بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر

211

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس امریکی شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر میں منعقد ہورہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف بھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ ویسے تو اقوام متحدہ کے سالانہ سربراہی اجلاس کو تقریری مقابلے سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل نہیں کیونکہ فیصلہ کن ادارہ سلامتی کونسل ہے، جہاں پانچ بڑی طاقتوں کو حقِ تنسیخ (ویٹو) حاصل ہے۔ اس اختیار نے جمہوریت کے عَلم برداروں کے جمہوریت کے دعوے پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ اقوام عالم کے اداروں کے فیصلے جمہوری بنیادوں پر کیوں نہیں ہوتے اور قوموں کے درمیان برابری اور مساوات کے تصورات کہاں چلے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا نظام بھی اس بات کی علامت ہے کہ فیصلوں کی بنیاد نہ حق و انصاف ہے اور نہ ہی اکثریت و اقلیت، بلکہ طاقت اصل فیصلہ کن عامل ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف ایک ایسے عالم میں اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے گئے ہیں جب پاکستان کے گرد بیرونی خطرات بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ ان خطرات کا سبب پاکستان اور اس کے گرد تیزی سے پیدا ہونے والی تبدیلیاں ہیں، لیکن ان تبدیلیوں کا گہرائی سے تجزیہ کیا ہی نہیں گیا ہے۔ عالمی حالات میں تیزی سے تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کا ایک مرکز افغانستان ہے۔ افغانستان پر امریکہ نے نائن الیون کے پُراسرار واقعے کے بعد قبضہ کیا تھا لیکن وہ اپنی تاریخ کی طویل ترین اور مہنگی ترین جنگ کے باوجود اپنی فتح کا اعلان نہیں کرسکا۔ دوسری طرف جنرل (ر) پرویزمشرف کے فیصلے نے دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ کے نام پر امریکی خفیہ ایجنسیوں کو رسائی دے دی۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت بڑھتی چلی گئی۔ آج دہشت گردی، سیاست اور جرائم کا گٹھ جوڑ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس نے پوری قوم کو اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ عسکری و سیاسی قیادت نے کھل کر اعلان کردیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ملوث ہے۔ یہ وہ بات ہے جس کی طرف محب وطن قومی رہنما جنرل پرویزمشرف کے زمانے سے حکمرانوں کو متوجہ کرتے رہتے تھے کہ پاکستان کے خلاف امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا ’’ٹرائیکا‘‘ وجود میں آچکا ہے، لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ پاکستان کی داخلی سیاسی تشکیل میں بھی بیرونی طاقتوں نے کھل کر مداخلت کی۔ اس مداخلت کی سب سے بڑی علامت ’’این آر او‘‘ کا سیاہ معاہدہ ہے جس نے کرپشن اور بدعنوانی کو سیاسی اور قانونی جواز عطا کردیا۔ بیرونی مداخلتوں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ بھاری اکثریت سے منتخب ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نوازشریف نے یہ عجیب و غریب اعلان کیا کہ انہیں پاکستان کے عوام نے بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے منتخب کیا ہے۔حالانکہ اس دوران میں بھارت میں انتہا پسند اور مسلم دشمن بی جے پی برسراقتدارآگئی تھی۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی پر گجرات کے مسلمانوں کے قتلِ عام کا الزام تھا جس کی وجہ سے انہیں امریکہ جانے کی اجازت نہیں تھی، لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے عَلم برداروں نے اپنے پُراسرار اور مخفی عزائم کی وجہ سے نریندر مودی کے جرائم سے آنکھیں بند کرلیں۔ امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں ایسی رسائی دے دی جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں سے لے کر کراچی تک کا امن برباد ہوگیا، لیکن نہ جانے کن پوشیدہ مصلحتوں اور مفادات کی بنا پر وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنی زبان بند رکھی۔ امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہر پاکستانی کو نظرآرہا تھا۔ ساتھ ہی پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جس جنگ کو چھیڑ دیا گیا اُس کے اسباب اور نتائج سے بھی پاکستان کے حکمراں طبقے نے آنکھیں مسلسل بند کی ہوئی ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی ناکامی نے دنیا میں طاقت کے توازن کو تبدیل کردیا اور طاقت کے نئے مراکز وجود میں آگئے۔ تزویراتی اہمیت کے حامل خطے مشرق وسطیٰ کے نئے نقشے کی تشکیل کی خواہش نے عالمِ عرب میں آگ لگادی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگئی۔ اس اہمیت کا ایک سبب یہ ہے کہ عالمی سیاست میں چین کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ چین اور پاکستان کی دوستی ہر امتحان پر پوری اتری ہے۔ پاکستان نہ صرف جوہری طاقت ہے بلکہ عالم اسلام کا قائد بن کر بھی ابھر کر آیا ہے۔ عالمی اقتصادیات کا مرکز ایشیا منتقل ہوچکا ہے۔ اس وجہ سے امریکہ نے نے بھارت کو خصوصی کردار دے دیا ہے۔ اس پس منظر میں تسلسل سے بھارت امریکی شہ پر پاکستان کا گھیراؤ کررہاہے، لیکن پاکستان کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمرانوں میں جس بصیرت کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہوسِ اقتدار اور دولت رکھنے والے ضمیر فروشوں کو سیاسی زندگی میں طاقت حاصل ہوگئی۔ طاقت کی پرستش کو حکمت عملی سمجھنے والے قوم کی رہنمائی نہیں کرسکتے۔ اس وقت ملکی یک جہتی اور اتحاد کی جتنی ضرورت ہے اتنی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ایک طرف پاکستان کے لیے امکانات کی دنیا وسیع ہے، دوسری طرف چھوٹے ذہن رکھنے والی مفاد پرست قیادت ہے جس کی وجہ سے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ کیا ہماری سیاسی قیادت بے معنی بحثوں سے بلند ہوکر ملت کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرسکتی ہے!

حصہ