عمران خان رائے ونڈ جانے کا اعلان۔۔۔ حکمران پریشان

202

حامد ریاض ڈوگر

3 ستمبر کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے 17 جون 2014ء کے ماڈل ٹاؤن لاہور کے 14 مقتولین کے خون کا حساب لینے کے لیے راولپنڈی میں ’’قصاص مارچ‘‘ کیا، جب کہ لاہور میں ان کے سیاسی کزن عمران خان نے پانامہ لیکس میں وزیراعظم محمد نوازشریف اور اُن کے اہلِ خاندان کے متعلق ہونے والے انکشافات اور کرپشن کا حساب لینے کے لیے اسی روز شاہدرہ سے فیصل چوک تک ’’احتساب مارچ‘‘ کیا۔ دونوں پروگراموں کا وقت بھی کم و بیش ایک ہی تھا اور دونوں کے دوران اور اختتام پر اپنے اپنے خطابات میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے وزیراعظم اور ان کے اہلِ خانہ کو آڑے ہاتھوں لیا اور الزامات کی خوب خوب بوچھاڑ کی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے تقریر کے اختتام پر اپنے کارکنوں کے سامنے اگلے بڑے اور فیصلہ کن پروگرام کے لیے دو آپشن رکھے، اول اسلام آباد کی جانب، اور دوئم رائے ونڈ کی جانب مارچ۔۔۔ کارکنوں نے بآواز بلند واضح طور پر رائے ونڈ مارچ کے حق میں فیصلہ دیا، تاہم اس ضمن میں حتمی فیصلے اور اس کے اعلان کا حق اپنے پاس محفوظ رکھتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے شاید احتیاطاً واضح اور دوٹوک اعلان سے گریز کیا۔ عمران خان نے فیصل چوک میں نمازِ فجر سے کچھ قبل اپنے خطاب میں کارکنوں سے پوچھنے کا تکلف کیے بغیر ازخود ہی کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی احتجاجی تحریک کے اگلے پڑاؤ کے لیے ’’رائے ونڈ‘‘ کی منزل کا اعلان کردیا، تاہم اس منزل کی جانب وہ کب عازمِ سفر ہوں گے، یہ اعلان ابھی باقی تھا۔ اس تجسس کو بھی انہوں نے زیادہ طول دینا مناسب نہیں سمجھا اور تین روز بعد ہی کراچی میں نشتر پارک میں اپنے خطاب کے دوران یہ راز بھی فاش کردیا کہ رائے ونڈ کی جانب ان کی روانگی عید کے دس روز بعد 24 ستمبر کو ہوگی۔ مزید تفصیلات کا ابھی انتظار ہے کہ یہ مارچ کہاں سے شروع ہوکر کہاں اختتام پذیر ہوگا، اور یہ کہ مارچ کے اختتام پر عمران خان کے خطاب پر یہ پروگرام ختم ہوجائے گا یا اسے دھرنے کی شکل دی جائے گی، اور اگر دھرنا دیا جاتا ہے تو یہ محدود وقت کے لیے ہوگا یا اسلام آباد کے ڈی چوک کے دھرنے کی طرح لامحدود مدت تک جاری رہے گا۔ پھر یہ بھی کہ حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں کو بھی اس میں ساتھ لیا جائے گا یا نہیں، خصوصاً عمران خان کے اگست 2014ء کے دھرنے کے ساتھی ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کی پاکستان عوامی تحریک بھی ان کے ساتھ ہوگی یا وہ اپنا لائحہ عمل الگ سے طے کریں گے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ احتجاجی تحریک کو فیصلہ کن بنانے کے لیے دونوں جماعتیں مشترکہ احتجاجی تحریک کی حکمت عملی ہی اختیار کریں گی۔ البتہ ڈاکٹر طاہرالقادری یہ گلہ ضرور کرسکتے ہیں کہ ان کے سیاسی کزن نے دھرنے کے پروگرام کا اعلان کرنے سے قبل انہیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔ یہی شکوہ حزبِ اختلاف کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی شریکِ احتجاج ہونے میں ہچکچاہٹ کا سبب بن سکتا ہے۔
