مسلم سجاد مرحوم

336

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

اللہ تعالیٰ اُنھیں غریق رحمت کرے، مسلم سجاد (بھوپال،5اکتوبر1939ء۔ لاہور، 28 اگست 2016ء) اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ تھے تو خرم مرادؒ (وفات: 20دسمبر 1996ء) کے چھوٹے بھائی، مگر مزاج مختلف پایا تھا۔ خرم صاحب کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور ’’ترجمان القرآن‘‘ کی ادارت کو لے کر چلے، مگر اپنی من موجی افتادِ طبع کی بنا پر خرم صاحب کے انداز و اسلوبِ ادارت میں کچھ تبدیلیاں بھی کیں۔ شاید یہ وقت کا اقتضا بھی ہوگا۔
راقم زمانۂ طالب علمی میں اُن سے متعارف ہوا۔ ان کی مختصر کتاب ’’مخلوط تعلیم‘‘ نے متاثر کیا۔ جب کبھی کراچی سے ’’چراغِ راہ‘‘ سرگودھا پہنچتا تو اس کی مجلس ادارت کے رکن کے طور پر ان کا نام ہر بار تازہ ہوجاتا۔ ملاقات، ممکن ہے اسلامی جمعیت طلبہ کے 1965ء کے سالانہ اجتماع (داروغہ والا، لاہور) میں ہوئی یا 1966ء کے سالانہ اجتماع (قلعہ کہنہ، ملتان) میں ہوئی ہو، ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ زیادہ یقینی ہے کہ غالباً 1967ء کے اپریل میں حیدرآباد سندھ میں ہوئی۔ سابق مدیر ماہ نامہ ’’معیار‘‘ میرٹھ اور سابق صدر شعبۂ اُردو سندھ یونی ورسٹی جام شورو ڈاکٹر نجم الاسلام (وفات: 13 فروری 2001ء) نے حلقہ ادبِ اسلامی کی تجدید کے لیے اہلِ قلم کو اپریل 1967ء میں اپنے گھر (لطیف آباد، حیدر آباد سندھ) جمع کیا تھا۔ میں بھی جناب اسعد گیلانی مرحوم کے ہمراہ اس اجتماع میں سب سے جونیئر لکھنے والے کی حیثیت میں شامل ہوا تھا۔ کراچی سے پروفیسر خورشید احمد صاحب، مسلم سجاد مرحوم، ممتاز احمد مرحوم، محمود فاروقی مرحوم، نویدالعین نوید مرحوم، پروفیسر فروغ احمد مرحوم اور کچھ دوسرے حضرات، اور لاہور سے جناب نعیم صدیقی مرحوم شریک ہوئے تھے۔ فروغ صاحب اتفاق سے ان دنوں ڈھاکا سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ مسلم صاحب اور اُن سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ اس اجلاس کے بعد میں کراچی چلا گیا اور تقریباً ایک ہفتہ وہاں مقیم رہا۔ اس دوران میں کئی بار ادارہ معارفِ اسلامی میں مسلم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ’’چراغِ راہ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل تھے۔ شاید اس سے ماقبل یا مابعد انگریزی مجلے Voice of Islam کے مدیر بھی رہے۔
اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (I.P.S) کے قیام ہی سے وہ اس سے کسی نہ کسی حیثیت سے وابستہ رہے۔ کالج سے چند روز کی رخصت لے کر اسلام آباد پہنچتے۔ اِدھر لاہور سے سلیم منصور خالد وہاں جاکر، ان کے شریکِ کار ہوتے۔ دونوں نے مل کر مجلہ ’’تعلیم: اسلامی تناظر میں‘‘ کے چند یادگار شمارے شائع کیے۔ کبھی کبھی مذاکرہ (سیمینار) بھی منعقد کراتے۔ میں کبھی آئی پی ایس جاتا تو اُن سے ملاقات ہوجاتی۔
