گولین تحریک کے کارکنان کی برطرفی اسباب و وجوہات

428

(ڈاکٹر خلیل طوقار(استنبول

15 جولائی 2016ء کی رات ترکی میں ترک عوام نے ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندگی اور موت کی جنگ لڑی اور یہ قوم اِس جنگ سے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے کامیابی سے نکل گئی۔ اِس جنگ کے فسانۂ غم ہم سنا سنا کے روئے، مگر روتے ہوئے بھی ہمارے سر فخر سے بلند تھے، کیونکہ اِس قوم کے بہادر اور نڈر نہتے عوام نے اپنے سامنے کھڑی باغی فوج کو، جس کے پاس عصر حاضر کے جدید ترین ہتھیار موجود تھے، اپنے ایمان کی قوت سے ہرا دیا۔ اس رات اللہ تعالیٰ نے اِس ملک کے عوام کے دلوں سے خوف و ہراس کو بالکل اٹھا لیا اور ان غداروں کے دلوں میں خوف و ہراس کی لہریں دوڑا دیں۔ کیونکہ یہ قوم اپنے سامنے ان غداروں کے ٹینکوں کے نیچے آکر ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے بے چاروں کو یعنی اِس قوم کے شہیدوں کو دیکھ کر بھی نہیں ڈری اور ان باغیوں پر حملہ کرتی رہی۔ مگر وہ ملک و قوم کے دشمن باغی اپنے ٹینکوں کے ناکارہ ہونے کے بعد جب باہر نکلنے پر مجبور ہوئے تو ڈر کے مارے کانپ کانپ کر رو رہے تھے کہ ہمیں معاف کردیں، ہم اپنے کمانڈروں کے احکامات کی تعمیل کررہے تھے!
16 جولائی 2016ء کی رات کو ترکی میں جو خونیں بغاوت ہوئی اب اِس میں کسی شک و شبہ تک کی گنجائش نہیں رہی کہ اس کے پیچھے امریکا کے معزز و محترم مہمان فتح اللہ گولین کارفرما ہیں جنھوں نے اپنے مہماندار ملک کے مالکوں کے حقِ مہمانداری کی ادائیگی یا ان کے دلوں کو مسرت سے لبریز کرنے کے لیے، یا شاید اپنے آقاؤں کا حکم بجا لانے کے لیے ترک فوج اور پولیس میں موجود اپنے کارکنوں کو جو سالوں سے اِس ایماء کے لیے چشم براہ تھے، ترکی میں بغاوت شروع کرانے کا حکم جاری کیا۔ اِس حکم کی تعمیل کے لیے ترکی فوج میں موجود امریکا کے اِس عزیز مہمان کے کارکن جن کی ذہن سازی سالوں سے گولین کے اسکولوں، خدمت تحریک کے اماموں کے حلقۂ درس و تدریس یا نورخانوں میں ہورہی تھی، انھوں نے 16 جولائی 2016ء کی رات کو آنکھ جھپکے بغیر احتجاجی ترک عوام کے قتل عام کا سلسلہ شروع کیا۔ مگر فتح و نصرت مظلوموں کو حاصل ہوئی۔ اِس بغاوت کی ناکامی کے بعد گرفتار ہونے والے فوجی جنرلوں نے گولین تحریک سے اپنے روابط کا اعتراف کیا۔ پھر امریکا کے عزیز مہمان نے اپنے انٹرویوز کے ذریعے اِس جرم سے انکار کرتے ہوئے بھی اِس خونیں بغاوت میں شرکت کرنے والوں کے ساتھ اپنی ہمدردی اور حمایت کا اظہار کرکے ترک عوام کو دھمکیاں اور بددعائیں دے کر اِس جرم کا اقرار کیا، اور پھر مزید برآں امریکا کے جنرلوں نے یہ اعلان کیا کہ ترکی میں ’’ہمارے دوستوں‘‘ یعنی باغی جنرلوں کی گرفتاری ہورہی ہے جس کی وجہ سے ہم سخت مایوس ہیں۔ خیر، صدر رجب طیب اردوان کی سخت تنقید اور ردعمل کے بعد وہ لوگ اپنی باتوں سے مکرگئے، مگر بات تیر کی طرح ہوتی ہے، ایک دفعہ کمان سے نکل گئی تو پھر وہ واپس نہیں آتی۔ جب کہ فتح اللہ گولین حقِ مہمان نوازی ادا کررہے ہوں تو اِن کارآمد عزیز مہمان کے لیے مہمان پروری کا جوہر کیوں نہ دکھایا جائے؟
