(نوجوانوں کے سوالات سید مودی کے جوابات( طاہر مسعود

365

آپ کسی بڑی شخصیت سے عقیدت رکھتے ہوں، اس سے محبت کرتے ہوں تو آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ آپ کے اور اس کے درمیان کے فاصلے طویل سے طویل تر ہوتے جائیں، کیوں کہ نزدیک سے دیکھی جانے والی تصویر میں کہیں رنگ، کہیں لکیر اور کبھی خیال کا نقص سامنے آہی جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملنے سے گریزاں تھا۔ وہ عالمِ اسلام کے ایسے عالمِ دین اور مفسر قرآن تھے، جن کی فکر کے اثرات پوری مسلم دنیا پر مرتب ہوئے تھے۔ ان کی عام فہم، سادہ مگر دل نشیں اسلوب میں لکھی گئی کتابوں نے جدید ذہن کو شدت سے متاثر کیا تھا۔ انھوں نے عہدِ حاضر میں پردہ، سود، ضبطِ تولید، جہاد اور اس جیسے بے شمار مسائل پر احکاماتِ دین کی حقانیت کو عقل سے ثابت کرکے یہ دکھا دیا تھا کہ خدائی احکامات کی تعمیل ہی میں آج کی انسانیت کی نجات مضمر ہے۔ انھوں نے مذہب اور دین کے فرق کو واضح کیا تھا، انھوں نے دین اور شریعت کو ایک دوسرے سے الگ کیا تھا۔ اور یوں انھوں نے ایک مجدد کی طرح دینِ اسلام کو نیا کر دکھایا تھا۔ وہ اولین اسلامی مفکر تھے، جو نفاذِ شریعت اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے سیاسی اقتدار کو ضروری تصور کرتے تھے بلکہ ان کی رائے میں اسلامی ریاست کا قیام ہی مقصودِ دین ہے۔ انھوں نے دین کو ایک مکمل ضابطہ حیات بتلایا اور جدید مغربی دنیا جس نے ’’نظام‘‘ (System) پر اصرار کیا تھا، مولانا نے اپنی تصانیف میں اسلام کے سیاسی نظام، معاشی نظام، اخلاقی نظام کو اس طرح صراحت سے بیان کیا کہ دین کے خدوخال بہ حیثیتِ نظام کے واضح ہوگئے۔ اور معترضین کا یہ اعتراض کہ اسلام جدید دنیا اور جدید مسائل کا حل اپنے دامن میں نہیں رکھتا، رفع ہوگیا۔
مولانا مودودی کے بہت سے عقیدت مندوں کی طرح مولانا سے میرے تعلق کی ابتدا بھی بیزاری و استہزا سے ہوئی تھی۔ جب بھی دوستوں کی محفل میں ان کی ذات اور جماعت موضوعِ بحث بنتی میں اُنھیں برا بھلا کہنے سے باز نہ آتا تھا۔ ایک دن میں یہ’’اہم قومی فریضہ‘‘ انجام دے رہا تھا کہ میرے والد مرحوم، اللہ اُنھیں غریقِ رحمت کرے نہایت امن پسند اور خاموش طبیعت آدمی تھے، انھوں نے مجھے بڑی دردمندی سے روکا اور کہا کہ جس شخص کے بارے میں تمہاری معلومات صفر ہیں اس کے متعلق کیا حق پہنچتا ہے تمھیں کہ غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرو۔ وہ پہلا دن تھا میری زندگی کا، جب مجھے احساس ہوا کہ انسانوں کو سمجھنے، ان کے بارے میں رائے قائم کرنے اور اس کا بے ہنگم اظہار کرنے کے سلسلے میں ہمیں محتاط اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ والد مرحوم کی تنبیہ سے یہ ہوا کہ میں نے مولانا کی کتابوں سے رجوع کیا۔ ان کی پہلی کتاب جو میرے ہاتھ لگی ’’دینیات‘‘ تھی۔ یہ واقعہ مئی 1971ء کا ہے، جب میں میٹرک کا طالب علم اور مرحوم مشرقی پاکستان کے شہر راج شاہی میں مقیم تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کتاب سے پہلی بار مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ بہ حیثیت دین اسلام کیا ہے؟ اور یہ اپنے ماننے اور نہ ماننے والوں سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ آج بھی میں اس کتاب کو اٹھاکر دیکھتا ہوں اور ان فقروں کو جنھیں دورانِ مطالعہ میں نے انڈر لائن (خط کشیدہ) کیا تھا تو مولانا کا ممنونِ احسان ہوتا ہوں جنھوں نے پہلی بار سادہ اور نہایت دل نشیں انداز میں مجھے میرے پیارے دین سے متعارف کرایا۔ اگر مولانا کا لٹریچر میں نے نہ پڑھا ہوتا تو کیا عجب کہ اپنے دین سے بے بہرہ ہوکر ماسکو یا پیکنگ کے انقلاب کو تاریخِ عالم کا عظیم ترین انقلاب سمجھتا اور اُس انقلاب سے واقف ہی نہ ہوپاتا جو میرے دین نے نبیِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے پایاں رحمت و شفقت کے ذریعے انسانی قلوب اور انسانی کردار میں برپا کیا تھا۔ اس اللہ کو کبھی پہچان نہ پاتا جو سارے عالموں کا رب ہے اور جس کی محبت اور خوف ہی انسان کو اپنے محاسبے پر آمادہ کرکے اسے شرفِ انسانیت سے متصف کرتے ہیں۔ اس مطالعے سے یہ ہوا کہ مولانا کے علم اور ان کے اسلوبِ نثر نگاری کا دل فریب نقش قلب و ذہن پر جم گیا۔ پھر ان کی بابت معلوم کیا تو پتا چلا کہ مولانا مودودی ایک بڑے آدمی ہیں۔ معاف کردینے والے، پلٹ کر جواب نہ دینے والے، انسانوں کا احترام کرنے والے، بڑے ظرف کے عالی دماغ اور حوصلہ مند آدمی!
یہ سب کچھ جاننے کے ایک زمانے کے بعد جب میں جامعہ کراچی میں شعبۂ صحافت کا طالب علم ہوا اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی اختیار کی تو جمعیت کے رکن اور میرے سینئر دوست جناب محمود فاروقی نے جمعیت کے اخبار ’’تحریک‘‘ کا مجھے ایڈیٹر بنادیا۔ اگلے ہی برس جمعیت کی یونین کے رسالے ’’الجامعہ‘‘کی ذمہ داری بھی مجھے سونپی گئی۔ یہ بھی فاروقی صاحب کی مہربانی تھی کہ ان کی سعئ مبارک سے اپنی زندگی کا اولین انٹرویو مولانا مودودی کا میں نے کیا۔ مولانا داڑھ کی تکلیف میں مبتلا تھے اور انھیں شاید ڈینٹسٹ کے ہاتھوں اپنے کسی دانت کو داغِ مفارقت بھی دینا تھا، اس لیے بہ ذریعہ خط انھوں نے ایک ہفتے بعد ملاقات کا وقت عطا کیا تھا۔
محمود فاروقی صاحب کی قیادت میں ہم تین دوست مَیں، اظہر نیاز اور یوسف سعید لاہور پہنچے تھے۔ مولانا عصر کی نماز کے بعد اچھرہ میں اپنے مکان کے لان میں عام آدمیوں کے ساتھ بیٹھتے تھے، دور دراز سے آنے والے ان سے مختلف مسائل پر سوال کرتے اور وہ جواب دیتے۔ ہمیں وہاں پہنچنے کے بعد ایسی ہی ایک دو نشستوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ مجھے ذاتی طور پر یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ اتنے بڑے اسکالر کے سامنے کتنے ناسمجھ اور واجبی علم رکھنے والے لوگ بیٹھے تھے۔ وہ انتہائی بچکانہ نوعیت کے سوال کررہے تھے اور ایک آدھ تو محض مولانا کو اپنی آواز سنانے کے لیے مستقل بولے چلے جارہے تھے، جب کہ مولانا اپنے مخصوص دھیمے پن اور صبر و تحمل سے ان کی باتیں سن رہے تھے اور ان کی پیشانی پر اُکتاہٹ کا کوئی تاثر نہ تھا۔
