قربانی اور اسکی روح

220

سید ابوالااعلیٰ مودودیؒ

’’اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں‘‘۔(الحج:35)
اور یہ طریقہ جس طرح دوسری امتوں کے لیے تھا اسی طرح شریعتِ محمدیؐ میں امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی مقرر کیا گیا:
’’اے محمدؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے، اور سب سے پہلے میں سرِ اطاعت جھکانے والا ہوں‘‘۔ (الانعام:162)
’’پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر‘‘۔ (الکوثر:2)
یہ حکم عام تھا جو قربانی کے لیے قرآن میں دیا گیا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ قربانی کب کی جائے، کہاں کی جائے، کس پر واجب ہے اور اس حکم پر عمل درآمد کرنے کی دوسری تفصیلات کیا ہیں۔ ان چیزوں کو بیان کرنے اور ان پر عمل کرکے بتانے کا کام اللہ نے اپنے رسولؐ پر چھوڑ دیا، کیونکہ رسولؐ اس نے بلاضرورت نہیں بھیجا تھا۔ کتاب کے ساتھ رسولؐ بھیجنے کی غرض یہی تھی کہ وہ لوگوں کو کتاب کے مقصد و منشا کے مطابق کام کرنا سکھائے۔
اوقاتِ قربانی کی تعین:
اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا شکل متعین فرمائی ہے، اور اس کا ثبوت کیا ہے کہ یہ شکل حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی متعین فرمائی ہوئی ہے۔
اولاً، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑ دی کہ فرداً فرداً جس مسلمان کا جب جی چاہے اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی جانور قربان کردے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امت کے لیے تین دن مقرر فرما دیے تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ہر سال انھی خاص دنوں میں اپنی اپنی قربانیاں ادا کریں۔ یہ بات ٹھیک اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔ نمازکے معاملے میں بھی یہی کیا گیا ہے کہ فرض نمازوں کو پانچوں وقت جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا، ہفتے میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز لازم کی گئی تاکہ پنج وقتہ نمازوں سے زیادہ بڑے اجتماعات کی شکل میں مسلمان اسے ادا کریں، اور سال میں دو مرتبہ عیدین کی نمازیں مقرر کیں تاکہ انہیں ادا کرنے کے لیے جمعہ سے بھی زیادہ بڑے اجتماعات منعقد ہوں۔ اسی طرح روزوں کے معاملے میں بھی تمام مسلمانوں کے لیے ایک مہینہ مقرر کردیا گیا تاکہ سب مل کر ایک ہی زمانے میں یہ فرض ادا کریں۔ اجتماعی عبادت کا یہ طریقہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ اس سے پورے معاشرے میں اس خاص عبادت کا ماحول طاری ہوجاتا ہے جسے اجتماعی طور پر ادا کیا جارہا ہو۔ اس سے مسلمانوں میں وحدت و یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے خداپرستی کی اخلاقی و روحانی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے سے متحد اور دوسروں سے ممیز ہوتے ہیں، اور اس سے ہر وہ فائدہ بھی ساتھ ساتھ حاصل ہوتا ہے جو انفرادی طور پر عبادت بجا لانے سے حاصل ہوسکتا ہے۔
ثانیاً، اس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر یوم عید مقرر فرمایا اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ سب مل کر پہلے دو رکعت نماز ادا کریں، پھر اپنی اپنی قربانیاں کریں، یہ ٹھیک قرآنی اشارے کے مطابق ہے۔ قرآن میں نماز اور قربانی کا ساتھ ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے اور نماز کو قربانی پر مقدم رکھا گیا ہے۔ ان صلٰوتی ونسکی، فصل لربک وانحر۔ پھر یہ مسلم معاشرے کی ایک اہم ضرورت بھی پوری کرتی ہے۔ ہر معاشرہ فطری طور پر یہ چاہتاہے کہ اسے کچھ اجتماعی تہوار دیے جائیں جن میں اس کے سب افراد مل جل کر خوشیاں منائیں۔ اس سے ان میں ایک جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور تہوار کی یہ خاص صورت کہ اس کا آغاز اللہ کی ایک عبادت، یعنی نماز سے ہو، اور اس کا پورا زمانہ اس طرح گزرے کہ ہر وقت کسی نہ کسی گھر میں اللہ کی ایک دوسری عبادت یعنی قربانی انجام دی جارہی ہو، اور اس عبادت کے طفیل ہر گھر کے لوگ اپنے دوستوں، عزیزوں اور غریب ہمسایوں کو ہدیے اور تحفے بھی بھیجتے رہیں، یہ اسلام کی روح اور مسلم معاشرے کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام ناچ رنگ، لہو و لعب اور فسق و فجور کے میلے نہیں چاہتا۔ وہ اپنے بنائے ہوئے معاشرے کے لیے میلوں کی فطری مانگ ایسی ہی عید سے پوری کرنا چاہتا ہے جو خدا پرستی اور الفت و محبت اور ہمدردی و مواسات کی پاکیزہ روح سے لبریز ہو۔
قربانی کا تاریخی پس منظر:
ثالثاً، اس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خاص دن انتخاب فرمایا جس دن تاریخ اسلام کا سب سے زریں کارنامہ حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام نے انجام دیا تھا، یعنی یہ کہ بوڑھا باپ اپنے رب کا اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو قربان کردینے کے لیے ٹھنڈے دل سے آمادہ ہوگیا، اور بیٹا یہ سن کر کہ مالک اس کی جان کی قربانی چاہتا ہے، چھری تلے گردن رکھ دینے پر بخوشی راضی ہوگیا۔ اس طرح یہ محض قربانی عبادت ہی نہ رہی بلکہ ایک بڑے تاریخی واقعہ کی یادگار بھی بن گئی جو ایمانی زندگی کے اس منتہائے مقصود، اس کے اس آئیڈیل مثل اعلیٰ کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ انہیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ قربانی کا حکم بجا لانے اور عید کا تہوار منانے کے لیے سال کا کوئی دن بھی مقرر کیا جا سکتا تھا۔ اس سے دوسرے تمام فوائد حاصل ہوجاتے، مگر یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اس کے لیے اس خاص تاریخ کا انتخاب بیک کرشمہ دوکار کا مصداق ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس انتخاب کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا: یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس واقعہ کے بعد ہر سال اسی تاریخ کو جانور قربان فرمایا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنت کو زندہ کیا اور اپنی امت کو ہدایت فرمائی کہ قرآن میں قربانی کا جو عام حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل خصوصیت کے ساتھ اس روز کریں جس روز حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کیا کرتے تھے۔ اپنی تاریخ کے یادگار واقعات کا ’’یوم‘‘ دنیا کی ہر قوم منایا کرتی ہے۔ اسلام کا مزاج یادگار منانے کے لیے بھی اُس دن کا انتخاب کرتا ہے جس میں دو بندوں کی طرف سے خدا پرستی کے انتہائی کمال کا مظاہرہ ہوا۔
اسے عالمگیر بنانے میں مصلحت:
رابعاً، قربانی کے لیے اس دن کے انتخاب میں ایک اور مصلحت بھی تھی۔ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال جب حج کا زمانہ آیا تو مسلمانوں کو یہ بات بری طرح کھل رہی تھی کہ کفار نے ان پر حرم کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس غم کی تلافی اس طرح فرمائی کہ ایام حج کو مدینے ہی میں ان کے لیے ایام عید بنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمائی کہ 9 ذی الحجہ (یعنی یوم الحج) کی صبح سے جب کہ حاجی عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہ ہر نماز کے بعد اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کا ورد شروع کریں اور 13 ذی الحجہ تک (یعنی جب تک حجاج منیٰ میں ایام تشریق گزارتے ہیں) اس کا سلسلہ جاری رکھیں۔ نیز 10 ذی الحجہ کو جب کہ حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی طرف پلٹتے ہیں اور قربانی اور طواف کی سعادت حاصل کرتے ہیں، وہ بھی دوگانہ نماز ادا کرکے قربانیاں کریں۔ یہ طریقہ فتح مکہ سے پہلے تک تو مسلمانوں کے لیے گویا ایک طرح کی تسلی کا ذریعہ تھا کہ حج سے محروم کردیے گئے تو کیا ہوا، ہمارا دل حج میں مشغول ہے اور ہم اپنے گھر ہی میں بیٹھے ہوئے حجاج کے شریکِ حال ہیں۔ لیکن فتح مکہ کے بعد اسے جاری رکھ کر عملاً اس کو تمام دنیائے اسلام کے لیے حج کی توسیع بنادیا گیا۔ اس کے معنی یہ ہوگئے کہ حج صرف مکہ میں حاجیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جس زمانے میں چند لاکھ حاجی وہاں مناسکِ حج ادا کررہے ہوتے ہیں اسی زمانے میں ساری دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمان ان کے شریکِ حال ہوتے ہیں۔ ہر مسلمان، جہاں بھی وہ ہے، اس کا دل ان کے ساتھ ہوتا ہے، اس کی زبان اللہ اکبر کی تکبیر بلند کرتی رہتی ہے، وہ ان کی قربانی اور طواف کے وقت اپنی جگہ ہی نماز اور قربانی ادا کررہا ہوتا ہے۔
قربانی کی حقیقی روح:خامساً، قربانی کا جو طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا وہ یہ تھا کہ عیدالاضحی کا دوگانہ نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی جائے اور جانور ذبح کرتے وقت یہ کہا جائے:انی وجھت وجھی للذی فطرالسمٰوات والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلٰوتی و نسکی و محیای و مماتی للّٰہ رب العٰلمین لاشریک لہٗ و بذالک امرت وانا من المسلمین اللّٰھم منک ولک۔’’میں نے یکسو ہوکر اپنا رخ اُس ذات کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کاکوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِاطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا یہ تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔
ان الفاظ پر غور کیجیے۔ ان میں وہ تمام وجوہ شامل ہیں جن کی بنیاد پر قرآن مجید میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں اس بات کا اعلان ہے کہ دیوتاؤں کے لیے قربانیاں کرنے والے مشرکین کے برعکس ہم صرف خدائے وحدہٗ لاشریک کے لیے قربانی کی عبادت بجا لا رہے ہیں۔ ان میں اس بات کا اعلان بھی ہے کہ اپنے پیدا کیے ہوئے جانوروں سے فائدہ اٹھانے کی جو نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشی ہے اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے یہ نذر ہم اس کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ ان میں یہ اعلان بھی ہے کہ اس مال کے اصل مالک ہم نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کے جانور ہیں جن پر اس نے ہم کو تصرف کا اختیار بخشا ہے، اور اس کی کبریائی کے اعتراف میں یہ نذرانہ ہم اس کے حضور گزران رہے ہیں۔ اس میں یہ اظہار بھی ہے کہ جس طرح ہمیں حکم دیا گیا تھا ٹھیک اسی طرح ہم ابھی صرف اللہ کے لیے نماز ادا کرکے آئے ہیں اور اب خالصتاً اسی کے لیے قربانی کے فرمان کی تعمیل کر رہے ہیں۔ پھر، ان سب سے بڑھ کر، ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ عہدوپیمان بھی ہے کہ ہماری نماز اور قربانی ہی نہیں، ہمارا مرنااورجینا بھی صرف اسی کی ذاتِ پاک کے لیے ہے۔ اور یہ عہدوپیمان اس تاریخی دن میں کیا جاتاہے جس دن اللہ کے دو بندوں نے اپنے عمل سے بتایا تھا کہ جینا اور مرنا اللہ کے لیے ہونے کا مطلب کیا ہے۔

حصہ