(اخبار ادب ( ڈاکٹر نثار احمد نثار

344

معروف شاعر رئیس فروغ کے صاحب زادے طارق رئیس نے اپنی رہائش پر اپنے والد کے لیے ادبی ریفرنس منعقد کیا اور مجموعہ کلام ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی تقریب رونمائی کا اہتمام بھی کیا۔ تقریب کی صدارت پروفیسر اشتیاق طالب نے کی۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی مہمان خصوصی تھے جب کہ حنیف عابد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ رئیس فروغ کے فن اور شخصیت پر گفتگو کرنے والوں میں صابر وسیم‘ معراج جامی‘ سرور جاوید‘ نوخیز انور صدیقی‘ شہاب الدین شہاب اور انور جاوید ہاشمی شامل تھے۔ حنیف عابد نے اس موقع پر کہا کہ رئیس فروغ کی شاعری قیامت تک زندہ رہے گی وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے ان کے بہت سے اشعار حالتِ سفر میں ہے اور زبان زدِعام ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’رات بہت ہوا چلی‘ کئی برس پہلے شائع ہوچکا تھا اب ان کے صاحبزادے نے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا ہے لیکن رئیس فروغ کا بہت سا کلام ابھی کتابی شکل میں چھپنے کا منتظر ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کا باقی ماندہ کلام بھی شائع کیا جائے۔ پروگرام کے تمام مقررین نے رئیس فروغ کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کیا ان کا کہنا تھا کہ رئیس فروغ بہت اہم شخصیت تھے انہوں نے زندگی بھر علم و ادب کی خدمت کی انہوں نے بہت محنت کی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کی وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے لیکن انہوں نے نظمیں‘ قطعات اور گیت بھی لکھے۔ رئیس فروغ مضمون نگار اور مترجم بھی تھے انہوں نے افسانے اور ڈرامے بھی لکھے۔ انہوں نے بچوں کا ادب بھی تخلیق کیا بچوں کے لیے ان کی نظموں کا مجموعہ ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ شائع ہوا۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا ان کے کلام میں بہت خوبیاں ہیں وہ ایک زندہ دل انسان تھے ان کی وفات اردو ادب کا بہت بڑا نقصان ہے۔ مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ رئیس فروغ کا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام ایک کتابی شکل میں شائع کیا جائے ان کے فن اور شخصیت پر پی ایچ ڈی کیا جانا چاہیے اگر یہ کام نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ کراچی یونیورسٹی کا شعبہ اردو اپنا حق ادا نہیں کر رہا یہ کراچی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ رئیس فروغ اتنی اہم شخصیت تھے کہ ہم انہیں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ صاحبِ صدر پروفیسر اشتیاق طالب نے کہا کہ رئیس فروغ‘ دنیائے اردو کے تابندہ ماہتاب تھے ان کی روشنی نے علم و آگہی کے باب کھولے انہوں نے ہمیشہ سچ بولا ان کے کاٹ دار جملے لوگوں کے دلوں میں اتر جاتے تھے وہ مشاہدے اور مطالعہ کی بنیاد پر بات کرتے تھے ان کی شاعری دلوں کو چھوتی ہے وہ ایک صاحبِ اسلوب شاعر تھے ان کی نرم گفتگو‘ دھیما پن لوگوں کو متاثر کرتی تھی۔