اب میں قارئین کرام سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ایک پل ٹھیریں اور آگے پیچھے تمام سنی سنائی باتوں، اور بالخصوص اپنے اپنے ملکوں کے تجزیہ کاروں کے مغربی میڈیا اور خدمت تحریک کے مبلغوں کی کامیابی سے پڑھی پڑھائی باتوں کے سحر میں آکر لکھے گئے تجزیوں اور تبصروں کو ایک طرف کرکے ذرا سوچیں کہ ایک ملک جس میں ایک بیرونی ملک میں مہمان ایک شخص کے حکم سے اُس ملک کی فوج کا ایک اہم ٹولہ بغاوت کرے اور وہ لوگ احتجاجی لوگوں کا قتل عام شروع کرادیں اور پھر بغاوت کی رات باغی کمانڈروں کے حکم سے فوج کے اسپیشل فورس کے بہترین سپاہیوں کے چالیس افراد پر مشتمل ایک ٹولہ صدر مملکت کو قتل کرنے کی غرض سے ان کے ہوٹل پر قاتلانہ حملہ کرے اور پھر ان کے پاس سے ایک لسٹ برآمد ہو جس میں صدر مملکت کے ساتھ، وزیراعظم اور ترکی گورنمنٹ کی دیگر اہم ہستیوں کے نام لکھے ہوں جن کے لیے باغیوں نے ’جہاں ملیں وہاں ختم کیے جائیں‘ کا حکم بھی جاری کیا ہو، اِس بدترین صورت حال کو دیکھ کر اس ملک کی حکومت کیا کرے؟
کیا وہ حکومت ان سب باغیوں کی آؤ بھگت کرکے ان سے گلے لگے گی کہ شاباش میرے بیٹو! آپ سب نے فوجی بغاوت کرکے اور نہتے عوام کے خون سے سڑکوں کو نہلاکر بڑا کارنامہ انجام دیا؟ کیا اِس قسم کے نامعقول برتاؤ کی دنیا کی کسی بھی حکومت سے توقع کی جاسکتی ہے؟
ظاہر ہے اِس کا جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اِس طرح کی کوئی بغاوت ہو تو اس کی روک تھام کے لیے اربابِ اقتدارکو سخت اقدامات کرنے ہی ہوتے ہیں، اور اکثر ملکوں میں ردعمل میں باغی انتقامی کارروائیاں شروع کراتے ہیں جن کی وجہ سے سیکڑوں یا ہزاروں افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اب بچے بچے کو علم ہے کہ انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے امریکا اور مغربی ممالک نے نائن الیون کے واقعے کے بعد نہ صرف اپنے ملکوں کے اندر بلکہ تمام دنیا میں ایک ’’دہشت گردوں‘‘ کا شکار شروع کرایا جس کی وجہ سے افغانستان، یمن اور عراق میں لاکھوں بے چاروں کا خون بہایا گیا۔ پھر امریکا جو دنیا کی پہرے داری کرکے حق و انصاف بانٹنے کا مدعی ہے، کیا اس میں سیاہ فام لوگ برسر عام امریکن پولیس کے ہاتھوں قتل نہیں ہوتے؟ وہ بھی صرف اِس شبہ میں کہ شاید اُن کے پاس پستول یا کوئی اور اسلحہ ہو!
