مَقْدِس اور مقدّس

2162

آج دوسروں کی غلطیاں پکڑنے سے پہلے اپنی غلطی یا سہو کی بات ہوجائے۔ پچھلے شمارے میں ہم نے زرتُشت کی کتاب ’ژند‘ کی تفسیر کا نام ’اَوس۔ تا‘ لکھا تھا لیکن ہمارے کمپوزر نے اس میں دال ڈال کر اسے ’اوستاد‘ بنادیا۔ اس سہو میں ہمارا بھی حصہ ہے کہ پروف ریڈنگ ہم نے بھی کی تھی۔ اس غلطی پر سب سے پہلے حضرت منظر عباسی نے جمعہ کے دن ہی ہماری خبر لی۔ پھر دبئی سے عبدالمتین منیری کے توسط سے جناب کمال ابدالی نے ای میل بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’1۔ فارسی ویکی پیڈیا میں دیے ہوئے زرتشت پرمضمون کے مطابق آتش پرستوں کی سب سے قدیم دینی کتاب کا نام ’’اَوِس تا‘‘ ہے جو ان کے پیغمبر یا دینی رہنما زرتشت (زَ ر تُ ش ت) کے اقوال اور اشعار پر مشتمل ہے۔ محترم اطہر ہاشمی صاحب کو شاید غلط فہمی ہوئی ہے کہ اس کتاب کا نام ’’اوستاد‘‘ ہے۔
’’اَوِستا‘‘ فارسی زبان سے پہلے کی ایک زبان کا لفظ ہے، اس لیے فارسی میں لفظ ’’اوستا‘‘ کے کئی مختلف املا رائج ہیں۔ مثلاً خاقانی کے ایک شعر میں یہ نام اَبِستا (الف پر مد کے ساتھ) مذکور ہے:
چو ایں جا معنیِ قرآں نہ دانم
رَوَم آں جا کہ آبِستا بہ خوانم
(اوپرکی فارسی عبارت یہاں ایران میں آج کل رائج املا کے بجائے روایتی پاکستانی املا میں تحریر ہے!)
جیسا کہ ہاشمی صاحب نے فرمایا عربی لفظ ’’اُستاذ‘‘ فارسی لفظ ’’اُستاد‘‘ کا معرّب ہے۔ لیکن اس فارسی لفظ کا کتاب اوِِستا کے نام سے ماخوذ ہونا ذرا مشکوک لگتا ہے۔
2۔ ’’غِفاری‘‘ کے اردو میں عام طور پر رائج غلط تلفظ ’’غَفَّاری‘‘ کے ذکر پر ایک اور ترکیب کا خیال آتا ہے۔ ’’بیت المقدس‘‘ کے دوسرے لفظ کو پاکستان میں بالعموم ’’مُقَدَّس‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ بلکہ میں نے ایک انتہائی مشہور پاکستانی عالمِ دین سے ان کے اپنے ایک ویڈیو میں اس لفظ کا یہی تلفظ سنا ہے۔ لیکن عربی میں تلفظ ’’مَقدس‘‘ ہے۔ میرے ناچیز خیال میں اردو میں تلفظ کی اکثر غلطیوں کا اصلی سبب تعلیم کی کمی نہیں بلکہ ہمارے طرزِ تحریر کا نقص ہے۔ اعراب ڈالے بغیر عربی رسم الخط استعمال ہوتا رہے گا، تو ہمارا تلفظ بدتر سے بدتر ہوتا جائے گا۔‘‘
استاذ منظر عباسی نے ایک اور غلطی کی نشاندہی کی ہے جو سو فیصد ہماری ہے۔ ہم نے علامہ اقبالؒ کا مصرع’’کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجیے‘‘ اکبر الہٰ آبادی کے دامن میں ڈال دیا۔ اس میں کچھ قصور علامہ کا بھی ہے کہ انہوں نے اکبر الٰہ آبادی سے متاثر ہوکر ان کے رنگ میں کچھ ظریفانہ کلام بھی پیش کیا ہے۔ دونوں میں گہرا تعلق تھا، اتنا کہ الٰہ آباد سے لنگڑا (آم) منگوایا اور اظہارِ حیرت کیاکہ ایک لنگڑا لاہور تک آگیا! اب اگر ان کا ظریفانہ کلام اکبر سے منسوب کردیا جائے تو کیا حرج ہے۔
بہرحال، قارئین تصحیح کرلیں۔ علامہ اقبال کے دو شعر یہ ہیں:
تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ ’’بل پیش کیجیے‘‘
