حج

287

اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے حجِ بیت اللہ فرض کردیا ہے جو وہاں تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اسلام کا پانچواں رکن حج ہے، جو شخص صاحبِ استطاعت ہو یعنی اپنے اہل وعیال اور زیرکفالت اشخاص کی جملہ ضروریات پوری کرنے کے بعد سفرِ بیت اللہ کا متحمل ہو اُس پر لازم ہے کہ وہ ایام حج میں اللہ تعالیٰ کے گھر جاکر متعلقہ مناسک ادا کرے۔ حج کے لغوی معنی ارادہ کرنے کے ہیں اور شریعت کی روشنی میں حج اُس عبادت کو کہتے ہیں جس میں بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ جو شخص بھی مال، صحت اور حج کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ صاحبِ استطاعت ہے ضرور حج کرے۔
حج کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ حج اسلام کا اہم ترین رکن ہے۔ یہ عبادت اور تربیت کی سب سے آخری اور اہم کڑی ہے۔ اس میں نماز کا خشوع و خضوع، روزے کا صبر اور زکوٰۃ کا ایثار پایا جاتا ہے۔ بندۂ مومن جب مناسکِ حج کی ادائیگی میں محبت کے جذبات سے سرشار ہوکر ان مقاماتِ ابراہیم علیہ السلام کو دیکھتا ہے تو اس کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور عمل کے عزم سے جب وہاں کی روحانی یادگار ساتھ لاتا ہے اور اپنی زندگی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق گزارنے کا پختہ ارادہ کرلیتا ہے تو واقعتا اس کی زندگی میں اسلام کا رنگ اور ایک بڑا انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص اس گھر کعبہ کی زیارت کو آیا اور اس نے نہ شہوت کی کوئی بات کی اور نہ خدا کی نافرمانی کا کوئی کام کیا تو وہ اپنے گھر کو اس حالت میں لوٹے گا کہ جس حالت میں اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (حدیث مبارکہ)
عازمِ سفرِ حج، ایامِ حج میں اللہ تعالیٰ کے گھر جاکر متعلقہ مناسک ادا کرے۔ حج میں احرام باندھنا، احرام کے احکامات کی پابندی کرنا، بیت اللہ شریف کا طواف کرنا، صفا و مروہ کی سعی، بال کٹوانا، منیٰ میں حاضری، وقوف عرفات اور مزدلفہ میں قیام جیسے مناسک حج میں شامل ہیں۔ مناسکِ حج کی ادائیگی میں ہر ہر مرحلے پر اللہ کی رضا، جنت کی طلب، گناہوں کا اعتراف، توبہ و استغفار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حق دار بننے کے لیے اللہ کو منا لینا ہی حج مبرور کا مقصد اور منزل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’حج کا بڑا ثواب ہے۔ اور فرمایاکہ حج مبرور کی جزا جنت ہے۔‘‘
حج ایک عالمگیر اجتماع اور پوری اُمت کے لیے ہمہ گیر عبادت ہے۔ اہلِ ایمان علاقوں، رنگ، نسل، قبائل و برادریوں سے بالاتر ہوکر ایک طرز کے احرام میں ملبوس اور ہر حج کرنے والے کا ایک ہی اعلان، ایک ہی اقرار ہوتا ہے کہ ’’اے میرے اللہ، حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، یقیناًتعریف سب تیرے لیے ہے، نعمت سب تیری ہے اور ساری بادشاہی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔ ماہِ رمضان تقویٰ کا موسم اور اہلِ ایمان میں تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ اسی طرح حج کا مہینہ پوری دنیا میں اسلام کی زندگی اور بیداری کا زمانہ ہے۔ ان شاء اللہ قیامت تک بیداری، تقویٰ، اللہ تعالیٰ سے رجوع کی یہ عالم گیر تحریک اور عظیم اجتماع قائم و جاری رہے گا۔ اسلام کی عالم گیر تحریک مٹ نہیں سکتی۔ دنیا کتنی ہی بے راہ روی پر چلی جائے، اعمال میں جتنی ہی خرابی و کمزوری آجائے، لیکن کعبہ اللہ کی کبریائی کا مرکز انسانی جسم میں دل کی طرح اہلِ ایمان کے سینوں میں دھڑکتا اور سلامت رہے گا۔ وحدتِ ملّت کا پُرکیف نظارہ، دنیا بھر کی قوموں سے نکلے ہوئے لوگوں کا ایک مرکز پر اجتماع دنیا بھر کی اسلام مخالف قوتوں کو دہلا دیتا ہے۔ حج کی عبادت قیام امن کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اللہ نے اہلِ ایمان کے ذریعے دنیا کو ایک ایسا حرم دیا ہے جو قیامت تک کے لیے امن کا شہر ہے۔ شعائرِ اسلام کے اس عظیم رکن کی نعمت انسان کو کہیں اور کسی مذہب میں نہیں مل سکتی۔