جب امریکا یا مغرب کا کوئی دوسرا ترقی یافتہ، انسانی حقوق کا عَلم بردار ملک (!!!؟) خواہ غیر انسانی کیوں نہ ہو، ایک ایسا اقدام کرے تو تمام مغربی میڈیا اور مشرق میں اُن کے ہمنوا صحافی اِس کے لیے جواز نکال ہی لیتے ہیں اور اس کو حق بجانب ٹھیراتے ہیں، مگر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان یا ترکی حکومت اپنے ملک و ملت کی حفاظت کے لیے کوئی بھی قدم اٹھائے تو مغرب سے لے کر مشرق تک، (کہتے ہوئے مجھے بہت افسوس اور دلی دکھ ہوتا ہے مگر ترکی کے دوست اور برادر ملک پاکستان میں بھی) ایسی نامعقول احتجاجی آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ خدا کی پناہ! جیسے ایک ہی چشمہ سے نکلنے والے پانی کی طرح سب کا رنگ ڈھنگ اور ذائقہ ایک ہے کہ ’’یہ رجب طیب اردوان کا تیار کردہ ایک ڈراما ہے، یہ رجب طیب اردوان کی انتقامی کارروائی ہے، اور یہ رجب طیب اردوان کی اپنے اقتدار کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے کی ہوئی ایک سازش ہے، اور ترکی حکومت جو حفاظتی اقدامات کررہی ہے وہ سب رجب طیب اردوان کی آمریت کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہیں!‘‘ یہ سب محیرالعقول اور بے بنیاد الزامات ایسے ایسے پڑھے لکھے اور تجربہ کار افراد کے منہ سے سنائی دے رہے ہیں کہ اگر میں ترکی میں سالوں سے ہونے والے واقعات کا چشم دید گواہ نہ ہوتا تو شاید ان الزامات کی سچائی پر یقین کرلیتا۔ میں فرصت ملنے پر اپنے پیارے تجزیہ کار اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے لیے ’’آمریت کا مفہوم اور اردو میڈیا میں پھیلائی ہوئی غلط تشریحات‘‘ سے متعلق ایک مضمون لکھوں گا، مگر وہ بعد کی بات ہے، اور فی الوقت اِس سے زیادہ اہم موضوعات موجود ہیں۔
اب آئیے دیکھتے ہیں ترکی حکومت نے کیا کیا اقدامات کیے جن کی وجہ سے مغربی حکومتیں اور میڈیا اور اردو میڈیا کا ایک اہم گروہ ترکی حکومت اور جناب رجب طیب اردوان کو مورد الزام قرار دیتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ کہ ترکی حکومت نے اورنہ ہی ترکی کے عوام نے کوئی انتقامی کارروائی کی ہے۔ فوجی باغیوں نے ساٹھ ستّر پولیس اہلکاروں اور تقریباً ایک سو ستّر عام شہریوں کو وحشیانہ انداز میں قتل کیا، اِس کے باوجود گرفتار ہونے والے باغیوں میں سے کسی ایک کو بھی نہ مارا گیا، نہ ہی ان پر تشدد کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ فوجی باغیوں میں سے صرف چوبیس پچیس لوگ مارے گئے، وہ بھی پولیس اہلکاروں اور حکومت کے حامی فوجیوں سے جھڑپوں میں، نہ کہ گرفتار ہونے کے بعد۔ گرفتار ہونے والے فوجیوں میں سے کچھ فوجیوں کو مارا پیٹا گیا ہو تو یہ الگ بات ہے، مگر اپنے یار دوستوں کو بے رحمانہ انداز میں قتل ہوتے ہوئے دیکھ کر لوگ ان کا اجتماعی قتل بھی کرسکتے تھے۔ لیکن پولیس اہلکاروں اور باشعور شہریوں نے حملہ کرنے والوں کو منع کیا کہ یہ وطن کی اولاد ہیں!
