مردان کچہری اور کرسچین کالونی میں خودکش دھماکے پس پردہ حقائق کیا ہیں؟

235

عالمگیر آفریدی

مردان کچہری اور ورسک روڈ کرسچین کالونی میں ایک ہی روز دہشت گردی کے دو الگ الگ واقعات میں استعمال ہونے والے طریقۂ واردات اور ان دونوں واقعات کے اب تک سامنے آنے والے بعض شواہد سے واضح طور پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کے ان تازہ واقعات میں کون سی قوتیں ملوث ہوسکتی ہیں۔ مردان میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں 14 قیمتی جانوں کے ضیاع اور پچاس سے زائد افراد کے زخمی ہونے سے صوبہ خیبر پختون خوا کی فضا جو کچھ عرصے سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی کے باعث معمول کی طرف لوٹ رہی تھی، ایک بار پھر سوگوار ہوگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق مردان کچہری خودکش بم حملے کے شہدا میں 4 مقامی وکلا اور 3 پولیس اہلکاروں کے سوا باقی زیادہ تر عام افراد تھے جو اپنے مقدمات یا پھر دیگرکاموں کے سلسلے میں کچہری آئے ہوئے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق جنید خان نامی سپاہی نے جو کچہری کے مرکزی گیٹ پر تعینات تھا، جب ایک دہشت گردکو مشکوک حالت میں کچہری میں داخل ہوتے دیکھا تو اُس نے اسے روک کر تلاشی دینے کو کہا، جس پر اس نے خود کو دھماکے سے اڑادیا جس سے ہر طرف افراتفری پھیل گئی اور دھماکے کی زد میں آنے والے کئی افراد جاں بحق ہوگئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اگر جنید نامی سپاہی جان پر کھیل کر خودکش بمبار کو نہ روکتا تو مذکورہ خودکش کے کچہری کے اندر داخل ہونے کے نتیجے میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوسکتا تھا۔ جنید کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور کچھ عرصہ پہلے ہی پولیس میں بھرتی ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عیدالاضحی کے بعد اس کی شادی تھی جس کی تیاریاں جاری تھیں اور اس کی پانچ بہنیں اپنے اکلوتے بھائی کے سر پر سہرا سجانے کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ جب انہیں اپنے بھائی کی شہادت کی خبر ملی تو ان کے سارے ارمان خاک میں مل گئے اور تمام بہنیں بین کرتے ہوئے اپنے بھائی کی لاش سے لپٹ کر دھاڑیں مارمار کر روتی رہیں، لیکن بعد میں جب معلوم ہوا کہ ان کے بھائی نے جان پر کھیل کر جرأت اور بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کئی قیمتی جانیں بچاکر جام شہادت نوش کیا ہے تو انہوں نے حوصلے سے کام لیتے ہوئے اپنے بھائی کی شہادت پر صبر کا دامن تھاما۔
مردان کچہری خودکش دھماکے میں ملوث دہشت گردوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان کا تعلق کالعدم اسلامک موومنٹ آف ازبکستان سے تھا۔ یہ شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ دہشت گردوں کو بعض مقامی سہولت کاروں کی مدد حاصل تھی اور انہوں نے رات اپنے ان سہولت کاروں کے ہاں گزاری تھی، اور یہی سہولت کار انہیں حملے سے پہلے کچہری کے قریب چھوڑ گئے تھے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق مردان کچہری میں حملہ کرنے کے لیے چند دن قبل کوئٹہ میں کی جانے والی دہشت گردی کا طریقہ واردات اپنایاگیا ہے جس کا مقصد بار اورکورٹ کو نشانہ بناکر وکلا اور عدلیہ میں خوف وہراس پیدا کرنا ہے۔ واضح رہے کہ دہشت گرد حالیہ حملے سے پہلے بھی پشاور، نوشہرہ، چارسدہ، مردان اور کوئٹہ میں کچہریوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں جن میں درجنوں وکلا اور عام شہریوں کے علاوہ پولیس اہلکار اور عدلیہ کے جج بھی نشانہ بنتے رہے ہیں۔
مردان کچہری پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی ہر جانب سے مذمت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک، آئی جی پولیس ناصرخان درانی اور جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق نے تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دھماکے کے فوراً بعد جائے وقوع کا دورہ کرنے کے علاوہ سی ایم ایچ مردان اور مردان میڈیکل کمپلیکس میں زیر علاج دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کی اور پولیس لائن مردان میں پولیس کے شہید ہونے والے جوانوں کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ آرمی چیف نے اپنی طے شدہ تمام مصروفیات چھوڑکر مردان کے متاثرہ خاندانوں اور بالخصوص زخمیوں کے ساتھ جس ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے نہ صرف ان کا قد کاٹھ مزید اونچا ہوا ہے بلکہ اس سے پاک فوج کی عزت و توقیر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