1992ء میں ’’ترجمان القرآن‘‘ کی ادارت مرحوم خرم مراد کے سپرد ہوئی تو انھوں نے مسلم صاحب کو بھی شریکِ ادارت کرلیا۔ (بڑا دانش مندانہ فیصلہ تھا کہ آگے چل کر انھی کو یہ ذمہ داری سنبھالنی تھی) وہ سپیریر سائنس کالج میں حیوانیات کے پروفیسر تھے۔ ہر ماہ چھٹی لے کر چند دنوں کے لیے لاہور آتے۔ پھر خرم صاحب کی خواہش پر انھوں نے ملازمت سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی (ابھی چار سال باقی تھے) اور اہلِ خانہ سمیت لاہور آکر منصورہ میں مقیم ہوگئے۔ چوں کہ مرحوم خرم صاحب نے راقم کو بھی ترجمان کی مجلس مشاورت میں شریک کرلیا تھا، اس لیے اب مسلم صاحب سے ربط ضبط بڑھ گیا۔ جب کبھی بیرونِ لاہور یا بیرونِ ملک سے کوئی مہمان آتا تو اُس سے ملواتے۔ بعض اوقات دعوتِ طعام پر مہمان (مثلاً ڈنمارک کے عرفان گیلانی) سے ملاقات کراتے۔ بھارت سے کوئی صاحب آتے تو بتاتے ’’دو روز بعد واپس جارہے ہیں، خط بھیجنا ہو یا کتاب، تو کل شام دفتر ترجمان میں پہنچا دیجیے۔‘‘
مسلم صاحب بڑے اور اہم امور کے ساتھ (بظاہر) چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی توجہ دیتے تھے۔ جہاں وہ کوئی خرابی یا کمی کوتاہی دیکھتے، متعلقہ شخص یا ادارے کو بلاتامل خط لکھ دیتے۔ بعض اوقات ایسے خطوط بلاضرورت محسوس ہوتے مگر وہ ایک احساسِ فرض کے تحت ایسا کرتے۔ آخری زمانے میں برادرم سلیم منصور خالد صاحب نے اُن سے درخواست کی کہ خط نویسی چھوڑ کر، اپنی یادداشتیں تحریر کریں، مگر وہ ایسا نہ کرسکے۔
ان کے زمانۂ ادارت میں ’’ترجمان القرآن‘‘ کی اشاعت میں خاصا اضافہ ہوا۔ اس اضافے کے اور عوامل بھی ہوں گے، مگر اس میں مسلم صاحب کی کاوش کو بھی بہت دخل ہے۔ وہ طرح طرح کی تدبیریں کرتے اور اسکیمیں بتاتے، اور یوں رفتہ رفتہ اشاعت کا گراف بلند ہوتا رہا۔
’’ترجمان القرآن‘‘ کے ساتھ منشورات لاہور کی نظامت بھی ان کے سپرد تھی۔ اس ادارے نے اب تک بیسیوں کتابیں اور سیکڑوں کتابچے شائع کیے ہیں۔ دعوتی اعتبار سے، منشورات کے لٹریچر کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ مطبوعات کے پھیلاؤ کے لیے بھی مسلم صاحب نے بعض نئے طریقے اختیار کرنے کی کوشش کی، مثلاً انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ کے علمی و ادبی میگزین (Books and Authors) میں منشورات کی کتابوں کا اشتہار (تحریک یا جماعت کا کوئی اور اشاعتی ادارہ ایسا نہیں کرتا) یا گشتی بک اسٹور، جو ایک پک اَپ میں قائم کیا گیا ہے، وغیرہ۔
مسلم صاحب تقریباً بیس سال یا اس سے بھی کچھ زیادہ پہلے لاہور آئے تھے، تو تندرست اور صحت مند تھے، آخر چند برسوں میں ان کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ اور ان کا خاندان بھوپال سے ہجرت کرکے کراچی آگیا اور وہ تب سے کراچی ہی میں مقیم (Settled) تھے۔ ان کے بیشتر اعزہ و اقارب بھی کراچی ہی میں تھے۔ اس لیے وہ دو تین ماہ کے بعد، چند دنوں کے لیے لاہور سے کراچی چلے جاتے اور کچھ دن عزیزواقارب کے درمیان گزار کر خود کو تروتازہ محسوس کرتے۔ سالِ گزشتہ وہ کراچی گئے تو کئی ماہ تک وہاں رہے۔ وہاں سے بھی وہ ترجمان کے سلسلے میں ہدایات بھیجتے رہے۔ جب وہ واپس لاہور آئے تو اُن کی صحت اچھی نہیں تھی، کراچی کی مرطوب آب و ہوا کے برعکس لاہور کے نسبتاً خشک موسم میں ان کی طبیعت بہتر ہوگئی۔ لیکن پھر کچھ خراب ہوئی، پھر ٹھیک ہوگئی۔ یوں اُتار چڑھاؤ ہوتا رہتا تھا۔ جب ٹھیک ہوتی تو جامع مسجد منصورہ میں نماز باجماعت میں شریک ہوتے۔ کبھی اُن کا بیٹا ساتھ ہوتا اور کبھی وہ خود لاٹھی ٹیکتے مسجد آجاتے۔ آخری تین چار دن وہ مسجد نہیں آئے۔ پھر بھی یہ گمان نہ تھا کہ اچانک یوں چل دیں گے۔ 28اگست کوئی پونے دس بجے شب برادرم سلیم منصور خالد نے فون پر دستک دی۔
کھولا تو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنکی آواز آئی۔ سفر آخرت کا مسافر عین وقتِ مقررہ پر روانہ ہوگیا تھا۔

حصہ