پچھلے ہفتے مغربی ممالک کے آلۂ کار انسانی حقوق کے ایک بین الاقوامی ادارے نے عجلت میں ایک رپورٹ شائع کی کہ گرفتار فوجیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے، ان کو دو دن میں ایک بار کھانا دیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ جنسی بدسلوکی کی جاتی ہے۔ امریکا کی ہر بدسلوکی سے چشم پوشی کرنے والے اِس ادارے نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ہمارے پاس سیکڑوں تصویریں موجود ہیں۔ ماشاء اللہ ایک دو دن میں ترکی کی جیلوں سے سیکڑوں تصویریں وصول کرنے والے اِس ادارے کو (جیسے وہ کسی بہت ہی بااثر خفیہ ایجنسی کا ایک پرزہ ہے) شاید یہ علم نہیں کہ ترک پولیس اور فوجی امریکن فوجی نہیں۔ جنسی بدسلوکی، عصمت دری یا آبرو ریزی کا تعلق اِس قوم سے نہ ماضی میں رہا، نہ آج ہے، اور ان شاء اللہ نہ ہی مستقبل میں ہوگا۔ فوجی بغاوت میں شامل عام سپاہیوں اور ترکی فوجی ہائی اسکول یا کیڈٹ اسکولوں کے طالب علموں کو پوچھ گچھ کے بعد ایک دو دن میں رہا کردیا گیا، کہ عسکری تعلیم کے زیراثر رہ کر وہ اپنے کمانڈروں کے احکامات کی تعمیل کررہے تھے۔ اگر یہ لوگ کسی اور ملک میں ہوتے تو ان کو اِس آسانی سے رہا کردیا جاتا؟ یہاں ظلم و تشدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن جس طرح ہمارے ہاں کہتے ہیں: ’’مجرم دوسروں کو بھی اپنی طرح مجرم سمجھتا ہے‘‘۔ شاید وہ بین الاقوامی ادارہ بھی اِسی غلط فہمی میں مبتلا ہوگا!
ترکی کی منتخب حکومت نے جو اقدامات کیے اُن کی فہرست کچھ یوں ہے:
ترکی فوج میں 149 جنرل، 1099 افسر اور 436 پیٹی افسر اور عدالت میں 2745 جج اور سرکاری وکیل اور عدالتِ عظمیٰ کے 188 اراکین یا تو برطرف کردیے گئے یا تحقیقات کے خاتمے تک معطل کردیے گئے۔
16 ٹی وی چینل، 3 نیوز ایجنسیاں، 45 اخبار، 23 ریڈیو چینل، 15 مجلے اور 29 پرنٹنگ پریس، 15 یونیورسٹیاں، 934 تعلیمی ادارے اور 35 ہسپتال یا ڈسپنسریوں میں سے کچھ بند ہوئے، کچھ سرکاری اداروں میں ضم کیے گئے یا ان کو سرکار کی نگرانی میں دے دیا گیا۔
ترکی کی وزارتِ عظمیٰ سے لے کر وزارتِ تعلیم اور وزارتِ داخلہ تک مختلف وزارتوں کے پچاس ہزار سرکاری ملازم یا تو برطرف کردیے گئے ہیں یا معطل۔
اِس طرح ترکی کی چار یونیورسٹیوں کے ریکٹر یا چانسلر گرفتار ہوئے اور مختلف یونیورسٹیوں کے نو سو اساتذہ یا ملازم معطل کردیے گئے ہیں، جن میں سے ابھی تک چالیس پچاس افراد گرفتار ہوئے ہیں۔ ترکی کی تمام فیکلٹیوں کے ڈین صاحبان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ تمام لوگ، ادارے یا تنظیمیں براہ راست یا بالواسطہ اِس خونیں بغاوت کے ذمہ دار ہیں۔ وہ جو براہ راست اِس بغاوت میں شامل تھے اور جنھوں نے نہتے لوگوں کے قتل عام میں حصہ لیا تھا وہ تو گرفتار ہوئے، اور ان میں سے اکثر و بیشتر فوجی اور پولیس کے غدار اہلکار ہیں۔ وہ جو جج اور سرکاری ملازم ہیں ان میں سے کچھ پکڑے جانے والے گولین تنظیم کے اہم ملزموں کو اِس جنگ کے دوران بھی رہا کروانے والے ہیں یا جن کے باغی فوجیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے مبینہ ثبوت ہیں اور بغاوت کی کامیابی کی صورت میں مختلف اہم عہدوں کے لیے جن کی تقرریاں طے ہوگئی تھیں۔گرفتار ہونے والے صحافی تو صرف سات ہیں جن کا امریکا کے پیارے مہمان سے براہِ راست رابطہ ہے، اور وہ جو تین چار سالوں سے لوگوں کو حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے اکسانے والی تحریریں قلم بند کررہے تھے یا پھر ترکی کی قومی سلامتی کے لیے اہم فوجی یا سرکاری معلومات کو غیر ملکی ایجنسیوں کو پہنچارہے تھے۔