میرے ایک ساتھی نے مولانا سے اسلامی آرٹ اور شاعری کے متعلق چند باتیں پوچھیں جن کا جواب مولانا نے اپنے مخصوص اور مدلل انداز میں دیا۔ ایک بات انھوں نے کہی کہ میں اپنے لکھنے کے ابتدائی دور میں اپنے مضامین کے اندر اشعار کے خاصے حوالے دیا کرتا تھا لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ جیسے جیسے دن گزرتے گئے، میرے مضامین خالص تجزیاتی نوعیت کے ہوتے گئے، اب بھی اگر لکھنے کے دوران بے ساختہ کوئی شعر یاد آجائے تو کوٹ کردیتا ہوں ورنہ باقاعدہ ارادے اور شعوری کوشش کے تحت ایسا نہیں کرتا۔
غالباً فیصل آباد سے نوجوانوں کی کوئی جماعت مولانا سے ملنے آئی تھی۔ وہ ساٹھ ستّر کی تعداد میں تھے، گفتگو ختم ہونے والی تھی کہ ایک لڑکا جو، اب تک خاموش تھا، اٹھ کھڑا ہوا، کہنے لگا:
’’میں اپنے ایک گناہ کا آپ کے سامنے اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ اتنے عظیم آدمی ہوں گے، میں نے آپ کے خلاف اتنی شدید اور نفرت آمیز باتیں کی ہیں کہ بیان نہیں کرسکتا۔ براہ کرم آپ مجھے معاف کردیں!‘‘ مولانا نے جذبات سے عاری لب و لہجہ میں جواباً فرمایا: ’’آپ پریشان نہ ہوں، جو لوگ میری مخالفت کرنے اور مجھے برا بھلا کہنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرچکے ہیں، میں اُنھیں بھی معاف کرچکا ہوں‘‘۔
جب ہم مولانا سے ملنے کے لیے ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو میری آنکھوں نے دیواروں کے ساتھ قطار سے سجی ہوئی الماریوں میں ضخیم مجلد کتابیں دیکھیں، ٹیوب لائٹ کی روشنی کی سنجیدہ فضا میں مولانا اپنی دیرینہ ساتھی کرسی پر اپنے مخصوص باوقار انداز میں بیٹھے تھے۔ یہیں بیٹھ کر نصف صدی تک تلخ و سنگین، خوش گوار اورناگوار ذہنی دباؤ کے ماحول میں انھوں نے اپنی زندگی کے تیس سال پڑھتے، لکھتے اور سوچتے ہوئے گزار دیے تھے۔
انٹرویو ریکارڈنگ کے لیے ٹیپ آن کیا گیا تو مولانا نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا ’’اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’اصل میں ہم اس لمحے کو آواز کی صورت میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں‘‘ میں نے وضاحتاً عرض کیا۔
اُن کی اجازت پر ٹیپ آن ہوگیا اور گفتگو شروع ہوئی۔ جو بات میں نے استعجاب کے ساتھ نوٹ کی، وہ مولانا کا مرتب و منظم ذہن تھا۔ دورانِ گفتگو کوئی فون آجاتا تو وہ ٹیلی فون سنتے اور پھر یہ کہنے کے بجائے کہ ’’ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا‘‘ سلسلۂ کلام کو بنا کسی استفسار کے وہیں سے جوڑ دیتے تھے جہاں سے وہ منقطع ہوا تھا۔ میرا پہلا سوال مولانا کی اوائلِ عمری میں دینی رجحان کی بابت تھا۔ چوں کہ یہ میری صحافتی زندگی کا پہلا انٹرویو تھا، اس لیے مجھے معلوم نہ تھا کہ معاشرے میں جن شخصیات کو برگزیدہ سمجھا جاتا ہے، ان سے کچھ پوچھنے ماتنے کے آداب کیا ہیں، اور اُنھیں مخاطب کرتے ہوئے الفاظ کے چُناؤ میں کتنی احتیاط درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا میں نے نہایت بے تکلفانہ انداز میں آغاز کیا:
’’مولانا! میں گفتگو کی ابتدا آپ کے عہدِ شباب سے کرنا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میں نے مولانا کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے۔ میں گھبرا سا گیا۔ ذہن میں یہی خیال لپکا کہ ’’عہدِ شباب‘‘کی ترکیب کا استعمال مولانا کے شایان شان نہ تھا۔ میں نے فوراً اپنی ہی کہی ہوئی بات چھوڑ کر نئے سرے سے اپنے سوال کو فریم کیا اور پوچھا:
