(فہم دین کا چراغ (پروفیسر خورشید احمد

237

خری کتابِ ہدایت ہے، ربِ جلیل و کریم کی طرف سے!
اور تفہیم القرآن عہدِ حاضر کی ایک عظیم تفسیر ہے!
’تفہیم القرآن‘ سے میرا تعلق اسی نوعیت کا ہے، جس نوعیت کا تعلق ایک شاگرد اور استاد اور راہی اور رہبر کے درمیان ہوتا ہے۔ میں نے اس کی سطر سطر کا بغور مطالعہ کیا ہے، اس نے انگلی پکڑ کر میرے فکر وعمل کی قدم بہ قدم راہبری کی ہے۔ ایک ایسی کتاب کے بارے میں ایک ایسا شخص جو کچھ بھی عرض ومعروض کرے گا اسے اصطلاحی معروضیت سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ جس طرح ایک شخص اپنی آپ بیتی ’’معروضی‘‘ ہوکر نہیں لکھ سکتا، اسی طرح میں بھی اس کتاب کے بارے میں ’’معروضی‘‘ نہیں ہوسکتا، جس کی مدد سے میں نے سوچنے کے طریقے سیکھے ہیں اور جس نے میری زندگی کے رخ کو بدلنے اور نیا رخ متعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔
لیکن اس اعتراف کے ساتھ ساتھ میں یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ جس طرح ایک استاد کا صحیح نقاد اور قدردان ایک شاگرد ہی ہوسکتا ہے، اسی طرح شاید میں بھی اگر ان بے شمار افراد کی طرح جن کی زندگیوں میں یہ کتاب انقلاب برپا کرنے کا ذریعہ بنی، اس کی قدروقیمت کو ایک حد تک متعین کرنے کی سعی کروں تو یہ سعی رائیگاں نہ ہوگی۔ اور پھر اگر شاگرد کو کسی نہ کسی درجے میں بہت سے دوسرے ’’اساتذہ‘‘ سے بھی سابقہ پڑا ہو اور ایمان داری کے ساتھ موازنہ و مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس کی شہادت استاد کے مقام اور رتبے کو سمجھنے میں کچھ نہ کچھ مدد ضرور دے سکتی ہے۔ آج ایسا ہی ایک شاگرد خود استاد کے بارے میں کلام کرنے کی جرأت کررہا ہے اور بے اختیار یہ کچھ کہنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔

حصہ