حجاب مسلمان عورت کا ٖفخر ووقار

267

سارہ احسان

عالمی یوم حجاب پر ہر باحجاب عورت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ حجاب اسلام کا عطا کردہ معیارِ عزت و عظمت ہے۔ حجاب ہمارا حق ہے۔ یہ کوئی پابندی یا جبرکی علامت نہیں ہے بلکہ حکمِ خداوندی ہے اور حجاب کا پسماندگی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ ہمارا فخر اور وقار ہے۔ دوسری یہ بات کہ حجاب مخالف پروپیگنڈہ، باحجاب خواتین کے ساتھ مذہبی امتیازی سلوک اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنے کے خلاف ہم سب مل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا سکیں تاکہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے حجاب پر عائد پابندی کا قانون ختم کروایا جا سکے، دنیا کے کسی بھی ملک میں جہاں خواتین حجاب لینے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کررہی ہے، اُن کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرسکے اور ان کو یہ یقین دلا سکے کہ وہ اکیلی نہیں ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں!
مغربی ممالک میں عورت کے حجاب لینے پر پابندی لگانا زیادتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی معاشرہ مسلم سماج میں بڑھتی ہوئی دینی بیداری اور شعور دیکھ کر خوف زدہ ہے۔ یہ خوف نائن الیون کے حملوں کے بعد دوگنا ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے مسلم معاشرے میں حجاب کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مغربی ذرائع ابلاغ خاصے خوف زدہ نظرآرہے ہیں۔ سب سے پہلے فرانس اور پھر ہالینڈ، جرمنی، ڈنمارک اور بیلجیم میں بھی حجاب پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ باحجاب خواتین پر تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ انہیں ہوائی اڈوں پر بے توقیر کیا جارہا ہے اور بازاروں میں توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو مغربی تہذیب کی یلغار میں بہت سے ممالک نے حجاب پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے، آئندہ بھی انھیں ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے ہاں معاشی و معاشرتی سرگرمی اور ترقی کا کوئی کام اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک عورت حجاب سے باہر نہ آجائے۔ حجاب کو مسلم عورت پر جبر، ظلم اور قید کی علامت قرار دیا جاتا ہے، لیکن دوسری طرف مغرب اس سے یوں خوف زدہ ہے جیسے یہ کوئی بم ہو جو انھیں تباہ کردے گا۔ انھوں نے دنیا میں کہنے کو معاشی ترقی تو حاصل کرلی لیکن عالم انسانیت کی اقدار کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ ان معاشروں کے اندر خاندانی استحکام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے۔ مرد کی سربراہی ختم ہوئی، عورت آزاد ہوئی، گھر سے باہر نکلی، پردے کی حدود و قیود توڑیں، ہوس ناک نگاہوں کا شکار ہوئی، جنسی بے راہ روی حد سے بڑھی اور اب عالم یہ ہے کہ ہر تیسری شادی کا انجام طلاق پر ہورہا ہے۔ بے سہارا بچے ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں اور بچوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ عورت جب شوہر کی قوّامیت کا سائبان چھوڑ کر اور بے حجاب ہوکر باہر نکلی تو خود مغربی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ہر چوتھی عورت بوائے فرینڈ اور شوہر سے پٹتی ہے۔ مغربی ممالک نے اپنے معاشرے کی اقدار کو تباہ و برباد کردیا ہے اور اب وہ ہماری قوم کا بھی یہی حال کرنا چاہتے ہیں۔ ہم عموماً اپنی قیمتی شے کو ہمیشہ دوسروں سے چھپاکر پردے میں رکھتے ہیں تاکہ اسے بیرونی اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے اور اس کی قدر و قیمت میں کوئی کمی نہ آئے۔ اسی طرح عورت بھی ایک بہت قیمتی چیز ہے، اس کو سیپ میں بند قیمتی موتی سے تشبیہ دی جاتی ہے، پھر کیسے کوئی عورت اپنے آپ کو بے پردہ کرکے سرعام نکلتی ہے اور اپنی اہمیت اور قدرو قیمت کو خود کم کرواتی ہے! ایک باحجاب عورت کے شوہر کو معلوم ہے کہ اس کی بیوی کا سارا حسن صرف اسی کے لیے ہے تو اس شوہر کے دل میں اپنی بیوی کے لیے کتنی محبت اور عزت و احترام ہوگا جس کی وجہ سے ان کا خاندانی نظام مستحکم ہوگا۔
یہ دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے کہ اِس سال بھی دوسرے اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عالمی یوم حجاب کو پورے جوش و خروش سے منانے کا اہتمام کیا جارہا ہے جس کا مقصد محض حجاب کا استعمال عام کرنا نہیں بلکہ اس کی اہمیت اور افادیت کو بھی اجاگر کرنا ہے۔ ہرگزرتے سال کے ساتھ یہ دن منانے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جب کہ بے شمار ایسی خواتین جو باقاعدہ حجاب نہیں کرتیں اس دن کی مناسبت سے مستقبل میں باحجاب رہنے کا عہد کررہی ہیں۔ شاید اسی لیے دنیا بھر کی خواتین میں حجاب کی مقبولیت بھی تیزی سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں حال ہی میں امریکا کے P E W ریسرچ سینٹر نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق تیونس، مصر، ترکی، عراق، لبنان، پاکستان اور سعودی عرب میں محض 4 فیصد خواتین ایسی ہیں جو حجاب کو پسند نہیں کرتیں۔ 