(جاری ہے)
یونیورسٹیاں تو میرے ہی سامنے ہیں کیونکہ میں بھی یونیورسٹی کا استاد ہوں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے تمام ڈین صاحبان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ اِس لیے کیا ہے کہ اگر ان کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے برطرف کردیا ہوتا تو قانون کی رو سے ان کی بحالی ناممکن تھی۔ اگر وہ خود مستعفی ہوگئے تو بعد میں ان کی اپنے عہدے پرتقرری کا امکان ہے۔ اِس طرح یونیوسٹیوں سے معطل ہونے والے اساتذہ بھی دو دو ماہ کے لیے معطل کردیے گئے ہیں اس دوران ان کو اپنی تنخواہ کا دو تہائی حصہ ملتا رہے گا۔ اگر تحقیقات کے بعد وہ بے گناہ ثابت ہوں گے تو ان کی بحالی ہوگی اور اگر اِس بغاوت میں کسی طرح سے بھی ملوث ثابت ہوں گے تو تب ان کی برطرفی عمل میں آئے گی۔ اگر یہ کوئی انتقامی کارروائی ہے تو جب بہت سے ملکوں میں عام انتخابات کے بعد اقتدار کے ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں منتقلی کے ساتھ ہی نئی حکومتیں سرکاری اداروں میں اِس سے زیادہ تبدیلیاں کرکے مختلف اداروں میں اپنی پارٹی کارکنوں کو بھرتے ہیں تاکہ وہ ملک کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے سکیں۔
ترکی میں ایک خونی بغاوت ہوئی ہے، ڈھائی سو شہری شہید ہوئے ہیں اور دو ڈھائی ہزار زخمی ہیں اور غداروں نے صدر اور وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ کیا ہے، اِس بغاوت کی ناکامی کے بعد ترکی حکومت نے کچھ ضروری حفاظتی اقدامات کیے۔
ترکی میں بر طرف اور معطل ہونے والوں کی اِس تعداد کو دیکھ کر باہروالے سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں کہ یہ کیا چکر ہے اور اِس تعداد کی برطرفی کیوں ہورہی ہے؟ میں ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تعداد کم بھی ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو تقریباً تیس چالیس سالوں سے ترکی کے سرکاری اور غیرسرکاری جسم میں ایک مہلک وبا کی طرح پھیل چکی ہے جس کا علاج بہت ہی مشکل ہے۔ اِس سے ایک ماہ قبل ترکی میں صورتحال کو دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ شاید اِس کا علاج ناممکن ہے۔ کیونکہ گولین تنظیم یا خدمت تحریک کی شاخیں ترکی کی تمام وزارتوں میں اور عدالت سے لے کر فوج تک کے تمام اداروں میں ایسے جڑ پکڑلی تھیں کہ ان کو دیکھ کر دل ہی دل میں میں کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے صدر کی مدد کرے کیونکہ وہ کچھ نادان لوگوں کے گھیرے میں ہیں۔ یہ بات نہ صرف میں بلکہ بہت سے شہری پوچھ رہے تھے کہ یہ کیا چکر ہے۔ 15 جولائی 2016ء کی رات کے بعد اب اِس میں کوئی شک نہیں رہا کہ ترکی کے عوام اپنے خیالات میں کس قدر حق بجانب تھے۔ کیونکہ سرکار کے کچھ لوگ براہ راست اِس بغاوت میں شامل ہوئے، کچھ لوگ اپنے مفادا ت اور اپنے اپنے عہدوں کے تحفظ کی خاطر اِس تحریک کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کرتے رہے تھے، کچھ لوگ اِس تنظیم کی طاقت اور اثر رسوخ سے خائف ہوکر خاموشی اختیار کرلیتے تھے اور کچھ لوگ صدر اور منتخب حکومت کے وفادار ہونے کے باوجود دوسرے گروہوں کے فریب میں مسحور آنے والی قیامت کا پتہ نہیں چلا سکے۔
