(ابوبکْرؓ کا صحیح تلفظ ڈاکٹر وصفی عاشور ابوزید ترجمہ: (ارشاد الرحمن

1138

آصفیہ بڑی معتبر سمجھی جاتی ہے، لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ صاحبِ فرہنگ نے عیدِ قربان کے معنوں میں عیدالضحیٰ لکھا ہے، جب کہ یہ عیدالاضحی ہے۔ اضحی کا مطلب ہے قربانی۔ اور ضحی کہتے ہیں دوپہر یا روزِروشن کو۔
عیدالاضحی کے موقع پر عزیزم آفتاب اقبال نے اپنے پروگرام میں بتایا کہ عربی میں بکر اونٹ کو کہتے ہیں۔ یہ بالکل صحیح ہے۔ بکر نوعمر اونٹ کو کہتے ہیں۔ البتہ سیدنا ابوبکرؓ کی کنیت کا تعلق اونٹ سے نہیں ہے۔ آفتاب اقبال کی تحقیق کے مطابق چونکہ ابوبکر صدیقؓ کے پاس بہت سے اونٹ تھے اس لیے وہ ابوبکر یعنی اونٹوں والے کہلائے۔ عربی میں بکر کے اور بھی کئی معنی ہیں، مثلاً کسی درخت کا پہلا پھل، پہلی فصل یا نیا دن۔ عربوں میں کل یا آئندہ کے لیے بکُرا کہا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں غیر عربوں نے عربوں کے لیے IBM کی اصطلاح گھڑ رکھی ہے یعنی ان شاء اللہ، بکُرا، معافی۔ کسی کام سے سرکاری دفتر میں جاؤ تو پہلے ان شاء اللہ کہا جائے گا۔ پھر بکُرا یعنی اگلے دن پر ٹال دیا جائے گا اور پھر معافی یعنی معذرت۔ یہی کچھ پاکستانی دفاتر میں بھی ہوتا ہے لیکن معذرت نہیں کی جاتی خواہ ایک دن کیا مہینے گزر جائیں۔ معافی پر یاد آیا کہ عام پاکستانی تو ’ع‘ کا اعلان کیے بغیر ’’مافی‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ ایک پاکستانی حرم میں بیٹھا زور زور سے اللہ مافی کہہ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا کہ ایک عرب مُصر ہوگیا ’’اللہ فی‘‘۔ یعنی اللہ ہے، جب کہ مافی کا مطلب ہے نہیں ہے۔
یہ تلفظ کا مسئلہ ہے۔ ابوبکر صدیقؓ کے نام کا تلفظ بھی صحیح ادا نہیں کیا جاتا۔ آفتاب اقبال بھی ابوبکَر کہہ رہے تھے، یعنی کاف پر زبر۔ عام لوگ اسی طرح یہ نام لیتے ہیں، جب کہ صحیح تلفظ ابوبکْرہے یعنی کاف پر زبر نہیں جزم ہے جیسے قصْر ، بشرطیکہ اسے بھی ’ق۔ صر‘ نہ پڑھا جاتا ہو۔ سرشار صدیقی مرحوم تو ایک محفل میں برہم ہوگئے تھے کہ میرے جد کا نام غلط لیا جارہا ہے۔
تلفظ کا معاملہ گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ خود گمبھیر بھی کہیں گھمبیر لکھا جاتا ہے۔ آج کل سیاست میں جو ’’لپا ڈگی‘‘ ہورہی ہے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک چینل پر بار بار تلْخ کلامی کو تلَخ یعنی ’ت۔لخ‘ کہا جارہا تھا۔ اب اس مصرع کو جانے کیسے پڑھیں گے
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
ممکن ہے یہاں بھی ’ت۔ لخ‘ پڑھا جاتا ہو، وزن کی ایسی تیسی، پڑھنے والا وزنی ہونا چاہیے۔
ایک خاتون بڑے دکھ بھرے لہجے میں پوچھ رہی تھیں ’’کیا قاتلہ فیملی کو انصاف ملے گا؟‘‘ یہ مقتول کے خاندان کے لیے دہرا صدمہ تھا۔ لاہور والے افتخار مجاز کا اس پر تبصرہ ہے کہ خاتون زبان کا بے دردی سے قتل کررہی تھیں۔ زبان کا قتل اتنا عام ہوگیا ہے کہ خون بہا بھی نہیں ملتا۔
اخبارات میں دینی مسائل کے حوالے سے تو استفسارات آتے ہیں جن کا جواب جیّد اور غیر جیّد علما دیتے ہیں۔ ہمیں نجانے کیا سمجھ کر یا بطور امتحان مشکل میں ڈالا جاتا ہے۔ یہ پوچھا گیا ہے کہ ’’کیا یہ فقرہ ٹھیک ہے کہ یہ تحریر 1942ء کی اشاعت میں طباعت پذیر ہوئی؟‘‘
ارے بھائی، ہم 1942ء میں تو پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اس لیے ہم کیا بتائیں۔ بہرحال جن صاحب نے یہ استفسار کیا ہے انہیں خود بھی معلوم ہے کہ جملہ غلط ہے۔ کس کا جملہ ہے اور کہاں شائع ہوا، یہ وضاحت نہیں۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بڑا ادیب ہو اور ہم اسے غلط قرار دے کر ’’شہتیروں کو جپھے‘‘ مارنے کے مرتکب ہوجائیں۔ دینی مسائل میں ایک جملہ خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے سو ہم بھی یہی کرتے ہیں کہ صورت مسؤلہ میں دو نمایاں غلطیاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اشاعت کے بعد طباعت کی ضرورت نہیں، یا پھر اشاعت کی وضاحت کی جائے کہ کس کی اشاعت۔ دوسرے ’’طباعت پذیر‘‘ بجائے خود غلط ہے۔ صرف طبع سے کام چلایا جا سکتا تھا۔ پذیر کی وضاحت پہلے بھی کی جا چکی ہے کہ اس کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ طباعت پذیر کا مطلب ہوا طباعت کی طرف بڑھ رہی ہے جیسے ترقی پذیر۔ آخر میں ہم بھی لکھ دیتے ہیں واللہ اعلم۔
اب ٹی وی ہی کے حوالے سے ایک لطیفہ۔ ایک پروگرام میں میزبان نے حاضرین سے، جن میں زیادہ تر طلبہ تھے، پوچھا ’’گیسوئے تابع دار کو اور بھی تابع دار کر‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ اس پر کوئی جواب نہ آیا تو خود ہی وضاحت کی’’گیسو کہتے ہیں بالوں کو، تابع دار کا مطلب ہے گھنگریالے۔ شاعر کہتا ہے کہ تیرے گھنگریالے بال مجھے بہت اچھے لگتے ہیں، تُو ان کو اور گھنگریالے کر۔ اقبال فہمی کی یہ مثال محض لطیفہ نہیں ہے۔ چینل اور میزبان کا نام کیا لینا۔ یہ تو روز کے قصے ہیں اور برقی ذرائع ابلاغ ہی کیا، ورقی ذرائع ابلاغ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ قصائی میں ص کی جگہ ’س‘ آتا ہے کیونکہ یہ عربی کا لفظ ہے اور اسی سے قساوت یعنی سنگدلی ہے، چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دن پہلے جسارت ہی میں قصاب بھی ’قساب‘ شائع ہوگیا۔ سوچا ہوگا کہ جب قسائی میں ’ص‘ ممنوع ہے تو قصاب میں بھی ایسا ہی ہوگا۔
فی الحال اسی پر گزارہ کر لیں۔

حصہ