سوال:بنیادی طور پر آپ مذہبی رہ نما ہیں اس لیے میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کا ذہن مذہب کی طرف کیسے راغب ہوا؟
مولانا:جب مجھ میں کچھ شعور پیدا ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہوں، اس لیے مسلمان ہوں۔ یہ بات اپنی جگہ درست نہیں اور نہ ہی یہ کسی دین کے حق و صداقت کی دلیل ہے، کیوں کہ اس طرح اگر میں عیسائی گھرانے میں پیدا ہوتا تو عیسائی ہوتا۔ اس وجہ سے میں نے دوسرے مذاہب کا بھی مطالعہ کیا اور اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ جب میرا پوری طرح سے اطمینان ہوگیا کہ دراصل دینِ حق اسلام ہی ہے تو میں نے پورے شعور کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ میں مسلمان دینِ آبائی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی تحقیق کی وجہ سے ہوں۔ اسی وجہ سے میں نے خود کو نومسلم بھی لکھا ہے۔
سوال:پوری دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی آرہی ہے اور نوجوان، بوڑھی اور پرانی قیادت سے بغاوت کررہے ہیں لیکن ہمارے یہاں معاملہ مختلف ہے، نوجوان اپنے بزرگوں ہی کی قیادت کو پسند کرتے ہیں۔ کیوں؟
مولانا:اصل میں دنیا میں جہاں نوجوان اس طرح بغاوت کررہے ہیں ان کی رفتار، گفتار، کردار ہر چیز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت بھی بگاڑ پیدا کررہے ہیں اور بعد میں بھی بگاڑ پیدا کریں گے۔ صرف یہ بات کہ نوجوان ایسا چاہتے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہ صحیح بھی ہے۔ جو نوجوان بھی صحیح العقل ہوں گے وہ اس بات کو مدنظر رکھیں گے کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے صرف اچھے مقاصد ہی کافی نہیں ہوتے بلکہ تجربہ کاری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ جو قومیں ترقی کررہی ہیں ان کے معاملات کی باگیں سِن رسیدہ اور تجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ جہاں نوعمر لوگ کسی سازش یا کسی بغاوت کے ذریعے سے اپنے ملک کے معاملات پر قابض ہوگئے ہیں وہاں ان کی ناتجربہ کاری اور ناپختگی اپنے بُرے اثرات دکھا رہی ہے۔
سوال:مولانا، ایک طبقے کا خیال ہے کہ چوں کہ ہمارا ملک پس ماندہ ہے، اس لیے اس کے نوجوانوں کو اپنی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ جب کہ سیاست دان نوجوانوں کو اپنی قوت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ آپ کے نزدیک دونوں میں کون سا نقطۂ نظر درست ہے؟
مولانا:یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ طلبہ کو اپنی تعلیم توجہ سے حاصل کرنے اور اپنی قابلیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جن نوجوانوں کو آگے چل کر خود ملک کا انتظام سنبھالنا اور چلانا ہے وہ اس بات سے آنکھیں بند کرلیں کہ ان کے حق میں کانٹے بوئے جارہے ہیں جنھیں آخرکار اُنھیں ہی چننا ہوگا۔ اگر وہ دیکھ رہے ہوں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کا نظام ہے وہ ان کے حق میں کانٹے بونے کا سامان کررہے ہیں، بڑے بے حس اور بے عقل ہوں گے اگر وہ اس طرح کے لوگوں کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہ کریں۔ اس معاملے میں دو چیزیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی کا طلبہ کو اپنا آلۂ کار بنانا اور طلبہ کا ان کے ہاتھ میں آلۂ کار بننا سراسر غلط ہوگا اگر وہ پارٹی اُن پارٹیوں میں سے ہو جو مستقبل کے لیے ان ہی جوانوں کے حق میں کانٹے بونے کی تیاری کررہی ہو۔ آخر نوجوان طلبہ جو اپنے علم کی تکمیل کا ایک حد تک راستہ طے کرچکے ہیں اور جن میں معاملات کو سمجھنے کے لیے شعور پیدا ہوچکا ہے وہ کسی کا آلۂ کار بننے سے پہلے اس بات کو ضرور دیکھیں گے، اور نہیں دیکھیں گے تو غلطی کریں گے۔
(دروازہ کھُلا اور ایک نوجوان داخل ہوا، مولانا اُسے دیکھ کر مسکرائے: ’’کہیے کیا حال ہیں؟‘‘نوجوان جھک کر کچھ باتیں کرتا رہا پھر وہیں بیٹھ گیا۔ یوسف سعید نے آہستہ سے مجھ سے کہا ’’شاید یہ مولانا کے صاحب زادے ہیں‘‘)
سوال:اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بیش تر تعلیمی اداروں میں قیادت کی باگ ڈور اسلامی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے باوجود وہاں مذہبی نقطۂ نظر سے کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی۔ کیوں؟‘‘
مولانا:بات یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاق کو بگاڑنے کا کام جتنے وسیع پیمانے پر ہورہا ہے، اس کے اثرات لامحالہ کچھ نہ کچھ تو عام نوجوانوں پر بھی پڑتے ہیں اور یہ سلسلہ ایک مدتِ دراز سے چل رہا ہے۔ صرف یہ بات کہ ان تعلیمی اداروں کے انتخابات میں اسلامی ذہن رکھنے والے طلبہ کو کامیابی حاصل ہوجاتی ہے بہ جائے خود کافی نہیں، بلکہ ان قیادت کے سنبھالنے والوں کو بڑے پیمانے پر طلبہ کی اصلاحِ حال کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
سوال: لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی ذہن رکھنے والوں کو ایسے افراد سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو اسلام سے محض عقیدتاً اور جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں اور عملاً شعائرِ اسلام کی پابندی نہیں کرتے، جب کہ حقوق العباد کے معاملات ان کے بہتر ہوتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
مولانا:اس کی دو وجوہ ہیں، یا تو یہ کہ وہ علم کے بغیر اسلام کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جذباتی وابستگی ایسے لوگوں میں پائی جاتی ہے جو مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس قسم کی وابستگی اسلام کے لیے اتنا عشق پیدا کرسکتی ہے کہ اس کی خاطر انسان جان دے دے، لیکن اسلام کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے ساری زندگی گزار دینا۔۔۔ یہ ممکن نہیں۔ یا پھر دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک آدمی کو شعور بھی ہے، اسلام کو سمجھتا بھی ہے، لیکن اس کی سیرت میں ایسی کم زوری موجود ہے کہ ایک چیز کو فرض جاننے کے باوجود وہ اسے ادا نہیں کرسکتا۔ ایک چیز کو حرام جاننے اور ماننے کے باوجود اس کا ارتکاب کرتا ہے۔ ان دونوں میں جو صورت بھی ہو، اس میں یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی حقوق العباد ادا کرنے میں پوری طرح راست باز ہوسکے، اس لیے کہ مضبوط سیرت و کردار کا پیدا ہونا صرف خدا اور آخرت پر یقین ہی کے نتیجے میں ممکن ہے۔ جو شخص خدا اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا وہ بعض چیزوں میں حقوق العباد ادا کرے گا اور بعض چیزوں میں حقوق العباد کو پامال کرے گا۔ جہاں کہیں بھی وہ محسوس کرے گا کہ حقوق العباد ادا کرنے میں اسے نقصان سے سابقہ پیش آئے گا وہاں اس کی اخلاقی قوت جواب دے جائے گی۔ ایسی حالت میں حقوق العباد وہی ادا کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ اگر یہاں کسی کا حق مار کر میں دنیا کی گرفت سے بچ جاؤں گا تب بھی یہ عقیدہ اسے ایسا کرنے سے باز رکھے گا کہ مرنے کے بعد اسے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
بعض لوگ اس معاملے میں بعض مغربی قوموں کی مثال پیش کرتے ہیں کہ ان کے ہاں کے معاملات میں بڑی ایمان داری پائی جاتی ہے۔ لیکن وہ نہیں سوچتے کہ اگر واقعی وہ ایسے لوگ ہیں تو وہ قومی حیثیت سے دنیا کی دوسری قوموں کے حقوق کیوں مارتے ہیں اور ستم کیوں ڈھاتے ہیں؟ فرداً فرداً جس قوم کے لوگ ایمان دار ہوں مجموعی طور پر وہ ایک قوم بننے کے بعد بے ایمان کیوں ہوجاتے ہیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کیریکٹر کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
سوال: تحریک اسلامی میں بے شمار طلبہ شامل ہوتے ہیں لیکن آگے چل کر جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو اُن مقاصد کے لیے کام نہیں کرتے جن کے لیے وہ اس میں شامل ہوئے تھے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
مولانا: یہ بات نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ طلبہ کی بہت بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو طالب علمی کے زمانے میں بڑے بلند مقاصد رکھتی ہے اور اچھے ارادے اپنے دل میں پرورش کرتی ہے لیکن جب ان کو تعلیم سے فارغ ہوکر اس سوال سے سابقہ پیش آتا ہے کہ انھیں عملی دنیا میں قدم رکھنا ہے اور اپنے مستقبل کو خود ہی تعمیر کرنا ہے تو اس وقت وہ اپنی اس خیالی دنیا سے نکلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس کے اندر وہ اپنے زمانۂ طالب علمی میں زندگی بسر کررہے تھے۔ اس وجہ سے یہ ممکن تو نہیں کہ وہ سارے کے سارے آگے چل کر تحریک اسلامی کے کارکن بن جائیں، ان میں سے ایک قلیل تعداد ہی ایسا کرتی ہے، لیکن یہ سمجھ لینا صحیح نہیں کہ عملی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ملازمت یا تجارت یا کسی اور کام میں جو لوگ لگ گئے ہیں ان کے دماغ کے وہ خیالات بھی نکل گئے ہیں، جو ز مانۂ طالب علمی میں وہ رکھتے تھے۔ مجھے بہ کثرت ایسے لوگوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے جو پہلے جمعیت طلبہ میں تھے اور بعد میں کسی شعبۂ زندگی سے وابستہ ہوگئے۔ میں نے کم ہی ایسے شخص کو پایا ہے کہ اس کے خیالات بالکل بدل گئے ہوں۔ چوں کہ ان کے ساتھ روابط رکھنے کی کوششیں نہیں کی جارہی ہیں اس لیے یہی گمان پیدا ہوگیا ہے کہ وہ سب لوگ دنیا میں کھو گئے اور اب ان کے خیالات میں ان کے سابق عقائد و افکار کی جھلک باقی نہیں رہی۔
