حضرت علامہ عبدالعزیز عرفی ایڈووکیٹ

444

عبدالصمد تاجیؔ

سیرتِ طیبہ پر منفرد کتاب’’جمالِ مصطفےٰ ؐ‘‘ کے مصنف جسے حکومتِ پاکستان نے 1980ء میں پہلے سیرت ایوارڈ سے نوازا

حضرت عبدالعزیز عرفی ایڈووکیٹ سے راقم کا تعلق 1970ء کی دہائی میں اُس محفلِ نعت سے قائم ہوا جس کا اہتمام باشندگانِ لائنز ایریا کمیٹی نے شہر کے گنجان علاقہ لائنز ایریا میں تانگہ اسٹینڈ پر کیا تھا۔ روشن چہرہ، گھنی ڈاڑھی، مناسب قامت، سیاہ شیروانی میں ملبوس عرفی صاحب نے اپنے دلنشین خطاب میں راقم سمیت سینکڑوں لوگوں کے دل موہ لیے۔ کمیٹی کی جانب سے راقم نے کرایہ آمدورفت کے لیے جو لفافہ حضرت کو پیش کیا وہ آپ نے مسکرا کر واپس کردیاکہ الحمدللہ وکالت سے اتنی آمدنی ہوجاتی ہے کہ میں اپنا کرایہ خود ادا کرسکوں۔ عرفی صاحب صاف ستھری وکالت کے ساتھ اصلاحِ احوال پر تادم آخر گامزن رہے اور 28 ستمبر 2015ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ نے اپنے علمی ترکے میں ’’قرآن اور صاحبِ قرآن‘‘، ’’ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، ’’مدینۃ العلم‘‘، ’’الہامی فلسفۂ علم کی حقیقت‘‘، ’’عرفان قادر‘‘ اور ’’ابتدائی دو صدیوں کے درمیان سیرت نگاری، ’’قیام پاکستان کی غایت‘‘ اور سیرتِ طیبہ کے حوالے سے اپنے شہرۂ آفاق کتاب ’’جمالِ مصطفےٰؐ‘‘ چار جلدوں میں اہلِ ذوق اور طالبانِ حق کے لیے چھوڑی ہیں۔ ’’جمالِ مصطفےٰؐ‘‘ کو 1980 ء میں قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر پہلے ’’سیرت ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کتاب کو تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے ایک منفرد کارنامے کی حیثیت سے سراہا۔
’’جمالِ مصطفےٰؐ‘‘ کی تدوین کے لیے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی بیان کردہ ترتیبِ نزول کو اختیار کیا گیا ہے۔ اصل موضوع محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہے۔ 1977ء میں دورانِ اعتکاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگئ مبارک پر ایک نئے انداز سے سیرت لکھنے کا خیال آیا اورعبدالعزیز عرفی ایڈووکیٹ نے ایک طرزِ نو کے ساتھ قرآن مجید کی نزولی ترتیب کے ساتھ سیرتِ طیبہ رقم کی۔ یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی اور دوسری جلد ’’مکی‘‘، جبکہ تیسری اور چوتھی جلد ’’مدنی‘‘ دور پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب کئی برسوں میں مکمل ہوئی۔ جامعہ کراچی نے اس کتاب کو ایم اے اسلامک اسٹڈیز کے نصاب میں شامل کرنے کے لیے 10 جلدیں منگوائیں مگر افسوس ابھی تک کچھ نہ ہوا۔ 1990ء میں سہ ماہی رسالہ ’’سیرتِ طیبہ‘‘ کا اجرا کیا۔ آپ کی آخری کتاب انگریزی زبان میں سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔ 25 سے زائد کتب آپ کی یادگار ہیں۔ ’’جمالِ مصطفےٰؐ‘‘ میں مولانا عبدالقدوس ہاشمی کا تبصرہ ہے: ’’یہ مساعی قابلِ تحسین اس لیے بھی ہے کہ اس سے عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے قرآن مجید کا تعلق مفسرین کے بیان کے مطابق سامنے آجاتا ہے، انہوں نے اس کام میں بڑا وقت صرف کیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اخلاصِ عمل کا بہترین صلہ دے گا۔‘‘
جمال میاں فرنگی محلی نے کہا: ’’زیرنظر کتاب اس لحاظ سے خاص اہمیت کی مستحق ہے کہ اب تک پاکستان میں اس طور پر سیرتِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم میرے علم میں کسی نے شائع نہیں کی‘‘۔ علاوہ ازیں اس قابلِ فخر کتاب پر مولانا متین خطیب، مولانا اطہر نعیمی ، انعام اللہ خان، طالب جوہری، شریف الدین پیرزادہ، جسٹس قدیرالدین، جسٹس نعیم الدین و دیگر اہلِ قلم اصحاب نے خراجِ تحسین پیش کیا۔
’’جمالِ مصطفےٰؐ کی پہلی تقریبِ رونمائی 1978ء میں مدینہ منورہ میں مولانا مظہر علی کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ چار برادر اسلامی ممالک کے نمائندوں نے اس پر اظہارِ خیال کیا۔’’اصطفی منزل‘‘ مدینہ منورہ میں یہ تقریب 20 رمضان بعد نمازِ تراویح منعقد ہوئی۔ یہ کتاب عوام میں مقبول ہوئی اور متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
علامہ عبدالعزیز عرفی یکم رمضان 4مارچ 1927ء کو علی گڑھ بھارت میں پیدا ہوئے۔1949ء میں بی اے کی ڈگری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے حاصل کی۔ تحریکِ پاکستان میں بحیثیت طالب علم بھرپور حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد اپریل 1950ء میں پاکستان تشریف لائے اور ضلع ٹھٹھہ کے مقام گھارو میں قیام کیا۔1957ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی سند حاصل کی اور وکالت سے وابستہ ہوگئے۔
آپ کو تصوف سے لگاؤ تھا، چنانچہ السید عبدالقادر الگیلانی ؒ سے شرفِ بیعت 1960ء میں حاصل ہوا۔ خرقہ خلافت سے سرفراز ہوئے اور دفتری مصروفیات کے بعد رشد و ہدایت کے سلسلے میں اپنے اوقات وقف کردیے۔ پیر و مرشد کی ایما پر انگریزی زبان میں شیخ عبدالقادر جیلانی پر کتاب لکھی۔ آپ نے اپنی زندگی پیر و مرشد کے قائم کردہ ادارے مسجد گیلانی میں گزاری۔ وہاں آپ نے قران اوپن کالج قائم کیا۔ سب سے بڑا کام مدینۃ القرآن میں آرکائیو ہال کا قیام ہے جس میں قرآن پاک کے نادر نسخے جمع کرکے انہیں ہال کی زینت بنایا۔ اس میں خلیفہ سوئم حضرت عثمان غنیؓ کے دور کے قرآن مجید کا عکس بھی شامل ہے۔
کئی برس صاحبِ فراش رہے اور اب پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک ہیں۔
آپ کے صاحبزادے ذکاء العزیز آپ کی کتب کی اشاعت میں آج بھی مصروفِ عمل ہیں۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

حصہ