میں ایک پروفیسر ہونے کی حیثیت سے پھر دہراؤں گا کہ یونیورسٹیاں اور علمی و فنی ادارے میرے در پیش ہیں۔ اِس تحریک کے لوگ یونیورسٹیوں میں جہاں کسی عہدے پر فائز ہوئے وہیں صرف اپنے ہی لوگوں کو بھرتی کرنے لگے۔ ہماری یونیورسٹی میں جب ان میں سے ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مدیر ہونے والے صاحب نے مدیر ہونے کے بعد اس انسٹی ٹیوٹ کی تمام اسامیاں اپنے والوں میں تقسیم کیں۔ اِس طرح کئی شعبہ جات میں صدر شعبہ ہونے پر ان لوگوں نے اپنے ہی لوگوں کو رکھنا شروع کیا۔ پھر آپ سوچئے جہاں جہاں وہ لوگ چانسلر اور وائس چانسلر بنے وہاں کی اکثر و بیشتر اسامیوں کے حقدار کون کون لوگ ٹھہرایے گئے؟ ان میں سے ایک صاحب کی تقرری ترکی کے سب سے اعلیٰ علمی اور تحقیقی کونسل کے مدیر کی حیثیت سے ہوئی تھی تو انھوں نے کونسل میں چائے بنانے والے ملازموں تک کو نکال کر اپنی ہی تحریک کے لوگوں کو نکالے ہوئے لوگوں کی جگہ بھرتی کر لیا۔ باقی!!! باقی آپ ہی سوچئے کہ یہ تحریک کس طرح ترکی میں جائز یا ناجائز طریقے سے پھیلتی گئی۔
مسئلہ ایسا پیچیدہ اور راز اندر راز ہے کہ اگر اِس تحریک کے طریق کار اور ہربوں کی تفصیل لکھنے لگیں تو ایک نہیں کئی جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ہی بن جائے۔ اِس لیے آخر میں میں ترکی فوج کی بر طرفیوں کی جانب آنا چاہوں گا۔
ترکی فوج میں 149 جنرل، 1099 آفسر اور 438 پیٹی افسر بر طرف کیے گئے اور ان میں سے اکثر گرفتار ہوئے۔ اِسی طرح فوجی اسکولز یعنی ایک طرح کے اکثر و بیشتر طالب علم نے بھی اِس بغاوت میں شامل ہونے کی کوشش کی مگر ترکی کے غیور عوام نے اِن اسکولوں کو گھیرے میں لے کر انھیں اپنے اپنے اسکولوں میں بند کررکھا اور باہر نکلنے نہیں دیا۔ اِس طرح ایف 16 کے کئی پائلٹ بر طرف ہوئے۔
واضح رہے کہ فوج کا یہ کثیر تعداد کا باغی ٹولہ ترکی لشکر کے سیکولر عناصر پر مشتمل نہیں تھا۔ کیونکہ اِس مرتبہ ترکی کے سیکولر عناصر اور کمانڈرز نے بھی اِس بغاوت کے خلاف منتخب ترکی حکومت کا ساتھ دیا جن میں آرمی چیف آف سٹاف خلوصی آکار صاحب اور بحری، برّی اور ہوائی فورسز کے کمانڈر بھی موجود ہیں۔ اِن لوگوں کے سیکولر نہ ہونے کا ثبوت اِس امر سے بھی ملتا ہے کہ ترکی کی سیکولرازم کی محافظ پارٹی بھی اِس بغاوت کے خلاف تھی اور فوجی جنرلوں اور افسروں کی بر طرفی کے حق میں تھی۔ یہ لوگ ترکی قوم پرست پارٹی کے کارکن بھی نہیں تھے۔کیونکہ ترکی قوم پرست پارٹی کے لیڈر نے 15 جولائی کو وزیر اعظم کے ٹی وی پر بیان کے ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ وہ اور اْس کی پارٹی اِس بغاوت کی سخت مذمت کرتی ہے اور ہمارے صدر کے عوام کو سڑکوں پر بلاتے ہی قومی پارٹی کے کارکن احتجاجوں میں آگے آگے تھے۔ پھر یہ افسر اْن کے بھی پیرو نہیں تھے۔
اب اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ یہ گولین دہشتگرد تنظیم کے کارکن تھے۔ ویسے بھی گرفتار ہونے والے جنرلوں اور افسروں نے بھی اِس کا اقرار کیا اور امریکا کے وفادار مہمان کے وفا شناس میزبان ایک امریکن جنرل نے یہ اعلان کیا کہ ترکی میں ہمارے دوستوں کی گرفتاریاں ہورہی ہیں!