سوال: مولانا، نوجوانوں کا فکری مستقبل آخر کیا ہوگا؟ نوجوانوں کو کون سی اقتصادی ضمانت دی جاسکتی ہے؟ کیا آپ کے ذہن میں کوئی نقشہ موجود ہے؟
مولانا:اقتصادی ضمانت کوئی بھی ایسی حالت میں نہیں دے سکتا، جب تک اسے اقتصادی نظام پر گرفت حاصل نہ ہو، بلکہ جنھیں گرفت حاصل ہے وہ بھی تمام نوجوانوں کو کوئی اقتصادی ضمانت نہیں دے سکتے۔ حقیقت میں صحیح عقیدہ وہی ہے جو کسی اقتصادی نظام کا محتاج نہ ہو اور جو اس یقین پر مبنی ہو کہ ہم جس چیز کو حق سمجھتے ہیں وہ حق ہے اور ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہیے خواہ وہ ہمارے لیے تابناک مستقبل کی ضمانت دیتا ہو یا نہ دیتا ہو۔ جو شخص بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو، وہ تحریکِ اسلامی کے لیے کام نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے یقین شرطِ اول ہے۔
سوال: کیا اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں سے ہی لانا چاہیے؟ جب کہ دوسری نظریاتی تحریکیں ایسی موجود ہیں جنھوں نے قوت اور ہتھیار کو بھی انقلاب لانے کا ذریعہ بنایا؟
مولانا:ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں ہی سے آسکتا ہے، بلکہ جو بات ہم یقین سے سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کسی مصنوعی ذریعے سے اگر کوئی ایسا انقلاب برپا کردیا جائے جس کے لیے معاشرہ ذہنی و اخلاقی حیثیت سے تیار نہ ہو، وہ انقلاب کبھی پائیدار نہیں ہوسکتا اور معاشرے کو تیار کرنا ایک محنت طلب کام ہے۔ ایک اچھی خاصی مدت لوگوں کو اس حق کا قائل کرنے پر صَرف کرنی پڑتی ہے کہ جس حق کو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جب معاشرے کو ایک حد تک تیار کرلیا جائے، اس کے بعد انقلاب برپا کرنے کے لیے ہر وہ تدبیر کی جاسکتی ہے جو جائز بھی ہو اور ان حالات میں کارگر بھی ہو جن میں ہم کام کررہے ہیں۔ اپنے وقت اور اپنے ملک کے حالات کو نظرانداز کرکے کوئی اسکیم نہیں بنائی جاسکتی۔ اور اگر بنائی جائے تو یہ ناکامی پر منتج ہوگی۔
سوال:اسلام اپنی مکمل حالت میں عملاً صرف پندرہ برس خلافتِ راشدہ تک نافذ رہا۔ اکثر ذہنوں میں یہ سوال گونجتا ہے کہ کیا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی آمد، علاوہ ازیں کائنات کی تخلیق سے لے کر اب تک خیر و فلاح کے سارے کام صرف اسی پندرہ سال کے مختصر عرصے کی خلافتِ راشدہ کے لیے انجام دیئے گئے تھے اور جس کے آئندہ بھی نافذ ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے؟
مولانا:اصل میں یہ محدود نقطۂ نظر ہے اس معاملے پر غور کرنے کا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ اخلاقی حُسن اور قبح کے تصورات پائے جاتے ہیں اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے جو صالح اصول نوعِ انسانی کو ملے ہیں وہ آخر کہاں سے آئے؟ ان سب کے پہنچنے کا ذریعہ محض انبیاء ہیں۔ یہ تو بہت بڑی بات ہے کہ کسی نبی کی تعلیم کا اہتمام کسی معاشرے میں کیا جائے اور ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے۔ لیکن جہاں ایسا نہ ہو، وہاں یہ سمجھنا کہ انبیاء کی تمام کوششیں بے کار گئیں، غلط ہے۔ وہ انبیاء کی تعلیمات سے انحراف کی وجہ سے ہے، اور دنیا میں جتنی تعلیم و تہذیب بھی پائی جاتی ہے، وہ ہم تک انبیاء کے ہی ذریعے پہنچی ہے۔
