود بھی ایک وقت میں اخبار نویسی سے وابستہ رہے، اور قیام پاکستان سے قبل لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’’آزاد‘‘ کی ادارت کرتے رہے۔ وہ اسلام اور پاکستان کے علاوہ امریکا و یورپ کی تاریخ پر بھی عبور رکھتے تھے اور اپنی گفتگو میں اکثر تاریخی حوالے تفصیل سے پیش کیا کرتے تھے۔ اپنی دینی، سیاسی، علمی اور ادبی مصروفیات کے باوجود نوابزادہ مختلف کھیلوں خصوصاً کرکٹ کے رموز سے پوری طرح آشنا تھے اور فرصت کے لمحات میں اپنے کمرے میں رکھے ٹیلی ویژن پر براہِ راست دکھائے جانے والے میچ دیکھتے تھے اور کھلاڑیوں کی کارکردگی پر ساتھ ساتھ تبصرہ کرتے چلے جاتے تھے۔
سیاست، صحافت، خطابت، زراعت، مذہب، علم، ادب، اور شاعری کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھرپور دلچسپی لینے والے نواب ابنِ نواب مگر عملاً خاکسار 85 سال کی عمر میں ’’خاموش ہوگیا یہ چمن بولتا ہوا‘‘

حصہ