حج کے موسم میں یہ تصور اور نظارہ کیا ہی بھلا ہے کہ مشرق سے، مغرب سے، جنوب و شمال سے ان گنت قومیں اور لاتعداد ممالک کے لوگ ہزاروں راستوں اور ذرائع نقل وحمل سے ایک ہی مرکز اللہ کے گھر کعبۃ اللہ کی طرف چلے آتے ہیں۔ لیکن دورِ حاضر میں مقبوضہ کشمیر، فلسطین، شام، عراق، یمن، افغانستان، برما، مصر اور بنگلہ دیش سمیت افریقی ممالک میں جاری خون ریزی اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے قریب ہونے والے دہشت گردی کے دل خراش واقعہ نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو لرزا دیا ہے۔ عالم اسلام پر مسلط جارحیت، دہشت گردی، عسکری و تہذیبی یلغار، صہیونیت، برہمن سامراج اور امریکا و مغرب کی سوچی سمجھی سازشیں کرب واضطراب کا باعث ہیں۔ اسلام اور شعائرِ اسلام دشمن، قرآن و سنت سے بے زار قوتیں مشترکہ ہدف رکھتی ہیں کہ اسلام بحیثیت نظام اور ایک اکائی متحد نہ رہے اور اسلام ایک با حیاء تہذیب کی حیثیت برقرار نہ رکھ سکے۔ اہلِ ایمان کو رنگ و نسل، علاقائی اور لسانی تعصبات، مسالک کی تقسیم اور فحاشی و بے حیائی کی نذر کردیا جائے۔
حج کے ایام میں سفرِ حج، اخراجاتِ حج، قربانی کے جانور کے حوالے سے معاشرے میں غربت اور مفلسی کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا پر بڑی معصومانہ، شعائرِ اسلام بیزار مہم چلائی جارہی ہے، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نمائش، فیاضی، دکھاوے اور نام وری کی تمام رسوم کو ختم کردیا۔ قربانی کے حوالے سے قرآن مجید میں حکم آگیا کہ اللہ کو ان جانوروں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ تمہاری پرہیزگاری و خدا ترسی پہنچتی ہے۔ اللہ کے نام پر جانور ذبح کیے جائیں تاکہ خوشحال لوگوں کی قربانی سے غریب، مستحق، مفلس لوگوں کو بھی کھانے کا موقع مل جائے۔ قرآن مجیدکے ذریعے اللہ کا حکم ہے کہ ’’اور کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو، اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ قربانی صاحبِ استطاعت کے لیے لازم ہے۔ اس میں سے خود بھی کھائیں، عزیز و اقارب کو بھی کھلائیں اور خصوصاً وہ لوگ (سفیدپوش) جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اُن کو بھی اللہ کی اس نعمت اور انعام میں شریک کیا جائے۔ عید والے دن قربانی کے عمل سے زیادہ کوئی عمل اللہ کے نزدیک محبوب نہیں۔ ’’اس جانور کو قیامت کے دن سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت لایا جائے گا یعنی تولا جائے گا اور اللہ اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے قبول فرما لیتے ہیں، لہٰذا خوش دلی سے قربانی کرو۔‘‘ (ترمذی: 1493)
حضرت علیؓ کا ارشاد ہے: جو شخص قدرت وطاقت کے باوجود حج نہیں کرتا وہ خواہ یہودی ہوکر مرے، یا عیسائی ہوکر مرے۔ حضرت عمرفاروقؓ فرماتے ہیں: میرا ارادہ ہے کہ اپنے کارندوں کو ملک کے اطراف کی طرف بھیج کر اُن لوگوں کا پتا کروں کہ جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے تاکہ اُن پر جزیہ مقرر کردوں، ایسے لوگ مسلمان نہیں (سنن سعید بن منصور)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، حج بیت اللہ اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (بخاری شریف :8) حدیث قدسی ہے کہ جس بندے کو میں نے جسمانی صحت اور روزی میں وسعت دی ہے وہ پانچ سال گزرنے کے باوجود بھی میرے پاس نہیں آتا تو وہ محروم ہے۔ حج اور عمرے کے نتیجے میں انسان کا نفس گناہوں کے اثرات سے پاک ہوجاتا ہے اور روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے اعزازات حاصل کرنے کا اہل اور مستحق بن جاتا ہے۔ سفرِ حج میں اہلِ ایمان کے لیے مدینہ منورہ کی جانب سفر، مسجدِ نبوی میں عبادت اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ی و سلام، ایمان اور عشق کے جذبوں کا عروج ہوتا ہے۔ مدینہ منورہ کو حرم نبویؐ، دارالہجرت اور مقام نزولِ وحی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اللہ کریم ان ایام حج کو حجاج کرام کے لیے حج مبرور و قبول اور پوری اُمت کے لیے امن، سلامتی، محبت واتحاد کا ذریعہ بنادے، آمین۔
nn

حصہ