سوال: بعض مفکرین کا خیال ہے کہ آنے والا زمانہ عقائد و نظریات کا زمانہ نہیں ہے بلکہ انسان کے تنظیم سازی کے مسائل اتنے بڑھ جائیں گے اور معاشرتی اداروں کی اہمیت دوچند ہوجائے گی کہ مختلف نظریات رکھنے والے لوگ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر ایک حل پر متفق ہوجائیں گے۔ آپ کی رائے کیا ہے؟
مولانا: یہ خیال دعویٰ ہے، اس کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے، جن لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے یہ ان کا ذاتی نقطۂ نظر ہے۔ ضروری نہیں کہ حقیقت بھی اس کے مطابق ہو۔ اس میں سب سے پہلی بات تو یہی غلط ہے کہ عقائد و افکار کا دور گزر گیا۔ جب تک انسان کے سر میں دماغ ہے اور دماغ میں سوچنے کی قوت موجود ہے اُس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں۔ اور پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ حل کیا ہوگا جس پر سب متفق ہوجائیں گے؟ آیا یہ ان کا نظریہ ہے یا وہ کوئی واقعہ بیان کررہے ہیں۔ بنیادی بات یہ کہ انسان تنظیم کے اثر میں آکر نہیں سوچتا بلکہ تنظیمات اس کے زیراثر ہوتی ہیں۔ جب تک انسان، انسان ہے، اُس وقت تک ممکن نہیں کہ خیالات و افکار میں کامل یکسانی پیدا ہوجائے اور لوگوں میں اختلافِ خیال باقی نہ رہے۔ جس وقت ایسی صورت پیدا ہوگی اُس وقت انسان کے بجائے کوئی اور مخلوق کام کرنا شروع کردے گی۔
سوال: آپ نے اپنی کتاب ’’تجدید و احیائے دین‘‘ میں ابتدا سے لے کر شاہ اسماعیل شہید تک کی اسلامی تحریکوں کا جائزہ لیا ہے اور ان کی ناکامی کے اسباب بیان کیے ہیں، اگر آپ کے نزدیک کامیابی کا معیار رضائے الٰہی کاحصول ہے تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے رضائے الٰہی نہیں حاصل کی؟
مولانا:کامیابی اور ناکامی کا لفظ ہم مختلف معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی گروہ جس مقصد کے لیے کام کررہا ہے، وہ اس میں کامیاب ہوجائے، کامیابی کا یہ ایک مفہوم ہے۔ کامیابی کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے جو ذمہ داری سونپی گئی ہو، اس کو پورا کرنے میں ہم کوئی کوتاہی نہ برتیں۔ اس طرح سے جو گروہ بھی رضائے الٰہی کو پیش نظر رکھ کر اپنے معاشرے اور ماحول کو اسلام کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے اٹھتا ہے، اس کی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے اور فطرتاً ہونی چاہیے کہ جس اصلاح کے لیے وہ کوشش کررہا ہے، وہ عملاً رونما ہوجائے۔ اس غرض کے لیے یہ ضرور دیکھنا ہوتا ہے کہ جو تدابیر اختیار کی گئی ہیں، ان میں کوئی ایسی خامی تو نہیں ہے جو اصلاح کے مقصد کو پورا کرنے میں مانع ہے۔ اس لیے ہم تاریخ کا مطالعہ کرکے یہ کوشش کرتے ہیں کہ پہلی تحریکوں میں اگر تدبیر کے لحاظ سے کوئی خامی نظر آئے تو اس سے بچیں۔
(الجامعہ۔ جامعہ کراچی،1978ء،
عقاب، نومبر 1979ء)
nn

حصہ