اس موقع پر رئیس فروغ کے کچھ اشعار رئیس احمد فاروقی نے سنائے جنہیں سامعین نے بہت سراہا۔ یہ ایک کامیاب محفل تھی جس کے حاضرین میں پروفیسر سحر انصاری‘ نورالہدیٰ سید‘ صفدررضی صدیقی‘ جاوید صبا‘ نوید عباس‘ سیمان قیصر‘ منور فاروق احمد‘ نوشاد احمد‘ بشیر نازش‘ سعید آغا‘ محسن سلیم‘ ڈاکٹر عبدالمختار‘ اقبال خورشید‘ آفتاب مضطر اور حفیظ انصاری شامل تھے اس موقع پر بزم رئیس فروغ کی جانب سے پروفیسر سحر انصاری کی ادبی خدمات کے تناظر میں شیلڈ پیش کی گئی۔ راقم الحروف کے نزدیک رئیس فروغ کے صاحبزادے طارق رئیس نے اپنے کلام کے کام کو آگے بڑھایا بلاشبہ وہ قابل مبارک باد ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیئم عطا فرمائے اور ان کے والد کو جنت الفردوس میں جگہ دے‘ آمین۔
۔۔۔*۔۔۔
کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں آزاد خیال ادبی فورم کا مذاکرہ اور مشاعرہ منعقد ہوا۔ حیات رضوی امروہوی نے صدارت کی۔ سرور جاوید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ’’افسانے کی جمالیات‘‘ مذاکرہ کا موضوع تھا جس پر سرورجاوید نے ایک طویل لیکچر دیا جس کا لب ولباب یہ تھا کہ ناول‘ انشائیہ ڈراما‘ تنقید نگاری‘ افسانہ اور فکشن کے زمرے میں آتے ہیں جو چیزیں افسانے کو افسانہ بناتی ہیں وہ افسانے کی جمالیاتی کہلاتی ہیں۔ کہانی اور افسانے میں فرق یہ ہے کہ کہانی میں واقعات ترتیب وار بیان کیے جاتے ہیں۔ کہانی میں کوئی واقعہ بیان کیا جاتا ہے جب کہ افسانے میں کسی معاشرتی مسئلہ کو فوکس کیا جاتا ہے اس میں کہانی ترتیب نہیں ہوتی کبھی کبھی افسانہ نگار کرداروں کو موضوع بنا کر افسانہ لکھتا ہے اور کبھی وہ پوری بستی کو اپنے افسانے میں فوکس کرتا ہے۔ افسانے کا مین تھیم یہ ہے کہ افسانہ نگار کوئی تاثر قارئین تک پہنچانا چاہتا ہے افسانے اور کہانی میں بڑا فرق ہے۔ افسانہ نگار کسی واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے جس طرح اس نے محسوس کیا ہے۔ افسانہ نگار اپنے محسوسات لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ افسانہ نگار کی خوبی یہ ہے کہ اس کے تخلیق کردہ کردار نیچرل معلوم ہوں۔ افسانہ نگار کا مطالعہ اور مشاہدہ افسانے میں نظر آتا ہے افسانہ نگار سب سے پہلے اپنے کرداروں کو فوکس کرتا ہے مثلاً وہ کسی کردار کو غمگین دکھانا چاہتا ہے تو افسانہ نگار‘ اداس ماحول کو تربیت دے گا اگر وہ اپنے کردار کو خوش و خرم دکھانا چاہتا ہے تو وہ خوش گوار ماحول کے اعتبار سے جملے ترتیب دے گا۔ سناریو افسانے کا آغاز کہلاتا ہے۔ تجسس اور تحیر کے بغیر افسانہ کامیاب نہیں ہوگا اگر آپ کو پہلا پیرا گراف پڑھ کر یہ پتا چل جائے کہ افسانے کا انجام کیا ہوگا‘ تو ایسا افسانہ ناکام افسانہ ہے ایک اچھا افسانہ نگار اپنے قاری کو ٹرانس میں رکھتا ہے وہ سسپنس برقرار رکھتا ہے۔ افسانے میں ایک مقام نصف النہار کہلاتا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب یہ واضح ہوجائے کہ افسانہ نگار کیا کہنا چاہتا ہے تو افسانے کو ختم کر دینا چاہیے مزید آگے بڑھانے سے افسانے کا حسن خراب ہوجائے گا ہر کامیاب افسانہ نگار نصف النہار پر پہنچ کر اپنا افسانہ End کر دیتا ہے۔ افسانے کی جمالیات میں یہ بھی شامل ہے کہ اپنے اظہار میں عریاں نہیں ہوتا لیکن غیر محسوس طریقے سے قاری یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ بعض اوقات افسانہ نگار پوری سوسائٹی کو آئینہ دکھاتا ہے اس عمل کو فین ٹی سی کہتے ہیں کبھی افسانہ نگار اپنی داخلی کیفیات کو افسانے کا موضوع بناتا ہے اور کبھی کبھی اپنے مشاہدات کو افسانے کا محور بناتا ہے۔ افسانہ نگار کی اپنی تخلیقی قوت ہوتی ہے کہ وہ اپنے افسانے کے کرداروں کو اور کہانی کو کس طرح ٹریٹ کرتا ہے ہر زمانے میں افسانے کی ضروریات بدلتی رہتی ہیں لیکن افسانے کی بنیادی تھیم نہیں بدلتی مثلاً ایک افسانے کی خوبیاں کیا ہوتی ہیں اس کا خیال رکھے بغیر کوئی افسانہ کامیاب نہیں ہوتا۔ مذاکرے میں حصہ لینے والوں میں مجید رحمانی‘ عدالغفور کھتری‘ احمد سعید فیض آبادی‘ پروفیسر اوسط جعفری‘ وارث خاں‘ افتخار حیدر اور احمد صغیر صدیقی شامل تھے اس موقع پر احمد صغیر صدیقی نے کہا کہ میں سرور جاوید کے بیان کردہ جمالیات سے متفق نہیں ہوں ’’افسانے کی جمالیات‘‘ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر بحث کے لیے علیحدہ سے ایک سیشن ہونا چاہیے اور اس بحث میں شرکت کے لیے اہم افسانہ نگاروں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ صاحب صدر نے اپنے خطبے میں کہا کہ ایک افسانہ بیانیہ ہوتا ہے اور ایک افسانہ علامتی کہلاتا ہے دونوں کا لطف اپنی جگہ پر ہے ہر افسانہ نگار کا اپنا اسلوب ہوتا ہے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی افسانہ نگار کئی کئی افسانے لکھ رہا ہوتا ہے تو ہر افسانے میں اس کا طرز تحریر‘ انداز بیان بدل جاتا ہے یہ ضروری نہیں کہ ہر افسانے نگار کا ہر افسانہ لوگوں کو متاثر کرے لوگوں کی اپنی ڈیمانڈ ہوتی ہیں وہ اپنی مرضی کے موضوعات پڑھتے ہیں۔ اس دور کے بعد مشاعرے کا آغاز ہوا‘ مشاعرے کی صدارت اور نظامت میں کوئی فرق نہیں آیا یعنی مشاعرے کے صدر حیات رضوی امروہوی تھے اور سرور جاوید نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر جن لوگوں نے اپنا کلام سنایا ان میں حیات رضوی امروہوی‘ سرور جاوید‘ احمد صغیر صدیقی غلام علی وفا‘ احمد سعید فیض آبادی‘ حامد علی سید‘ علی اوسط جعفری‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ قادر بخش سومرو‘ سیف الرحمن سیفی‘ سخاوت علی نادر‘ جمیل ادیب سید‘ توقیر تقی‘ عباس ممتاز‘ عارف شیخ‘ تنویر سخن‘ عمر برناوی‘ یوسف اسماعیل‘ تاج علی رانا‘ سلمان ثروت‘ نعیم سمیر‘ دلاور علی آذر‘ افتخار حیدر‘ محسن سلیم‘ وارث علی خاں‘ احتساب عامر‘ آصف علی آصف اور ذوالفقار حیدر پرواز شامل تھے۔ مشاعرے میں تقدیم و تاخیر کے مسائل سامنے آئے جس پر جمیل ادیب سید نے صدر مشاعرہ کی توجہ مبذول کرائی جب کہ قادر بخش سومرو نے اپنی غزل سنانے سے پہلے تقدیم و تاخیر کے مسئلے پر گفتگو کی جو کہ ان کا استحقاق نہیں تھا۔ صاحبِ مشاعرہ کو اس موقع پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا مگر وہ خاموش رہے۔ سرور جاوید نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ جونیئرز کو ہمیشہ پہلے پڑھوایا جاتا ہے انہوں نے اپیل کی تمام لوگ وقت مقررہ پر آیا کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ مشاعرے میں پانچ سامعین بھی موجود تھے۔
۔۔۔*۔۔۔
معروف شاعر اور ٹی وی اینکر سلمان صدیقی نے کہا کہ ادب میں تنقید کا لفظ اپنے عام فہم مطلب ’’نکتہ چینی‘‘ کے طور پر استعمال نہیں ہوتا بلکہ تنقید کا مطلب ہے کہ کسی فن پارے کے اسرار و رموز‘ خوبیاں اور خامیاں بیان کرنا۔ تنقید نگار کسی بھی تخلیق کو تنقیدی رویوں سے گزار کر اس تخلیق کے ادبی معیار کا تعین کرتا ہے۔ تنقید لکھنا خود ایک تخلیقی وصف ہے یا نہیں‘ اس موضوع پر اختلاف رائے کی گنجائش نکل سکتی ہے لیکن اعلیٰ درجے کی تنقید‘ ادب کی تفہیم و ترویج اور ارتقا کے لیے آکسیجن ہے۔ انتہائی دیانت داری اور غیر جانب داری‘ تنقید نگاری کا اہم وصف ہے اس وصف کی پاسداری کے لیے ادب پروری کے سچے جذبات کی ضرورت ہے۔ تنقید نگار کا کام ہے کہ وہ کسی بھی تخلیق کی تہہ داریوں کو کھول کر‘ تخلیق کے پوشیدہ محاسن کو نمایاں کرکے سب کے سامنے پیش کرے ادب پروری کے اس بلند مرتبے پر فائز صرف وہ افراد ہوسکتے ہیں جو ادب کی آفاقی اہمیت کا ادراک رکھتے ہوں اس کردار کے لیے بے لوث کمٹمنٹ ضروری ہے۔ دنیا کے کسی بھی ادب‘ کسی بھی زبان کے ایسے کمٹمنٹ کے حامل تنقید نگاروں کے بغیر کوئی ادب فروغ نہیں پاسکتا بدقسمتی سے ہمارے ملک کا تنقید نگاری کا شعبہ مختلف وجوہات کی بنا پر عالمی منظر نامے میں وہ جگہ نہ پاسکا جس کا وہ مستحق تھا۔ تنقید کا ڈھانچہ بنیادی طور پر فلسفے کی آمیزش سے تشکیل پانے والے عالمی افکار اور نظریات سے عبارت ہے یہ افکار انسانی شعور کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور مختلف نام اور شکلیں اختیار کرتے ہوئے ادب کی تفہیم پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں روشن خیالی‘ وجودیت‘ فردیت‘ تشکیل رد‘ تشکیل‘ ساخیات‘ پسِ ساخیات‘ جدیدیت‘ مابعدِ جدیدیت وغیرہ یہ تمام افکار عالمی سطح پر متعارف ہوئے اور ہر زمانے میں موضوع بحث رہے۔ ان کے فوائد و نقصانات کا جائزہ لیا گیا۔ ان علمی و فکری کاوشوں کے پس منظر میں چند ذہین و فہیم شخصیات موجود تھیں جنہوں نے تنقیدی رویوں میں بھی مثبت تبدیلی کی۔