آج کل کراچی میں عمارتیں مسمار کرنے کی مہم چل رہی ہے، لیکن ہر ٹی وی چینل پر مسمار کے میم پر زبر لگا ہوا ہے۔ جب کہ یہ مِسمار (میم بالکسر) ہے۔ شاید اس تلفظ سے اس لیے گریز کیا جارہا ہو کہ اس میں ’’مِس‘‘ بھی پوشیدہ ہے۔ اردو میں مسمار کا مطلب تو واضح ہے یعنی گرایا ہوا۔ یہ مفہوم فارسی کا ہے، اور مسمار کرنا، ہونا کے ساتھ آتا ہے۔ اصل لفظ عربی کا اور مونث ہے۔ عربی میں اس کا مطلب میخ، کھونٹی، بڑی کیل وغیرہ ہے۔ اردو میں آپ چھینی کہہ لیجیے جس کی مدد سے کوئی تعمیر گرائی جاتی ہے۔ چنانچہ چھینی یا بڑی سی کیل کے ذریعے دیوار وغیرہ گرانے کو مسمار کرنا کہا جانے لگا ہے۔ بڑا مشہور شعر ہے:
کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے
چھینی ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے لوہا کاٹنے کا اوزار، وہ اوزار جس سے چکی کے دانت بناتے ہیں۔ ایک زبان کا لفظ دوسری زبان میں آکر مفہوم بدل لیتا ہے، چنانچہ عربی کی مسمار اردو میں آکر دیواریں گرانے لگی ہے۔
میٹرو چینل سے کئی بار نشر ہونے والے ایک مشاعرے میں خاتون غزل پڑھتے ہوئے زبان اردو میں سِلوٹیں (س کے نیچے زیر) ڈال رہی تھیں حالانکہ سَلوٹ میں ’س‘ پر زبر ہے۔ 6 ستمبر کو ڈان چینل کے دل چسپ تگڈم میں مبشر زیدی سُستی شہرت کہہ رہے تھے۔ اگر وہ مزاحاً کہہ رہے تھے تو بھی نوعمر سامعین اسے سند سمجھ سکتے ہیں، اور ویسے بھی سَستی کو سُستی کہنے میں مزاح کا پہلو ہمیں محسوس نہیں ہوا۔ یہ کام مشتاق احمد یوسفی نے سلیقے سے کیا ہے۔
ابھی ’’تگڈم‘‘ کا ذکر آیا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ وہی ہے جو بگڑ کر تگڑم ہوگیا ہے۔ عوام کی زبان میں تگڑم لڑائی جاتی ہے، اور جو ایسا کرے وہ تگڑم باز کہلاتا ہے۔ لیکن یہ ’’تگڈم‘‘ کا بگاڑ ہے۔ اس کا مطلب ہے تین چیزوں یا تین آدمیوں کا میل۔ تین پتنگوں کے پیچ کو بھی تگڈم کہتے ہیں۔ اسے تگڈا بھی کہتے ہیں۔ نوراللغات میں اس پر تشدید ہے جب کہ علمی اردو لغت میں تشدید نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ شمارے میں محمود عالم صدیقی نے ابن انشاء اور مشتاق یوسفی میں طاہر مسعود کے ایک موازنے سے اختلاف کیا ہے۔ طاہر مسعود خود ایک مزاح نگار ہیں، وہ یہ کام کرسکتے ہیں۔ لیکن محمود عالم صدیقی کسی کی گرفت کرتے ہوئے ہمیں دو ایک باتیں ضرور سمجھا دیں۔ مثلاً ’’ہونٹوں پر زیر لب مسکراہٹ‘‘ کیا ہوتی ہے۔ (صفحہ 32) اور اس جملے کا مطلب کیا ہوا ’’چمن دبستان اردو کو گل و گلزار کردیا‘‘۔ کیا چمن بجائے خود گل و گلزار نہیں ہوتا؟ اور اگر خزاں رسیدہ ہو تو بھی ’’چمن دبستان‘‘ کیا چیز ہے؟ کیا صرف دبستانِ اردو یا چمنِ اردو سے کام نہیں چل سکتا؟ مشکل الفاظ تلاش کرکے مضمون کو بھاری بھرکم بنانا ہم جیسے لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش ہے تو وہ کامیاب رہے۔ چلتے چلتے یہ بھی بتادیں کہ ’’نقاط ہائے نظر‘‘ کیا چیز ہے؟ محترم، کسی لفظ کی جمع بنانے کے لیے ہائے ہائے کی جاتی ہے۔ لیکن نقاط تو خود جمع ہے۔ ہائے نکال دیں تو بھی فرق نہیں پڑے گا، اور اگر نقاط کی جگہ نقطہ لکھا جائے تو بات آسان بھی ہوجائے گی۔ لیکن یہ شاید مزاح پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
دبئی والے کمال ابدالی کی خدمت میں عرض ہے کہ مَقْدِس اور مقدّس دو الگ الگ الفاظ ہیں۔مَقْدِس کہتے ہیں پاک جگہ کو، جیسے بیت المقدس۔ اور مُقدّس کا مطلب ہے پاک کیا گیا، پاک، معصوم، بے گناہ، بزرگ، پارسا وغیرہ۔ چنانچہ بیت المقدّس کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حصہ