24 ستمبر کا یہ احتجاجی پروگرام کیا برگ و بار لاتا ہے یہ تو وقت آنے پر ہی معلوم ہوسکے گا، تاہم فی الحال تو اس کے اعلان ہی نے حکمران مسلم لیگ کے ایوانوں میں بھونچال سا برپا کردیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھا ہے جس سے حکمران پارٹی میں خاصی ہلچل مچ گئی ہے، اور ایک جانب اگر شدید نوعیت کا فوری سیاسی ردعمل عابد شیر علی اور رانا ثناء اللہ جیسے وزرا کی جانب سے ظاہر کیا گیا ہے اور رائے ونڈ مارچ کے جواب میں بنی گالا، زمان پارک اور برطانیہ میں جمائما کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کی دھمکی دے دی گئی ہے، جب کہ دوسری جانب اطلاعات یہ بھی ہیں کہ حکومت 24 ستمبر سے قبل طاہرالقادری، عمران خان، شیخ رشید احمد اور بعض دیگر اپوزیشن قائدین کو گرفتارکرنے کے بارے میں بھی سوچ رہی ہے۔
ہمارے عوام، سیاسی کارکنوں اور قائدین کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی ’’یادداشت‘‘ خاصی کمزور واقع ہوئی ہے، ورنہ انہیں یہ یاد ہوتا کہ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کم و بیش اٹھارہ سال پہلے 1998ء میں انہی رائے ونڈ محلات کے باہر دھرنا کی روایت قائم کرچکے ہیں۔ یہ جناب نوازشریف کی وزارتِ عظمیٰ کا دوسرا دور تھا اور ابھی ان محلات کی تعمیر کے ابتدائی ایام تھے جب قاضی حسین احمد نے شریف خاندان کی کرپشن بے نقاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان محلات پر قوم کی خون پسینے کی کمائی سے وصول کیے گئے سرکاری ٹیکسوں سے سرکاری خزانے میں جمع ہونے والی رقوم غیر قانونی طور پر خرچ کی جارہی ہیں۔ قاضی حسین احمد نے اُس وقت بھی قوم کو یہ بتایا تھا کہ رائے ونڈ محلات کے اندر تعمیر ہونے والے فش فارم، چڑیا گھر، جھیل، نہر، ٹیلی فون ایکسچینج، آٹھ انچ قطر کی سوئی گیس پائپ لائن، شاندار سڑکیں اور ہیلی پیڈ پر اربوں روپے سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے سے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اُس وقت بھی شاہ سے زیادہ شاہ کے خیر خواہوں نے قاضی صاحب کے اس دھرنے پر شدید اعتراضات کیے تھے اور اسے سیاسی اخلاقیات کے منافی اور امیر جماعت اسلامی کے کسرِ شان قرار دیا تھا، مگر جب انہیں یہ یاد دلایا گیا کہ قاضی حسین احمد سے قبل خود میاں نوازشریف اس غیر اخلاقی حرکت کے مرتکب ہوچکے ہیں اور بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں میاں صاحب خود ملکی و غیر ملکی صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کا ایک جلوس لے کر لاہور سے طویل سفر کرکے سابق صدر فاروق لغاری کے گھر پہنچے تھے کہ فاروق لغاری کی یہ جاگیر بدعنوانی اور ناجائز قبضے کا نتیجہ ہے۔ میاں صاحب نے اُس وقت یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر لغاری خاندان سے اس بدعنوانی کا حساب لیں گے۔ مگر پھر جب نوازشریف انہی فاروق لغاری کے تعاون سے بے نظیر حکومت ختم کراکے خود اقتدار میں آگئے تو اپنا یہ اعلان اسی طرح ہضم کر گئے جس طرح خادم اعلیٰ پنجاب محترم شہبازشریف 2013ء کے عام انتخابات کے دوران صدر زرداری کے گلے میں کپڑا ڈال کر انہیں گلیوں میں گھسیٹنے اور ان کے پیٹ سے کرپشن کا مال برآمد کرنے کے دعوے آج بھول چکے ہیں، بلکہ اب تو وہ اپنے اس طرزِ بیان پر باقاعدہ معافی بھی مانگ چکے ہیں اور اسی کرپٹ اور چور زرداری کو میاں نوازشریف رائے ونڈ کے محلات میں پُرتکلف ضیافت میں مدعو کرکے باقاعدہ اپنا بھائی قرار دے چکے ہیں۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی

حصہ