کراچی میں متبادل سیاست کے امکانات

187

سلمان عابد

کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاست کے حوالے سے ابتدا ہی سے کئی طرح کے سوالات اٹھائے اور تحفظات پیش کیے جاتے رہے ہیں، لیکن ایم کیو ایم اور اس کا حمایت یافتہ سیاسی و اسٹیبلشمنٹ کا طبقہ اسے نظرانداز کرکے یکطرفہ سیاست چلاتا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ایم کیو ایم کے عروج کے بعد سے کراچی کی سیاست کو ہمیشہ ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلایا جاتا رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں مہاجر سیاست کے نام پر ایک ایسی سیاست کا بازار لگایا گیا جس نے کراچی کو بدامنی کی سیاست کا مرکز بنادیا۔ سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تصور میں پس پشت چلا گیا، اس کے مقابلے میں مافیا پر مبنی طرزِ حکمرانی نے کراچی کی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ سب کچھ ایک مخصوص طبقے کی سرپرستی میں کیا گیا، جس کا مقصد اصل سیاسی عمل کو غیرموثر اور قومی جماعتوں کے کردار کو محدود کرکے وہاں یکطرفہ نظام کو چلانا تھا۔آج کراچی جو بھگت رہا ہے وہ ہماری انھی نام نہاد پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے اب بھی کراچی کی سیاست سے کوئی بڑا سبق سیکھنے کے بجائے ماضی کی غلطیوں کو بنیاد بناکر کچھ بناوٹی عمل کے ساتھ سیاست کو چلایا ہوا ہے۔ یہ عمل کراچی کی سیاست میں بہتر نتائج دینے کے بجائے مسلسل شہر کو بگاڑ کی طرف لے جارہا ہے۔
کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے تناظر میں اسے ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کو ’’منی پاکستان‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ کراچی کی بدحالی مجموعی طور پر ملک کی بدحالی ہے۔ اسی طرح کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جس نے پچھلی تین دہائیوں میں عدم استحکام، پُرتشدد سیاست، مافیا کے طرز پر مبنی حکمرانی کے مسائل کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اس طرزِ سیاست اور حکمرانی نے کراچی کو لاشوں کی سیاست، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، نوگوایریاز، مسلح جدوجہد، اسلحہ اورخوف کی سیاست کے تحفے دیے ہیں۔ تشدد اور لاقانونیت کی سیاست شاید ہی کسی اور شہر کو اس خوفناک انداز میں دیکھنی پڑی ہو، جو کراچی نے دیکھی ہے۔
کراچی میں موجود نئی نسل نے تشدد اور موت کے سائے میں جنم لیا ہے۔ کراچی میں شاید ہی کوئی گھر یا خاندان ایسا ہو جو اس شہر میں بدامنی کی سیاست سے محفوظ رہا ہو۔ ماؤں اور باپوں نے نہ صرف اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائی ہیں، بلکہ لاشیں بھی وہ جو مسخ شدہ تھیں۔ نوجوان عورتیں جس انداز سے بیوہ ہوئیں اور بچے و بچیاں یتیم ہوئے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس پُرتشدد سیاست کے نتیجے میں جہاں انسانی زندگی اذیت کا شکار ہوئی، وہیں اس شہر کی معیشت کی بربادی نے شہری زندگی کو مفلوج کردیا۔ لسانیت کی بنیاد پر شہر اور اس میں موجود علاقوں کی تقسیم نے بھی لوگوں میں نفرت کی سیاست کو طاقت فراہم کی۔ یہ سب ایسے ہی نہیں ہوا، بلکہ ایک خاص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے تحت کراچی کو لسانی و علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنا اور غیر مستحکم کرنا تھا۔ کراچی میں علاقوں کی زبان کی بنیاد پر باقاعدہ درجہ بندی کرکے علاقوں کو ایک دوسرے کے لیے نوگوایریاز بنادیا گیا۔ یہ کام بظاہر تو ایم کیو ایم نے کیا، لیکن یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی یا بندوق کے زور پر کیا گیا۔ کراچی کی ناکامی کو محض کسی ایک فریق پر ڈال کر باقی فریق اپنا دامن نہیں بچاسکتے۔ کیونکہ کراچی کی بربادی میں سیاسی یا اسٹیبلشمنٹ کی قوتوں نے سمجھوتوں کی جو سیاست کی اُس کا نتیجہ بدامنی کی سیاست کی صورت میں سامنے آیا۔
ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے تو کراچی میں اس کی حکمرانی کو ہمیشہ سے بالادستی رہی ہے۔ سندھ میں کراچی کے مینڈیٹ یا اس شہر میں جیتنے والی جماعت کو نظرانداز کرکے حکومت سازی کا عمل ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن کراچی کا المیہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے بھاری مینڈیٹ کے باوجود اس شہر کی سیاست میں مسائل کا حل بننے کے بجائے بگاڑ کی سیاست میں حصہ ڈالا ہے۔ لیکن ایم کیو ایم کی قیادت یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ بھی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ بلکہ یہاں تو ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ایم کیو ایم کی سیاست کو جمہوری سیاست کے ساتھ جوڑ کر بنیادی طور پر ایم کیوایم کی مجرمانہ سیاست پر پردہ ڈالتے رہے ہیں۔
جب ریاست اور اس کے ادارے خود ہی ایک جماعت کے ساتھ مل کر فریق بن جائیں تو پھر مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ بگاڑ کی طرف جاتا ہے۔کراچی کے لوگ محب وطن ہیں اور ان کی ملک سے محبت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کراچی میں کچھ لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات کو سامنے رکھ کر منفی رویہ اختیار کیا، ملکی سالمیت کو نقصان پہنچایا تو اسے پورے کراچی کے عوام کی ترجمانی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہماری وفاق کی سیاست اور ریاستی اداروں نے کراچی پر اپنی حکمرانی یا طاقت کو تو مقدم جانا، لیکن کراچی کے لوگوں کے ساتھ جُڑ کر سیاست کرنے یا ان کے حقیقی مسائل کو سمجھنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ کراچی کی شہری سیاست میں جو بگاڑ پیدا ہوا اور جس انداز سے نوجوان نسل سمیت کراچی میں بسنے والے لوگ بنیادی نوعیت کے مسائل کا شکار ہوئے اس نے محرومی کی سیاست کو جنم دیا۔ محرومی کی اس سیاست کو سمجھے بغیر کراچی میں لوگوں کو اپنی سیاست سے جوڑنا ممکن نہیں ہے۔کراچی کے مسئلے کو ہم نے مصنوعی طریقے سے حل کرنے کی جو حکمت عملی اختیار کی وہ مثبت نتائج نہیں دے سکی۔ ایم کیو ایم محرومیوں کو بنیاد بناکر کراچی کے ووٹروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہے، یقیناًاس میں ایم کیو ایم کا اپنا ایجنڈا بھی ہوگا، لیکن اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ کراچی کے لوگوں کے بنیادی مسائل اہم ہیں جنہیں نظرانداز کیا گیا۔ کراچی میں جس وقت نعمت اللہ خان سٹی ناظم بنے اُس دور میں شروع ہونے والی ترقی اور مقامی مسائل کے حل میں سٹی گورنمنٹ نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ایم کیو ایم کے پاس شہر کی نظامت رہی، لیکن جو نتائج ایم کیو ایم کو سمیٹنے چاہیے تھے، وہ نہیں مل سکے، البتہ نتائج کے حوالے سے دعوے بہت کیے گئے۔ اب اگر آپ کراچی کی اندرونی ترقی کے حالات دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ شہر کو کس بے دردی سے چلایا جارہا ہے۔
عمومی طور پر سیاست میں متبادل سیاست کے آپشن ہمیشہ سے کھلے ہوتے ہیں۔ سیاسی قوتیں مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا متبادل راستہ اختیار کرتی ہیں جو مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہو ۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ کراچی میں پُرتشدد سیاست اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدامنی میں دیگر سیاسی فریقوں نے متبادل سیاست پیدا کرنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کی اور کراچی کو یرغمالی سیاست کی بھینٹ چڑھانے میں مدد دی۔ یہ تصور کرلیا گیا یا ان کو کرایا گیا کہ کراچی میں ایک جماعتی نظام ہے اور اسی کو قبول کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔ لیکن جس نے بھی اس ایک جماعتی نظام کے خلاف آواز اٹھائی اُس کا راستہ سیاسی طور طریقوں کے بجائے طاقت و تشدد سے روکا گیا، جس نے متبادل سیاست کے امکانات کو محدود کیا۔
کراچی میں ایم کیوایم کی سیاست کے خلاف اگر کسی نے حقیقی طور پر مزاحمت کی تو وہ جماعت اسلامی ہیجسے کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ نہ صرف اس نے کراچی میں ایم کیوایم کی طاقت کی سیاست کے سامنے اپنے آپ کو کھڑا رکھا بلکہ اس کے نتیجے جماعت اسلامی کے ہزاروں ساتھیوں کو جان سمیت مختلف نوعیت کی قربانیاں دینی پڑی ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی کی اس مزاحمت سے باقی جماعتوں نے اپنے آپ کو دور رکھا اور جماعت اسلامی کو یہ لڑائی خود ہی لڑنی پڑی۔ مسئلہ اگر سیاسی عمل کا ہوتا تو یقیناًجماعت اسلامی اس پر اپنا اثر دکھا سکتی تھی، لیکن جب سیاست بندوق کے زور پر ہوئی تو اس کا نتیجہ وہ نہیں نکل سکا جو جمہوری سیاست کی ضرورت بنتا تھا۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان مسلم لیگ(ن) اور نوازشریف نے کراچی سمیت سندھ کی سیاست کو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے سپرد کرکے خود کو وہاں کی سیاست سے الگ کرکے پنجاب تک محدود رکھا۔ پیپلز پارٹی نے بھی خود کو لیاری اورملیر کے گوٹھوں تک محدود رکھ کر سارے شہر سے اپنے آپ کو لاتعلق کرلیا۔ اسی طرح 2013ء کے انتخابات میں عمران خان نے کراچی میں متبادل سیاست کا دروازہ کھولا، ان کو خاصے ووٹ بھی ملے، لیکن وہ بھی کراچی کی سیاست اور وہاں کے عوام سے وہ تعلق نہیں جوڑ سکے جو متبادل سیاست کی طرف انہیں لے جاسکتا تھا۔ اصل میں پاکستان کی قومی سیاست میں جو سیاسی سمجھوتا نوازشریف، زرداری، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن، الطاف حسین نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کیا ہے وہ بنیادی خرابی کو پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔ جب قومی سیاسی فریق ایک دوسرے کے سیاسی مفادات کو سامنے رکھ کر علاقوں کی سیاسی تقسیم کرکے ایک دوسرے میں مینڈیٹ تقسیم کریں گے تو مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ اس لیے کراچی کے لوگوں کے پاس جب کوئی سیاسی آپشن ہی نہ ہو تو وہ کہاں جائیں گے؟ اسلام آباد، لاہور سے بیٹھ کر کراچی پر حکمرانی کبھی بھی مثبت نتائج نہیں دے سکے گی۔ اس لیے کراچی کے تناظر میں بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کی غلطی، کاہلی، سستی اور سمجھوتے کی سیاست نے بھی کراچی کو نقصان پہنچایا ہے۔کراچی میں متبادل سیاست کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ اس کے لیے مکمل سیاسی عمل میں شمولیت ضروری ہے اور کراچی کی نفسیات کو سمجھ کر وہاں مؤثر سیاسی و انتظامی حکمت عملی کے ساتھ ہی بڑی تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ کراچی میں لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے مقامی حکومتوں کے نظام کو حقیقی طاقت دینا ہوگی، کیونکہ دنیا میں بڑے شہروں کی سیاست مقامی حکمرانی کی مضبوطی کے عمل سے جڑی ہوئی ہے۔
جس طرح کراچی میں مہاجر فیکٹر کو بنیاد بناکر منفی سیاست کو طاقت فراہم کی گئی جس کا نتیجہ سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی کمزوری کی صورت میں نکلا۔ لیکن یہ مہاجر سیاست کیسے طاقت پکڑ گئی اس کا بھی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خود کراچی کے لوگوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ ان تین دہائیوں کی سیاست کے نتیجے میں ان کو لاشوں اور بدامنی کے سوا کیا ملا؟ اہلِ سیاست کے ساتھ ساتھ کراچی کے لوگوں کو بھی متبادل سیاست کی طرف دیکھنا چاہیے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے اصلاحات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ لیکن یہ یاد رکھیں، اصلاحات سیاسی بھی ہوں گی اور انتظامی طور پر کچھ بڑے فیصلے کرکے کڑوی گولیاں بھی ہضم کرنا ہوں گی۔کراچی کے لوگوں کو خود اپنے اردگرد نظر ڈالنا ہوگی کہ وہ کون لوگ ہیں جو کراچی میں سیاست کے نام پر فساد پھیلا کر اس شہر کو بدامنی کا محور بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ ملک کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی۔ پاکستان کے سیاسی فریق محض لوگوں کو مہاجر کا طعنہ دے کر اُن سے لاتعلق نہ ہوں یا ان کو پُرتشدد سیاست کا حامی نہ سمجھیں۔کراچی کے لوگوں کے عملی طور پر دل جیتنے ہوں گے۔ یہ عمل تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک بھرپور سیاسی کردار کے بغیر ممکن نہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی کراچی سے سبق سیکھنا چاہیے کہ ان کی ماضی کی سیاسی حکمت عملیوں یا طاقت کے کھیل نے کراچی کے مقدمہ کو خراب کیا ہے۔
کراچی میں انتظامی نوعیت کے جو اقدامات ہورہے ہیں وہ اہم ہیں، لیکن ان کو محض ایک فریق یا گروہ تک محدود کرکے ان میں انتقام، بدلہ اور نفرت کی سیاست کو طاقت نہ دی جائے۔ جو کچھ کرنا ہے وہ بلاتفریق ہونا چاہیے۔ کیونکہ تفریق کو بنیاد بناکر جو بھی حکمت عملی اختیار کی جائے گی اُس کا ردعمل ایک مضبوط مہاجر سیاست اور اپنے خلاف نفرت کی سیاست کے طور پر سامنے آئے گا، جو کراچی اور قومی سیاست کے مفاد میں نہیں ہوگا۔

حصہ