دنیا کے دوسرے علوم کی طرح تنقید کے عالمی شعور کا ادراک رکھنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ موجودہ دور میں دنیا سمٹ کر کمپیوٹر کی اسکرین پر آگئی ہے جس کو ہم گلوبل ویلج بھی کہہ سکتے ہیں اس لیے ہر ملک و قوم کی تہذیب و ثقافت ہمارے مطالعے میں آگئی ہے اور ترقی یافتہ ممالک کے جدید علوم سے ہم استفادہ کر رہے ہیں اس حوالے سے دنیا میں متعارف ہونے والا کوئی تنقیدی تصور ہمارے لیے اہمیت کا حامل ہے ہم اس تنقیدی تصور سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس کے ضمن میں کسی ترقی یافتہ زبان کے طاقت ور محرکات کی نشان دہی کرنا اور اس مفید تنقیدی نظریات سے اپنی زبان کے لیے تازہ لسانی اور فکری اوصاف وضع کرنا ادب کے نقادوں کی ذمے داری ہے۔ ادب کا ارتقا صرف تخلیقی سطح پر نثری یا شاعرانہ تخلیقات پیش کر دینے سے ممکن نہیں ہے بلکہ جس طرح کسی ملک و قوم کی ترقی کا انحصار عالمی سطح پر سائنس‘ تجارت اور صنعت و حرف وغیرہ میں وقوع پذیر ہونے والی تازہ اصلاحات‘ تشکیلات اور ایجادات سے توانائی حاصل کرنے میں مضمر ہے اسی طرح کسی زبان اور اس کے ادب کی تعمیر و ترقی کی رفتار بھی عالمی ادب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے فکری محرکات اور مباحث کے مثبت اثرات کی آگاہی سے بڑھائی جاسکتی ہے۔ زندہ زبانیں اپنی ثقافتی اور تہذیبی روایتوں سے تشکیل پانے والے نظریات کے ساتھ ساتھ ہم عصر ترقی یافتہ زبانوں سے بھی مروج ادبی نظریات کے مثبت اثرات کو بھی اپنے اندر جذب کرتی ہیں جس طرح وہ مختلف زبانوں کے نامانوس الفاظ کو پرکھنے کے بعد اپنے اندر اس طرح سمو لیتی ہیں کہ وہ الفاظ انہی زبانوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ارتقا کے لیے ہمیں علوم کے ساتھ ساتھ فنون میں تجربات کرنے ہوں گے ادب میں عموماً اور اس کے تنقیدی ڈھانچے میں خصوصاً تمام علوم ایک دوسرے سے زنجیر کی کڑیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور ادب کی زندہ تنقید ہمیں راہ نمائی فراہم کرتی ہے۔ ادب‘ تمام علوم کا سرخیل ہونے کے وجہ سے معاشرے اور سماج کا لائحہ عمل متعین کرتا ہے لہٰذا ہمیں اردو ادب کے پلیٹ فارم سے بین الاقوامی رویوں اور رجحانات میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے تنقید کے منجمد پیمانے توڑ کر اپنی تازہ کاری اور نوپسندی کا ثبوت دیتے ہوئے تنقید کے شعبے میں سنجیدہ نوعیت کے ایسے سوالات بھی اٹھانے ہوں گے جو عالمی تنقیدی رویوں کے پس منظر میں تاریخی حقائق اور مستقبل میں ادب کے تنقیدی ڈھانچے کے لیے فکری خصائص سمیٹے ہوئے ہوں۔
اس وقت معاشرہ عالمی سطح پر مادیت کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ اقتصادی معاملات تہذیبی اخلاقی اور نظریاتی اقدار پامالِ ہورہی ہیں اس پریشان کن صورت حال سے نمٹنے کے لیے ادب ہی واحد ہتھیار ہے‘ جو قومیں اپنے شاعروں اور ادیبوں کو نظر انداز کرتی ہیں وہ ترقی نہیں کر پاتیں۔ ادب میں تنقید نگاری کا عمل ادب کی تطہیر کا سبب ہے ہمیں موجودہ تنقیدی رویوں کے ساتھ انسانی اور اخلاقی اقدار کا پرچم بلند کرنا ہے عالمی صداقتوں اور آفاقی سچائیوں کو روشن رکھنے کے لیے تنقید کے نئے پیمانے و

حصہ