12 فیصد حجاب نہیں لیتیں لیکن پسند ضرور کرتی ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد اسکارف لینے والیوں کو پسند کرتی ہے بلکہ خود لیتی بھی ہے۔ حال ہی میں پاکستانی شو بز سے وابستہ کچھ لڑکیوں نے واپس دین کی طرف رغبت اختیار کی ہے اور حجاب پہننا شروع کردیا ہے جن میں سارہ چودھری کا نام سرفہرست ہے، پھر عروج ناصر اور ستائش خان۔ یہ بہت مثبت قدم اور باقی لڑکیوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ حجاب ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، اس لیے وہ اسے پسند نہیں کرتے، اور یہ بھی کہ عموماً باحجاب لڑکیوں اور خواتین کو کم پڑھی لکھی بلکہ جاہل تصور کیا جاتا ہے، اور یہ بھی کہ ان کے اندر صلاحیتیں کم ہوتی ہیں اور وہ ماڈرن دور میں درپیش چیلنجوں اور مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ نہیں کرسکتیں کیونکہ وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوتی ہیں اور ان کے اندر خوداعتمادی کا فقدان بھی ہوتا ہے۔ ان کو اچھی ملازمتوں کے لائق نہیں سمجھا جاتا کیونکہ وہ اس ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکتیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے رشتے اچھے اور پڑھے لکھے گھرانوں سے نہیں آسکتے، نہ ہی آج کے دور کے لڑکے ان کو اپنا شریکِ سفر بناتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ تقریباً 80 فیصد لوگ باحجاب خواتین کو پسند کرتے ہیں، ان کو عزت و احترام دیتے ہیں، ان پر گندی نگاہیں نہیں ڈالتے، اور انہی سے شادی کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
اگر میں اپنی بات کروں تو حقیقتاً حجاب میری ترقی و کامیابی میں کبھی بھی رکاوٹ نہیں بنا، بلکہ یہ مجھے ایک ایسے تحفظ کا احساس دیتا ہے جس سے میرے اندر حوصلہ اور خوداعتمادی آتی ہے، جو عزت و احترام ملتا ہے اس سے دل میں بہت خوشی اور سکون ملتا ہے، زندگی میں آگے بڑھنے اور مزید کامیابی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ میں نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری حاصل کی جس کی وجہ سے مجھے دورانِ تعلیم مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر میں اپنے پروجیکٹس کے لیے جانا پڑتا تھا، میں جہاں جہاں بھی گئی مجھے بہت عزت اور پذیرائی ملی۔ وجہ میری ڈگری بھی تھی لیکن اصل وجہ میرا حجاب تھا۔ اسلام آباد کی ایک مشہورکنسٹرکشن کمپنی میں اپنے فائنل پروجیکٹ کے لیے بار بار جانا پڑتا تھا، وہاں پہ ماڈرن اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اسٹاف تھا۔ بات چیت کے دوران انھوں نے مجھ سے میرے حجاب کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے کہا کہ میں نے یونیورسٹی میں داخل ہوتے وقت حجاب لینا شروع کیا، مجھے معلوم تھا کہ اب میں عملی زندگی میں داخل ہورہی ہوں، طرح طرح کے لوگوں سے سامنا ہوگا تو یہ حجاب ہی میری حفاظت کرے گا اور مجھے عزت و احترام دے گا۔ وہاں پہ موجود ایک افسر نے کہا کہ اوپر سے تعریف تو ہم ایک ماڈرن سوچ رکھنے والی اور جدید فیشن کا لباس زیب تن کی ہوئی لڑکی کی کرتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ہم ایک پڑھی لکھی باحجاب لڑکی کو اپنی شریکِ حیات بنانا زیادہ پسند کریں گے۔ ابھی حال ہی میں، مَیں نے ملکی سطح پر منعقد مقابلہ مضمون نویسی میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اس کی تقسیمِ اسناد و انعامات کی پُروقار تقریب پاکستان سائنس فاؤنڈیشن میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں خواتین و مرد اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے اور جب میں اپنی فیملی کے ہمراہ ہال میں داخل ہوئی اور مجھے باحجاب پایا تو فوراً آگے بڑھ کر سب کو الگ الگ بٹھا دیا اور مجھے بھی بیٹھنے کو کہا۔ ان کے اس طرزعمل اور عزت و احترام دینے سے مجھے اپنا انعام لینے سے زیادہ خوشی دی۔ میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں جاب کرتی ہوں، وہاں پر بھی مجھے حجاب کی وجہ سے کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ ہر کوئی مجھے بہت عزت و احترام دیتا ہے جس کی وجہ میرے جاب اسٹیٹس سے زیادہ میرا حجاب اور رویہ ہے۔ میں اپنی خوشی بیان نہیں کرسکتی جب آفس میں مجھے میرے کولیگز سسٹر، اور سر بیٹی کہہ کر پکارتے ہیں۔ حجاب عورت کی زینت ہے۔ یہ شیطان اور اس کے ساتھیوں سے حفاظت کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ یہ حجاب ہی ہے جو عورت کو معاشرے میں باعزت مقام بخشتا ہے، حتیٰ کہ ایک نامحرم بھی بہن اور باجی کے الفاظ استعمال کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حجاب عورت کی عزت و ناموس کے لیے ایک ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے، یہ عورت کے لیے زرہ ہی ہے جو شیطان کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے اﷲکی طرف سے عورت کو ملی ہے۔

حصہ