مردان کچہری کے علاوہ اسی روز چار دہشت گردوں نے ورسک کے قریب واقع کرسچین کالونی میں گھس کر ایک شخص کو ہلاک کرنے کے بعد سیکورٹی فورسز کے پہنچنے پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ تفصیلات کے مطابق چاروں دہشت گرد علی الصبح کرسچین کالونی کے مرکزی گیٹ پر تعینات سیکورٹی گارڈ کو فائرنگ کا نشانہ بنانے کے بعد کالونی میں داخل ہوئے۔ عینی شاہدین اور سیکورٹی ذرائع کے مطابق دہشت گرد کرسچین کالونی پر قبضہ کرکے یہاں کے مکینوں کو یرغمال بنانا چاہتے تھے۔ دہشت گردوں سے ملنے والی اشیاء اور اسلحہ سے صاف پتا چلتا ہے کہ حملہ آور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کئی گھنٹوں تک سیکورٹی فورسز کے مقابلے کی نیت سے آئے تھے، لیکن کالونی میں موجود سیکورٹی گارڈز کی بیداری اور بروقت رسپانس سے دہشت گرد بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر ایک قریبی زیرتعمیر عمارت میں پناہ لینے پر مجبورہوگئے، اسی اثناء سیکورٹی فورسز کے کوئیک رسپانس یونٹ کے اہلکاروں کے بروقت پہنچنے پر سیکورٹی اہلکاروں اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں ایک دہشت گرد کی ہلاکت کے بعد باقی تین دہشت گردوں نے خود کو اپنے جسموں کے ساتھ بندھے ہوئے بموں سے اڑا دیا۔
سیکورٹی ذرائع کے مطابق کرسچین کالونی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں اور آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے طریقہ واردات میں کئی حوالوں سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ مردان اور کرسچین کالونی ورسک کے دونوں حملوں میں دہشت گردوں کو باہر سے ہدایات مل رہی تھیں۔ کرسچین کالونی پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ انہیں مقامی سہولت کاروں کی مدد حاصل تھی اور ان دہشت گردوں نے رات شبقدر میں مقامی سہولت کاروں کے ہاں گزاری تھی، جن کی نشاندہی ہوگئی ہے اور اس ضمن میں سیکورٹی اداروں نے مقامی سطح پر سرچ آپریشن کے بعد بعض مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔ مردان اور ورسک کالونی کے دونوں حملوں کی ٹائمنگ اور ان حملوں میں استعمال ہونے والے طریقہ ہائے واردات، نیز ان دونوں حملوں کے پس پردہ محرکات کیا ہوسکتے ہیں اور ان دونوں حملوں میں کون سی قوتیں ملوث ہوسکتی ہیں، اس جانب آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک دن قبل ہی واضح الفاظ میں نہ صرف اشارہ کرچکے ہیں بلکہ وہ ان قوتوں کو متنبہ بھی کرچکے ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج وطن عزیز کی سالمیت اور تحفظ کے خلاف جاری ہر طرح کی سازشوں سے نہ صرف باخبر ہیں بلکہ وہ ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آخری حد سے بھی آگے جانے سے گریز نہیں کریں گی۔ جنرل راحیل شریف نے یہ سخت اور دوٹوک بیان گلگت بلتستان جہاں سے سی پیک کا آغاز ہوگا، وہاں کھڑے ہوکر سی پیک سے متعلق بین الاقوامی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ جبکہ دہشت گرد جس دن مردان اور کرسچین کالونی پشاور میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنا رہے تھے ٹھیک اسی روز وزیراعظم پاکستان محمد نوازشریف گوادر میں سی پیک کے مختلف منصوبوں کا افتتاح کررہے تھے۔ ان دونوں واقعات کو نہ تو ایک دوسرے سے جدا کرکے دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان دونوں واقعات کا ایک دن ہونا اور ایک ہی دن پہلے جنرل راحیل شریف کا گلگت بلتستان میں سی پیک سیمینار سے خطاب، اور اس خطاب میں مودی اور ’’را‘‘ کو للکارنا محض اتفاق ہے۔ آرمی چیف کو یہ سخت بیان یقیناًبہت سوچ سمجھ کر اور تمام تر بین الاقوامی دباؤ اور سیاسی و سفارتی آداب کو ملحوظ رکھ کر ہی دینا پڑا ہوگا۔ امریکہ کے بھارت کے ساتھ حالیہ تین دفاعی معاہدوں اور افغانستان کے مستقبل اور معاملات کے حوالے سے پاکستان کے تمام تر تحفظات اور امریکہ کی بار بار کی ان یقین دہانیوں کے باوجود کہ’’امریکہ افغانستان کا کوئی ایسا حل تجویز نہیں کرے گا جس میں پاکستان کے تحفظات اور خدشات کا پاس نہ رکھا گیا ہو‘‘ اب امریکہ کی جانب سے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور افغانستان کے قضیے سے پاکستان کو خارج کرتے ہوئے امریکہ، بھارت اور افغانستان پر مشتمل امن مذاکرات کی سہ فریقی نئی بساط بچھانے سے امریکہ کے پاکستان سے متعلق عزائم واضح ہوکر سامنے آگئے ہیں۔ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے جنوبی ایشیا کے اپنے حالیہ دورے میں بنگلہ دیش اور بھارت جانے کے باوجود پاکستان کو نظرانداز کرکے ایک لحاظ سے پاکستان کو دھمکانے کی کوشش کی ہے، اور ان دھمکیوں کا مقصد سوائے اس کے اورکچھ نہیں ہے کہ پاکستان کو خود کو چین سے الگ کرکے نہ صرف سی پیک جیسے عظیم منصوبے سے دستبردار ہوجانا چاہیے بلکہ خطے میں بھارتی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے لیے بھارت کی ایک طفیلی ریاست کا مقام بھی تسلیم کرلینا چاہیے۔ پاکستان چونکہ ان دونوں مطالبات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور اس ضمن میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سمیت تمام اداروں اورسیاسی جماعتوں میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اس لیے امریکہ اور بھارت کے پاس باہمی گٹھ جوڑ اور پاکستان کو دھمکانے اور دباؤ میں لانے کے سوا اور کوئی آپشن سرے سے بچا ہی نہیں ہے۔ لہٰذا پاکستانی قوم کو نہ صرف ان منفی ہتھکنڈوں سے باخبر رہنا ہوگا بلکہ ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر قسم کے پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے مکمل اتحاد اور قومی یک جہتی کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔

حصہ