خاموش ہوگیاہے چمن بولتا ہوا

184

عارف الحق عارف

تحریکِ اسلامی کا ایک اور روشن ستارہ اپنی روشنی پوری دنیا میں بکھیر کر ڈوب گیا۔ اور ہم سے ایک مثالی کارکن، جدید اور قدیم علوم کے ماہر، ایک حقیقی محقق اور بڑے دانشور، روشن خیال اور جدت پسند ایڈیٹر اور مخلص نقاد، میرے 51 سال سے بہترین دوست اور مربی پروفیسر مسلم سجاد بھی خاموشی کے ساتھ ہم سے بچھڑ کر اس جہانِ فانی سے جہانِ ابدی روانہ ہوگئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میں تو ابھی 23 اگست بروز منگل اُن سے منصورہ میں اُن کے گھر صبح کی نماز کے بعد دو گھنٹے تک مل کر آیا تھا اور اس ملاقات کی دعوت انہوں نے خود یہ کہتے ہوئے دی تھی کہ ’’آیئے میرے یہاں چائے کا ایک کپ پی لیں، میرے گھر میں بہت عمدہ چائے بنتی ہے، اور یہ وقت گپ شپ کے لیے بھی بہت مناسب ہے‘‘۔ ہم نے اس ملاقات میں تحریک اسلامی کے متعدد معاملات پر بات کی اور 1965ء سے اب تک کی پرانی یادیں بھی تازہ کیں۔ اُن کی صحت ایسی ہرگز نہیں تھی کہ چند دن بعد ہی اچانک یہ المناک خبر سننے کو ملتی۔ موت کا وقت متعین اور اٹل ہے، جس سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ تحریک اسلامی کی خدمت کرتے گزرا۔ مجھے ان کے بڑے بیٹے نے بتایا کہ آخری دن بھی انہوں نے ترجمان القرآن کے دفتر میں کام کیا اور آخری نماز بھی منصورہ کی مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کی۔ ان کے عزیز شمشاد علی یوسف کے بقول انتقال سے ایک دن قبل وہ بہت خوش تھے کہ ترجمان القرآن کے آئندہ شمارے کی کاپی ان کی ادارت میں مکمل ہوگئی تھی۔ اتنی بامقصد زندگی گزارنے کے مواقع خوش نصیب لوگوں ہی کو ملتے ہیں۔ مسلم سجاد بھائی ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں شامل تھے۔
مجھے یہ خبر یکم ستمبر کو شام کے وقت تاخیر سے ملی تو دل دہل سا گیا اور مجھے ایک عجیب سی چبھن محسوس ہوئی، جیسے جسم کا کوئی اہم حصہ اچانک جدا ہو جائے۔ ان سے میرا تعلق کچھ ایسا ہی تھا۔ مجھے تاخیر سے خبر ملنے کی وجہ یہ ہے کہ میں آج کل آزاد کشمیر کے ایسے علاقے میں ہوں جہاں انٹر نیٹ میسر ہے نا ہی موبائل فون کے سگنل آتے ہیں۔ میں جب گزشتہ روز اس علاقے سے واپس آیا اور میرا وائی فائی کے زریعہ دنیا سے رابطہ بحال ہوا تو اس المناک سانحے کی اطلاع ملی۔ پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا لیکن جب میں نے شمس الدین امجد کی فیس بک آئی ڈی پر اس خبر کو پڑھا تو اس کی تصدیق ہو گئی۔ اللہ تعالی مسلم سجاد بھائی کو کروٹ کروٹ جنت عطا کرے اور ان کے لواحقین، ہزاروں شاگردوں،ان کی تحریروں اور تقریروں سے استفادہ حاصل کرنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے شمار افراد کو صبر دے۔
میرا ان سے تعلق 1965 میں اس وقت قائم ہوا، جب حالات مجھ جیسے بے وسیلہ اور کراچی میں ایک اجنبی کو کشاں کشاں اسلامی جمعیت طلبہ میں لے آئے تھے۔ جن حضرات نے اس وقت میری حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی ان میں مسم سجاد کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے بہت جلد بھانپ لیا تھا کہ کشمیر کے دور دراز دیہاتی ماحول سے آنے والے اس “کنندہ نا تراش”میں لکھنے لکھانے کی کچھ صلاحیت موجود ہے تو انہوں نے فوری طور پر مجھے اپنی سرپرستی میں لے لیا، ان کی ایما پر ہی میں نے اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کی نشر و اشاعت کی ذمہ داری قبول کی اور جمعیت کی خبریں لکھنے کا آغاز کیا جو دراصل میرے مستقبل میں اخبار نویس بننے کی پہلی تربیت تھی۔ اس کے بعد جب 1967 میں محترم سید منور حسن کی نظامت اعلی کے دور میں ظہور نیازی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے قیم مقرر ہو ئے تو مرکزی سکریٹری نشر و اشاعت کی ذمہ داری بھی مجھے سونپ دی گئی۔ اس دوران مسلم سجاد بھائی مسلسل میری رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ان کی اس حوصلہ افزائی کا سلسلہ اس وقت بھی جاری رہا جب مجھے ادارہ مطبوعات کی ذمہ داری سونپی گئی۔
