سفر شوق

229

محمد عامر شیخ

حج 2016ء کا آغاز ہوچکا ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں اِس مرتبہ یہ مبارک سفر مدینہ سے شروع ہوا۔ مدینہ منورہ کی حدود میں جب طیارہ داخل ہوا تو جہاز میں موجود تمام عازمین حج پر شادئ مرگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور زبان پر درود و سلام کا ورد، اور ذہن ماضی کی جانب لوٹ گیا تھا جہاں ہم وہ منظر دیکھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کے لیے قوم کو جمع کیا، اور وہ ان کے صادق اور امین ہونے پر یکسو تھے، لیکن جب ایک خدا کا بندہ بننے کی دعوت دی گئی تو وہی لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین قرار دے رہے تھے آپؐ کے جانی دشمن بن چکے تھے۔ اور پھر آپؐ اور آپؐ کے جانثاروں پر کون سا ظلم تھا جو روا نہیں رکھا گیا! اس کی تفصیل سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ تاہم آج بھی عالم اسلام کی کیفیت بدلی ہوئی نہیں ہے۔ عالم اسلام لہو لہو ہے اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی خواہش رکھنے والے اِس وقت کے فرعون، ہامان، شداد، ابوجہل و ابولہب کے خونیں ہاتھ مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک پہنچ چکے ہیں۔ ہم نے جنت البقیع کے ساتھ وہ مقام بھی دیکھا جہاں ایک بدبخت عین افطار کے وقت خودکش جیکٹ پہن کر مسجد نبویؐ میں داخل ہوکر روزہ داروں کو خاک و خون میں نہلانے کے لیے آیا تھا، تاہم سیکورٹی اہلکاروں کی دوراندیشی اور رحمتِ خداوندی کے طفیل وہ جہنم رسید ہوا۔ اخبارات میں پورا واقعہ رپورٹ ہوچکا ہے۔ تاہم لاکھوں حجاج کرام جوکہ مدینہ پاک میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے لیے آرہے تھے نہ تو نجی طور پر اور نہ ہی اجتماعی طور پر اس واقعہ کو موضوع بنتے دیکھا، ہاں البتہ یہ بات ضرور تھی کہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری اور مسجدِ نبوی میں دعاؤں کے دوران دنیا بھر کے مسلمان بالعموم اور ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے مسلمان بالخصوص اپنی اپنی زبان میں اللہ پاک کے حضور عالم اسلام کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ضرور دیکھے گئے۔ وہ اس بات پر متفق تھے کہ اسلام کے دشمن مختلف روپ میں مسلمانوں اور عالم اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے متحد ہیں جبکہ مسلمانوں کو آپس میں تفرقہ میں ڈال کر اُن کی طاقت کو کمزور اور منتشر کیا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش کے مسلمانوں سے بھی بات چیت ہوئی، جس سے عیاں ہوا کہ بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی ٹریبونل کے ذریعے پھانسیوں پر اُن کے جذبات بھی پاکستان اور دیگر ملکوں کے مسلمانوں سے ملتے جلتے ہیں، تاہم بے چارگی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ اِدھر پاکستان میں اسی دوران کوئٹہ بم دھماکے میں وکلا کی شہادت اور انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے بیان سے بھی پاکستان کے علاوہ خود انڈیا اور بنگلہ دیش کے مسلمان فکرمند تھے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ حج کے موقع پر، جہاں دنیا بھر کے مسلمان جمع ہوتے ہیں، مسلمانوں کی اجتماعی سوچ اور فکر سامنے آتی ہے۔ مسلمان چاہے براعظم ایشیا کا ہو، یورپ کا ہو، یا براعظم افریقہ کا۔۔۔ جسدِ واحد کی طرح ہے۔ اور کشمیر، فلسطین، برما سمیت کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر مظالم پر فکرمند اور اللہ تعالیٰ سے مدد کا خواستگار ہے۔
حج کیا ہے، اس بارے میں سورہ بقرہ کی آیت 203-197 میں آیا ہے: (ترجمہ) ’’حج چند مقررہ مہینوں میں ہوتا ہے اور جو شخص بھی اس زمانے میں اپنے اوپر حج لازم کرلے اسے عورتوں سے مباشرت، گناہ اور جھگڑے کی اجازت نہیں ہے، اور تم جو بھی خیر کرو گے خدا اسے جانتا ہے۔ اپنے لیے زادِ راہ فراہم کرو کہ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔ اور اے صاحبانِ عقل! مجھ سے ڈرو۔ تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنے پروردگار کے فضل وکرم کو تلاش کرو، پھر جب عرفات سے کوچ کرو تو مشعرالحرام کے پاس ذکرِ خداکرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے ہدایت دی ہے، اگرچہ تم لوگ اس سے پہلے گمراہوں میں سے تھے۔ پھر تمام لوگوں کی طرح تم بھی کوچ کرو اور اللہ سے استغفار کروکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ پھر جب سارے مناسک ادا کرلو تو خدا کو اسی طرح یاد رکھو جس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں دنیا ہی میں نیکی دے دے، ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اورآخرت میں بھی، اور ہم کو عذابِ جہنم سے محفوظ فرما۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور خدا بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔ اور چند معین دنوں میں ذکرِ خدا کرو، اس کے بعد جو دو دن کے اندر جلدی کرے گا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے اور جو تاخیر کرے گا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے بشرطیکہ پرہیزگار رہا ہو، اور اللہ سے ڈرو اور یہ یاد رکھو کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔‘‘