جبکہ گولین تحریک اور اِس خونی بغاوت میں ملوث فوجیوں کا تعلق اظہر من الشمس ہوا تو میں اب اپنے قارئین کرام سے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ چیونٹی کو مرتے دیکھ کر رونے والے ایک رحم دل قائد (؟) جن کو ان کے پیروکار مہدء زمانہ سمجھتے ہیں اور جہاں بھی اِس تنظیم کے امام تقریر کریں وہیں بین المذاہب ہم آہنگی اور بھائی چارہ، دنیا میں صلح و آشتی یا ’’صلح کْلّ‘‘ کی باتیں کرتے ہیں، اِس کثرت کے ساتھ ترکی فوج میں کیا کرتے ہیں؟ کیوں ’’صلح کْلّ‘‘ کے اِن مبلغین نے ترکی فوج میں تقریباً تیس چالیس سال سے جائز یا ناجائز ہر قسم کے طریقے استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا؟ میں ناجائزی کی اور تیس چالیس سال کا ذکر اِس لیے کرتا ہوں کہ کل ہی ایک ٹی وی پروگرام میں ایک ریٹائرڈ آرمی وکیل کو سن رہا تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ بذات خود انیس سو چھیاسی (1986ء) میں انھوں نے گولین تنظیم کے کارکنوں کی جانب سے کیڈٹ اسکولوں کے امتحانی سوالات کی چوری ہونے کے ثبوت ملنے پر مقدمہ دائر کرانے کی کوشش کی لیکن اس وقت کسی نے بھی اِس طرف توجہ مبذول نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم آخری دس سالوں کا بھی حساب لگالیں تو کم از کم چالیس پچاس ہزار فوجی اسکول کے طالب علم اِس تنظیم سے منسلک ہیں اور یہ پچاس ہزار کیڈٹ اسکولوں کے طالب علموں کے اسی فی صد کے برابر ہے۔ اِس خونی بغاوت کے دوران کیڈٹ اسکولوں کے طالب علموں کی اِس بغاوت میں شمولیت کی ناکام کوشش بھی اِس امر کا ثبوت ہے کہ وہ ریٹائرڈ سرکاری وکیل کے بیانات سو فی صد سچ ہیں۔ اب ترکی میں تمام فوجی ثانوی اسکولز یا کیڈٹ اسکول بند کیے جائیں گے۔
ویسے بھی ترکی فوج کے سیکولر عناصر2012ء میں ’’ایرگینیکون‘‘ نامی مقدمے کے ساتھ ہی بر طرف کیے گئے جن میں پرانے آرمی آف اسٹاف جنرل ایلکیر باشبوغ اور دیگر جنرل بھی شامل تھے۔ پھر تحقیقات کے بعد ترکی حکومت کو یہ علم ہوا کہ یہ مقدمہ گولین تنظیم کی سازش تھی اور عدالت کو جعلی کاغذات اور گواہ پیش کیے گئے تھے تو وہ سب جنرل تمام الزامات سے بَری ہوئے اور رہا کردیے گئے۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ اس مقدمے کے سرکاری وکیل ذکریا اوز بھی اِس سازش میں ملوث تھا تو وہ گرفتار ہونے سے پہلے ملک سے باہر فرار ہوگیا۔ اب قارئین کرام یہ سوچ سکتے ہیں کہ سیکولر افسروں کی بر طرفی سے گولین تنظیم کے جنرلوں کو کیا ملا؟ ملا تو جنرل اور دیگر اہم رینکوں کے عہدے! کیونکہ عسکری قوانین اور رینک کے مطابق ترقی ملنے والے نظام کی رو سے اگر سیکولر جنرل بر طرف نہ کیے جاتے تو ناکام فوجی بغاوت کے کمانڈر کبھی بھی اِن عہدوں پر فائز نہیں ہوپاتے اور ریٹائر ہوجاتے۔
ترکی میں گولین تحریک کے متعلق مسائل ایسے پیچیدہ اور تہہ اندر تہہ ہیں جس کے بیان کے لیے لکھنے بیٹھوں تو یہ ’’دستان امیر حمزہ‘‘ سے بھی طویل ایک داستان بن جائے۔
الغرض جنرل اور افسر گرفتار ہوئے یا برطرف کیے گئے کیونکہ ان لوگوں نے ترکی کے منتخب حکومت کو معدوم کرنے کے لیے بغاوت کی اور ترکی عوام کا قتل عام کیا۔