مسلم سجاد بھائی اگرچہ جمعیت سے فارغ ہو چکے تھے اور ان کا شمار جمعیت کے سابقین میں ہونے لگا تھا لیکن انہوں نے جمعیت سے ایک مربّی اور رہنمائی کا تعلق ہمیشہ قائم رکھا۔ اور اپنے آپ کو کبھی بھی جمعیت سے الگ نہیں سمجھا۔ وہ جمعیت کے مرکزی دفتر 23 اسٹریچن روڈ پر اتوار کے ہفتہ وار اجتماع میں ہمیشہ کبھی درس قرآن اور کبھی کسی نئے عنوان پر فکر انگیز تقریر کے ذریعہ اسلام کی دعوت دیتے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کی نشریاتی مہم کا ہمیشہ ایک اہم حصہ رہے۔ مجھے اس کا زیادہ احساس اس وقت ہوا جب میں نے پہلے سکریٹری نشر و اشاعت کراچی اور بعد میں مرکزی سیکریٹری نشر و اشاعت کے ساتھ ساتھ ناظم ادارہ مطبوعات طلبہ کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ ہمقدم سے خبروں کی تیاری،کتابوں اور مجلات کی کتابت، ان کے ٹائٹل، طباعت اور جمعیت کے سالانہ اجتماعات اور عام جلسوں کے اعلانات کے اشتہارات اور پوسٹروں کے ڈیزائن اور متن تک میں ان کا کردار مرکزی ہوتا۔ اس دور کے اشتہارات اور پوسٹر اپنی مثال آپ تھے۔جس کی کاپی رائٹنگ سے ڈیزائنگ اور اپنے وقت کے نامور کاتب سلطان سے ان پوسٹروں کی کتابت تک میں ان کی رہنمائی شامل حال رہتی۔ وہ پوسٹر کے متن اور اس کے ڈیزائن پر کبھی سمجھوتا نا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ 1960 کی دہائی کے پوسٹر اور اشتہارات آج تک اپنی منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ سلطان ان کے پسندیدہ کاتب تھے۔جو روزنامہ جنگ کی بڑی سرخی ( مین ہیڈ لائن ) لکھتے تھے اور بعد میں جنگ میں میرے ساتھی رہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ سے ان کا تعلق کیوں اتنا گہرا اور جمعیت کیوں ان کی زندگی کا ہمیشہ اہم حصہ رہی، اس کا علم شائد کم واقفان حال کو ہو۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی اصل تنظیم نو اور اس کے تنظیمی ڈھانچے کی ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر تعمیر کا کام ان کے پیر الہی بخش کالونی کے گھر میں 1950ء کے عشرے میں ہوا تھا۔ ان کا یہ گھر ہی جمعیت کا مرکز تھا۔ جمعیت کے سابق ناظم اعلی خرم جاہ مراد ان کے بڑے بھائی تھے۔ان کی والدہ محترمہ جمعیت کی سب سے بڑی محسنہ تھیں اور سب سے بڑے بھائی سعید، چھوٹے بھائی اسامہ اسماعیل مراد اور ان کی سب بہنوں ہی نے مل کر جمعیت کے پودے کو تناوردرخت بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ 1965 میں میرے جمعیت میں شامل ہونے تک کراچی اور پاکستان جمعیت کے ارکان اورشوری کے اجلاس ان کے گھر ہی ہوتے اور جمعیت کی آئندہ کی منصوبہ بندی بھی یہیں ہوتی۔ ان کا گھرانہ تحریک اسلامی کا مثالی گھرانہ تھا۔
خرم بھائی اور پروفیسر خورشید بھائی کی ترغیب پر مسلم بھائی 1995 میں کراچی سے لاہور منتقل ہوئے۔ یہ واقعی بڑا مشکل فیصلہ تھا لیکن تحریک کی خاطر مسلم بھائی ہر قربانی دینے کو تیار رہتے تھے۔ چنانچہ وہ خوش دلی کے ساتھ لاہور منتقل ہو گئے اور ترجمان القرآن کی نائب ادارت کے منصب پر فائز کئے گئے۔جو ان کا اصل کام تھا اور جس کا تجربہ انہوں نے جمعیت کے ابتدائی اور بعد کے دور میں حاصل کیا تھا یہ وہ قابل فخر منصب تھا جس پر سید مودودی خود، پروفیسرعبدالحمید صدیقی مرحوم، نعیم صدیقی مرحوم اور خود خرم بھائی اور خورشید بھائی دونوں فائز رہ چکے تھے۔یہ اتنا بڑا منصب تھا کہ مسلم سجاد بھائی ہمیشہ اس پر فخر کرتے تھے انہوں نے 1995 سے آخری سانس تک اس منصب کا حق ادا کردیا۔ اللہ تعا لی ان کی ان خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

حصہ