حج کی اہمیت کو یہ واقعہ بھی واضح کرتا ہے جس میں حضرت ابن شماسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمرو بن العاصؓکے پاس حاضر ہوئے، ان کا آخری وقت تھا، حضرت عمرو بن العاصؓ اُس وقت بہت دیر تک روتے رہے۔ اس کے بعد اپنے اسلام لانے کا قصہ سنایا اور فرمانے لگے کہ جب اللہ جل شانہٗ نے میرے دل میں اسلام لانے کا جذبہ پیدا کردیا تو میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ بیعت کے لیے ہاتھ دیجیے میں مسلمان ہوتا ہوں۔ آپؐ نے اپنا دستِ مبارک پھیلایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپؐ نے فرمایا، یہ کیا؟ میں نے عرض کیاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں پہلے ایک شرط کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ میرے پچھلے گناہ معاف کردے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرؓ تجھے یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام ان سب گناہوں کو ختم کردیتا ہے جو کفر کی حالت میں کیے گئے ہوں۔ اور ہجرت ان سب لغزشوں کو ختم کردیتی ہے جو ہجرت سے پہلے کی ہوں، اور حج ان قصوروں کا خاتمہ کردیتا ہے جو حج سے پہلے کیے ہوں۔ ایک حدیث میں آیا ہے: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام کو عرفات کے میدان میں امت کی مغفرت کی دعا مانگی اور بہت الحاح و زاری سے دیر تک مانگتے رہے۔ رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہوا کہ میں نے تمھاری دعا قبول کرلی اور جو گناہ میرے بندوں نے کیے ہیں وہ معاف کردیئے، البتہ ایک دوسرے پر جو ظلم کیے ہیں ان کا بدلہ لیا جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر درخواست کی اور بار بار یہ درخواست کرتے رہے کہ یااللہ تُو اس پر بھی قادر ہے کہ مظلوم پر ظلم کا بدلہ تو عطا فرمادے اور ظالم کے قصور کو معاف فرما دے۔ مزدلفہ کی صبح کو اللہ جل شانہٗ نے یہ دعا قبول فرمالی۔ اس وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا۔ صحابہؓ نے متبسم ہونے کی وجہ دریافت کی تو آپؐ نے فرمایا کہ جب اللہ جل شانہٗ نے میری یہ دعا قبول فرمائی اور شیطان کو اس کا پتا چلا تو وہ چلاّنے لگا اور مٹی اپنے سر پر ڈالنے لگا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں منیٰ کی مسجد میں حاضر تھاکہ دو شخص ایک انصاری اور ایک ثقفی حاضر خدمت ہوئے اور سلام کے بعد عرض کیا کہ آپؐ سے کچھ دریافت کرنے آئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمھارا دل چاہے تو تم دریافت کرلو اور تم کہو تو میں بتاؤں کہ تم کیا دریافت کرنا چاہتے ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ ہی ارشاد فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم حج کے متعلق دریافت کرنے آئے ہو کہ حج کے ارادے سے گھر سے نکلنے کا کیا ثواب ہے۔ اور طواف کے بعد دو رکعت پڑھنے کا کیا فائدہ ہے، اور صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کا کیا ثواب ہے۔ اور عرفات پر ٹھیرنے اور شیطانوں کو کنکریاں مارنے کا اور قربانی کرنے کا، طوافِ زیارت کرنے کا کیا ثواب ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اُس پاک ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بناکر بھیجا ہے یہی سوالات ہمارے ذہن میں تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ حج کا ارادہ کرکے گھر سے نکلنے کے بعد تمھاری سواری (اونٹنی) جو ایک قدم رکھتی ہے یا اٹھاتی ہے وہ تمھارے اعمال میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے۔ اور طواف کے بعد دو رکعتوں کا ثواب ایسا ہے جیسے ایک عربی غلام کو آزاد کیا۔ اور صفاو مروہ کے درمیان سعی کا ثواب ستّر غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر ہے۔ اور عرفات کے میدان میں جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہٗ دنیا کے آسمان پر اتر کر فرشتوں سے فخر کے طور پر فرماتے ہیں کہ میرے بندے دور دور سے پراگندہ بال آئے ہوئے ہیں، میری رحمت کے امیدوار ہیں، اگر ان لوگوں کے گناہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں یا بارش کے قطروں کے برابر ہوں یا سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں تب بھی میں نے معاف کردیئے۔ میرے بندو جاؤ بخشے بخشائے چلے جاؤ۔ تمھارے بھی گناہ معاف ہیں اور جن کی تم سفارش کرو ان کے بھی گناہ معاف ہیں۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ شیطانوں کو کنکریاں مارنے کا حال یہ ہے کہ ہر کنکری کے بدلے ایک بڑا گناہ جو ہلاک کردینے والا ہو، معاف ہوتا ہے۔ اور قربانی کا بدلہ اللہ کے یہاں تمھارے لیے ذخیرہ ہے۔ اور احرام کھولنے کے وقت سر منڈانے میں ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔ اور ایک فرشتہ مونڈھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ آئندہ ازسرنو اعمال کر، تیرے پچھلے سب گناہ تو معاف ہوچکے۔
حج اور فلسفۂ حج کے بارے میں کچھ تاثرات گزشتہ سال سفر حج کے موقع پر عرض کیے تھے، تاہم اس مرتبہ سفر حج کا آغاز مدینے سے ہے، کوشش کریں گے کہ مدینہ میں انوارات کو ضبطِ تحریر لاسکیں، ان شاء اللہ۔

حصہ