ٹی وی چینل، پبلشر اور ریڈیو چینل بند کیے گئے کیونکہ وہ لوگ کم سے کم تین چار سالوں سے ترکی عوام کو صدر مملکت اور ترکی کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرانے کے لیے جھوٹی خبروں سے گمراہ کررہے تھے۔
میڈیا سے متعلق لوگ جو کہ صرف سات افراد گرفتار ہوئے وہ بھی نہ صرف ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں ترکی کی حکومت کے خلاف پروگرام کررہے تھے بلکہ مغربی میڈیا اور حکومتوں سے ترکی سے متعلق اہم ترین سیکریٹ معلومات کو شیئر کررہے تھے۔
گولین اسکول اور تعلیمی ادارے وزارت تعلیم میں ضم کیے گئے کیونکہ اِن میں بچوں کی برین واشنگ ہورہی تھی۔
گولین تحریک سے متعلق ہسپتال اور ہیلتھ سینٹرز وزارت صحت میں ضم کیے گئے کیونکہ ان میں غیر قانونی کاموں کے ساتھ اِس تحریک کے لیے مادی مدد فراہم کررہے تھے۔ یہاں قارئین کرام سے اِس تنظیم کے ڈاکٹروں تک کی غداری کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ فوجی بغاوت کی رات ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں لوگ زخمی شہریوں کو جھڑپ کے موقع پر بالکل پاس طرغوت اوزال ہسپتال پہنچانے لگے تو گولین تنظیم کے اِس ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ہسپتال کی لائٹیں اور دروازے بند کرکے زخمیوں کا علاج کرنے سے انکار کردیا۔ بغاوت کے بعد جب ان کو بر طرف کردیا گیا تو وہ لوگ ہسپتال سے نکلتے ہوئے تمام طبی مشینری خراب کرکے ہسپتال سے نکل گئے۔
ترکی کے منتخب صدر نے اور ترکی کی منتخب حکومت نے اپنے ملک اور اپنی قوم کے تحفظ کی خاطر کچھ لوگوں کے مطابق ’’بہت رحم دلی سے‘‘ اقدامات کرنے لگی۔ ترکی حکومت کو یہ اقدامات کرنے ہی تھے اگر وہ یہ اقدامات نہ کرتی تو ترکی کے عوام اپنی حکومت کو کبھی معاف نہیں کرتے۔
آخر میں ان تمام تجزیہ کار صحافی دوستوں سے یہ سوال کرنا چاہوں گا جو ماشاء اللہ ایک ہی سر چشمہ سے پھوٹنے والے اور ’’کٹ اینڈ پیسٹ‘‘ کی صورت میں نقل ہونے والے الزامات مختلف اصحاب کی توسط سے قارئین و سامین و ناظرین کو پہنچائے جارہے ہیں۔ آج جرمنی میں ترکی حکومت اور فوجی بغاوت کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ نکالا گیا۔ جرمنی ارباب اختیار نے اِس کو روکنے کے لیے کافی قانونی مشکلیں پیدا کیں مگر ان کو ناکامی کا سامنا ہوا لیکن جرمنی کی عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ جاری کرکے پابندی عائد کی کہ اِس جلسہ کے دوران ترکی جمہوریت کے صدر جناب رجب طیب ایردوغان حاضرون سے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے مخاطب ہوکر تقریر نہیں کرسکتے ہیں۔ لیجیے آپ کے یورپ کے حق بیان اور اپنی رائے کے اظہار کے انسانی اقدار؟ خیر مجھے علم ہے کہ آپ لوگ اِس کے لیے بھی کوئی جواز نکالیں کے یا سنی ان سنی کریں گے لیکن کیا کیا جائے۔ ترکی میں ایک محاورہ ہے ’’اگر نمک میں بھی بو پڑگئی تو اِس کا کوئی علاج نہیں ہوتا!‘‘ لگتا ہے کہ عالمی میڈیا کے نمک میں بو پڑگئی ہے اللہ رحم کرے!

حصہ